ہیری میاں کا ولیمہ اور ٹیکس کا جنازہ


شادی کا کھانا تمام پاکستانیوں کا پسندیدہ کھانا ہے اور ”روٹی کھل گئی“ ہمارا قومی نعرہ جو ایسا ولولہ بیدار کرتا ہے جو شاید  مادام نور جہاں کی آواز میں پینسٹھ کی جنگ کے ترانے بھی نہ کر پائیں۔ ہر مرد و زن، بچہ بوڑھا اس للکار پر لبیک کہتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں ہوتا ہے۔ ہمارا یہ قومی مزاج دیکھتے ہوئے یہ کہنا بھی قرین از قیاس ہے کہ ہمیں دعوت افطاری کی طرح دعوت ولیمہ سے بھی بہت پیار ہے۔ اگر غلطی سے اس دعوت کو انکار کر بھی دیں تو وجہ صرف اپنا بھاؤ بڑھانا اور تحفہ بچانا ہوتا ہے۔ ذرا دلہے کا بہنوئی اور بھائی گھر کی دہلیز پار کیے نہیں اور ہم مانے نہیں۔

ولیمہ کسی کا بھی ہو ولیمہ تو ولیمہ ہوتا ہے۔ قورمہ تو قورمہ ہوتا ہے۔

ابھی کل ہی ہمارے ایکس آقاوں کے پوتے کا ولیمہ ہوا۔ بات تو بڑی شرم کی ہے لیکن یہ ذرا ڈھیٹ طبیعت کے واقع ہوئے ہیں۔ ہم پر حکومت کرتے ہوئے ہمیں بھی بغیر کسی عار کے لوٹتے چلے گئے تھے۔ بریکیں ندارد۔ ہمیں تو چھوڑیں ہمارے محلے سے بھی کسی کو نہ بلایا۔ کہتے ہیں کہ مہمان کم بلائے تھے۔ شادی بھی رمضان میں کی کہ خرچہ بچے اور لوگ کم آئیں۔ سمجھنے کی کوشش کرو نا چندا۔

ہم سمجھ تو گئے لیکن ساتھ ہی منہ بھی بسور لیا۔ دل ہی دل میں کڑوی کسیلی سنانے لگے۔ خیر دل کی بات دل میں کیوں رکھیں۔ خدا لگتی کہیں گے اور آپ سب کو سنائیں گے۔ مل کر صلواتیں سنائیں گے۔

پہلا نکتہ تو یہ کہ مانا آپ کو پیسے بچانے تھے۔ لیکن رمضان میں شادی وہ بھی عین دن کے وقت رکھنا انتہائی دکھ دیوا فعل ہے۔ شکر کیجئے کہ پولیس دیگیں اٹھا کر نہیں لے گئی۔ ہیری میاں ولیمے  کی تقریب چھوڑ کر تھانے کے چکر لگاتے رہتے تو مزا آتا۔ دلہن کے جوڑے کی طرف بھی آئیں گے۔ پہلے ذرا بڑی بھابھی کا تو مدعا حل کریں۔ مانا کہ ابھی چھلہ نہیں نہایا۔ لیکن یہ کیا کہ اکلوتے دیور کی شادی پر نیا جوڑا تک نہ بنایا؟ اپنی بہن کی شادی پر تو خوب بلیوں اچھل رہی تھیں۔ سچ ہے کہ بہوئیں کبھی کسی کی نہیں ہوئیں۔ ان کے دانت سسرال کے اور میکے کے اور۔

مہمانوں کا تو کیا ہی کہنا۔ سنا ہے گن کے چھ سو مہمان تھے۔ ویری گڈ بھیا۔ اس سے زیادہ تو ہمارے محلے کی سڑک پر تمبو لگے ولیموں میں ہوتے ہیں۔ کنجوسی میں بی ملکہ کا کوئی ثانی ہوا ہے بھلا؟ اپنی پریانکا چوپڑا بھی موجود تھیں۔ سادہ سا جوڑا اور چھوٹا جوتا۔ خرچہ خوب بچایا بہن۔ اس کی سلامی کا لفافہ چیک کر لینا ولیم میاں۔ کچھ نیک امید نہیں۔

آج سینتالیس میں گوروں کے انخلا کی خوشی بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ ورنہ اس شادی میں ہمارے ٹیکسوں کی سلامی بھی ہوتی۔ بلاوا تو کیا آنا تھا۔ بشپ مائیکل کری کی بھی جے ہو جنہوں نے شاہی شادی کو بالکل عامر لیاقت اسٹائل رمضان ٹرانسمیشن میں بدلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

اب آتے ہیں نئی بہو کی طرف۔ سسرال کی ناک کٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے غالبا۔ سادہ سفید چوغہ اور جارجٹ کا بے تکان لمبا دوپٹہ۔ ہمارے ہاں تو سہاگنوں کا سفید رنگ پہننا بدشگونی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ آج کل کی لڑکیاں کس کے کہنے سننے میں ہیں۔ سونا ندارد۔ نہ  ڈھنگ کا میک اپ نہ  بال۔ چار پیسے تو بچا لئے لیکن زمانے کو انگلی اٹھانے کا جوب موقع فراہم کیا۔

بظاہر تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ خرچہ کم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا  مناسب نہ سمجھا گیا۔ لیکن محلے میں چہ مگوئیاں تو کچھ اور ہی ہیں۔ کہیں سننے میں آ رہا ہے کہ چار کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا خرچہ یے۔ کوئی تین کروڑ بیس لاکھ کا رونا رو رہا ہے۔ اس میں سے بہت سی لاگت تو سیکورٹی پر لگ گئی۔ مہمانوں کی جان قیمتی جو ٹھہری۔

سچ پوچھئے تو یہ سن کر ہمارا بلاوا نہ ملنے کا افسوس کچھ زائل سا ہو گیا ہے۔ دل میں ایک کمینی سے خوشی نے گھر کر لیا ہے۔ اچھا ہوا بچو۔ انگریزوں کے ٹیکس کا اچھا جنازہ نکالا شاہی خاندان نے۔ بے وقوف لوگ اس پر بھی خوشی سے اٹھلاتے پھر رہے ہیں۔ نو بیاہتا جوڑے کی ایک جھلک دیکھنے کو بے چین ہیں۔ ترقی یافتہ ملک کے باشعور عوام دیکھ کر مزا آ گیا۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).