احمد بشیر کی غیر مطبوعہ کہانیاں – جموں والی سردار بیگم کی کہانی


نیلم احمد بشیر، سنبل شاہد، بشری انصاری اور اسماء وقاص

ڈرائیور بسوں کو درختوں کے ایک جھنڈ میں لے گئے یہاں سینکڑوں سکھ ڈوگرے سپاہیوں اور مہا سبھائی سیوا داروں کا ایک ہجوم کھڑا تھا ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں، ننگی تلواریں، کچھ کے ہاتھوں میں چھیونیاں اور کلہاڑیاں تھیں۔ ۔ ۔ گاؤں کے کتے کچھ فاصلے پر کھڑے بھونک رہے تھے، بسوں کے رکتے ہی ہجوم نے جے بجرنگ بلی، ست سری اکال اور محمد علی جناح مردہ باد کے نعرے لگانا شروع کردیے، وہ ڈھول بجا بجا کر اپنے اوپر جنون طاری کررہے تھے۔ مسلمان مرد جی ہار گئے بعض نے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی مگر جس طرح پنجاب میں سانسیوں کے بُلی کتے کمادی بِلوں پر چھپٹتے ہیں اسی طرح ایک بھگوڑے کے پیچھے کئی کئی بلمیں، تلواریں اور کلہاڑیاں گنے کے کھیت میں گھس گئیں۔ ہم نے کسی کو گرتے اور پچھاڑ کھاتے نہ دیکھا، فقط چیخیں اور پکاریں سنیں، دیر تک شکار کی یہی کیفیت رہی پھر سانسیوں کے کتوں نے بسوں کو گھیرے میں لے لیا اور حکم دیا کہ سب نیچے اتر آئیں مگر کوئی بھی سیٹ سے نہ ہلا، پھر وہ مردوں اور عورتوں کو کھینچ کھینچ کر نیچے اتارنے لگے اور اسی میں بعض بلمیں اور نیزے انتڑیوں تک پہنچ گئیں، قاتلوں کی دیوانگی کمال تک پہنچ گئی میں حرکت نہ کر سکی۔

ماسٹر صاحب زیرک آدمی تھے انہوں نے کہا ٹھہرو بھائیوں ہم خود نیچے آتر آتے ہیں، ان کا لہجہ پرسکون تھا وہ نہایت اطمینان سے نیچے اتر آئے میں سب کو بسوں سے اتار دیتا ہوں پھر ہم سب زیور، کپڑا، نقدی اور گھڑیاں خوشی خوشی تمہارے حوالے کر دیں گے پھر انہوں نے جواب کا انتظارکیے بغیر مسافروں سے کہا سب نیچے اتر آؤ، جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں، کچھ بلوائی کتوں کی طرح غُرائے اور انہوں نے مسافروں کے گرد گھیرا ڈال دیا، ماسٹر صاحب بہت سبک رفتار تھے انہوں نے ہجوم کو مصروف پایا تو اچانک ایک جنگلی تیتر کی پھرتی سے کماد کے کھیت کی طرف بھاگے میں ابھی بس ہی میں تھی مگر سارا منظر دیکھ رہی تھی، آن ہی آن میں سانسیوں کے کتوں نے میرے میاں کو جا لیا۔ ایک نیزہ کھا کر ماسٹر جی گر گئے ان کے سینے اور پیٹ پر بندھی رکابیاں ایک وار بھی نہ روک سکیں۔ گرے ہوئے ماسٹر جی پر کرپانیں اور بلمیں برستی رہیں مگر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا ہوا تھا پھر کسی نے میری بانہہ پکڑ کر مجھے نیچے گھسیٹ لیا، میرے چار سال کے بیٹے نے بھی چھلانگ لگا دی، میری پانچ سال کی بیٹی سوٹ کیس کے اوپر بیٹھ گئی میری چھ سال کی بچی بس کے دروازے میں کھڑی تھی جب میں نے انہیں آخری بار دیکھا۔

قاتلوں نے یہ دیکھ کر کہ بسوں میں سامان بہت ہے عورتوں اور بچوں کے بجائے سوٹ کیسوں پر چھپٹنا شروع کردیا مگر بعض نے جواں عورتوں کی چوٹیاں پکڑ لیں، بوڑھی عورتوں کو جو کسی کام کی نہ تھیں انہوں نے ایک ایک دو دو ضربوں میں ختم کردیا بعض نیزوں نے بچوں کو بھی پرو لیا، بچوں کا کوئی اور