احوال امریکہ میں فضائی سفر کا


اقبال تو ہمیں شاہین ہی سمجھتے رہے مگر سچ یہ ہے کہ پرواز یا بہر حال فضائی سفر میں ہم آج بھی اسی طرح سے تذبذب کا شکار ہوتے ہیں جیسے بینک جاکر۔ ایسے ایسے کارنامے کر چکے ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔ درست وقت کا ٹکٹ خریدنے سے لے کر صحیح دروازے سے جہاز میں داخل ہونے تک غلطی کے بیسیوں مواقع ہیں اوراب تو فضائ میزبان جب تک پرواز سے کچھ دیر پہلے تک برقی آلات بند نہ کروا دے، یہ سارے مواقع گنتے ہوئے ہی وقت گزرتا ہے۔

 فضائ سفر باقی ذرائع آمد و رفت سے قدرے مختلف ہے۔  پہلے پہل تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ  اگر آپ کے پاس ٹکٹ ہے تو پرواز سے پہلے کسی وقت بھی جا کر حاضر ہو جائیے، آپ کو پرواز  کا پروانہ مل جائے گا مگر یہ ایک تلخ تجربے سے ہی پتا چلا کہ فضائی سفر پر خان ٹریولز کا قیاس نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ ٹکٹ پر دی گئی واضح ہدایت کہ کم از کم پینتالیس منٹ پہلے موجود ہوں، پر لفظ بہ لفظ عمل ہوتا ہے (کم از کم مشرق بعید اور امریکہ میں تو یہی ہے، وطن عزیز میں شاید منت سماجت اور “قائد اعظم کے واسطے” پر دربان اندر جانے دیتے ہوں)۔

ہمیں ایک کانفرنس کیلیے جو اگلے دن صبح سویرے سان فرانسسکو میں  شروع ہونی تھی، شکاگو سے رات کےپونے نو بجے پرواز کرنا تھی۔ ہم اپنے شہر سے شکاگو وقت سے بہت پہلے پہنچ گئےاور سوچا اس دوران شہر چل کر ایک دو کام نبٹا لیں، کچھ دیر پہلے پہنچ جائیں گے۔ تو جنا ب پندرہ منٹ پہلے خراماں خراماں حاضر ہوگئےاورمین کائونٹر پر بیٹھی خاتون سے نہایت اعتماد سے اپنی پرواز کا پوچھا تو وہ ہمیں اوپر سے نیچے نہایت بیچارگی تک دیکھنے کے بعد گویا ہوئیں، اتنی سی دیر پہلے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جہاز میں نہیں بٹھا سکتی۔ ہمارے ہاتھوں کے طوطے کبوتر سب ہی اڑگئے۔ بہت منت سماجت کی پر کچھ بات نہ بنی۔ ایسے میں یہ سمجھ آیا کہ اگراپنے سامان میں سے ضروری چیزیں لے کر چھوٹے بیگ میں ڈال لی جائیں اور جہاز کا دروازہ بند ہونے سے پہلے پہنچ جائیں تو کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ بس صاحب، تھوڑی دیر میں بیچ ائیرپورٹ گیلری ایک باریش صاحب افراتفی میں اپنا سامان کھول کر پہننے کے جوڑے الگ کرر ہے تھے۔ہمیں یقین ہے کہ کہیں کسی طرف کوئی ماں ہماری طرف اشارہ کرکے اپنے بچوں کو  عبرت دلا رہی ہوگی۔ اس سب کے بعد جیسے تیسے کر کے سیکورٹی سے گزر، ہانپتے کانپتے جہاز کے قریب پہنچے تو آنکھوں کے سامنے اسے بند ہوتے دیکھا۔۔۔سو ساری محنت رائیگاں گئی۔ زندگی بھر وہ بے بسی کی کیفیت نہ بھول سکے گی۔ ہم نے واپس جا کر اپنا سامان سمیٹا جو ابھی تک وہیں تھا ا ور وہ رات فضائی اڈے پر گزار اگلی پرواز لی۔

پاکستان میں خبروں میں سنتے تھے کہ فلاں سینیٹر اور فلاں ملکی عہدیدار کی مغربی ائیر پورٹ پر جامہ تلاشی لی گئی۔ ایسے واقعات کو حسب ذائقہ تڑکا لگا کر کسی ملکی پالیسی کا رد عمل بھی ثابت کر دیا جاتا تھا۔ بھلا ہو اخبار والوں کا کہ کبھی تلاشی کی تفصیلات بیان کرنے کی کوشش نہیں کی سو بھرم رہ گیا۔ پر حقیقت یہ ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں ہر ایک کا جسمانی معائنہ بہرحال کیا جا تا ہے۔ کم از کم درجے میں آپ کو جوتے اتار کر اور تمام دھاتی اشیاء (بشمول پتلون کی پیٹی کے) علیحدہ کر کے ایک ایکس رے مشین سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس کا چہرے پر بالوں کی مقدار، رنگت میں ایشیائی میلان یا پردے کی قسم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے کے مصداق سبھی کے ساتھ یہ برتائو ہوتا ہے۔ ویسے خصوصی توجہ کا شکار ہونے والوں کو بھی ہم جانتے ہیں اور ایسی صورت میں ہونے والی کوفت سے باخبر ہیں۔ عام طور پر آپ کے جاننے والے لوگوں میں اس طرح کی جگ بیتی سنانے والا ضرور کوئی نہ کوئی ہوتا ہے۔

انٹر نیٹ کی سہولت دینے میں امریکی ہوائی اڈے قدرے کنجوس واقع ہوئے ہیں اور یہ سہولت بغیر پیسوں کے دینے پر راضی نہیں ہیں۔ جی اور وہ جو کسی ہوائی اڈے میں تیس منٹ مفت انٹر نیٹ کا اشتہار دیکھتے ہیں اس کا بھی حال سن لیں کہ عام اوقات میں اس قدر سست ہوتا ہے کہ دو چار ویب سائٹس کھولنے کی کوشش کے بعد موبائل چھوڑ کر آپ کو لوگ گننا زیادہ دلچسپ لگتا ہے۔

پرواز کے دوران سہولیات کی اگر بات کی جائے تو  مقامی اور بین الاقوامی پروازوں میں قریب قریب وہی فرق ہے جو پنڈی میں چلنے والی “ون سی” اور ڈیوو کی بس سروس کا ہے۔ کہاں بین الاقوامی پروازوں میں اتنا اعزاز و اکرام کہ کھانوں کی کئی اقسام سے تواضع کیا جانا اور میزبان کا مسکرا مسکرا کر بات کرنا، اور کہاں مقامی پروازوں میں ان کا اس طرح گھور گھور کر جانا اور چکر لگانا کہ جیسے ہم سے نشست کا غلاف چوری ہو جانے کا اندیشہ ہو۔

 کسی دوسرے ملک سے آتے ہوئے شمالی امریکہ میں کہیں جہاز سے اتریں تو آپ کو اور طرح کے مراحل سےبھی گزرنا ہوتا ہے۔ پرواز کے اترنے سے پہلے ہی بنک کی رسید کی طرح کاایک کاغذ بھروایا جاتا ہے جس میں آپ کو ملک میں لائی جانے والی ایسی تما م املاک کاشمار کرنا ہوتا ہے جن سے آپ کسی قسم کا کاروباری فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر اس سارے عمل کا اہتمام ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی امتحان شروع ہوا چاہتا ہے اور ممتحن معروضی پرچہ بانٹ رہےہوں۔ ایسے میں سامان میں قلم ڈھونڈنا، پھر اس کاغذ کو بھرنا، اور اتنی جلدی قلم چھپا دینا کہ کوئی اور نہ مانگ لے،اترنے سے پہلے کی تیاریوں میں شامل ہے۔

ویسے حقیقت یہ ہے کہ نصف صدی سے فضائی سفر میں مشروبات اور کھانوں سے تواضع اور وقت  گزاری کے لیے لگے ٹی وی کے علاوہ کوئ  تبدیلی نہیں آئی۔ ایسے میں فضائی سفر میں حقیقی انقلاب مستقبل قریب میں تبھی آنے کی امید ہے جب “ہائپر لوپ” کاتجربہ کامیاب ہوجائے گا۔ مگر ہم جیسے سادہ لوح لوگوں کے جملہ مسائل شاید ویسے ہی رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).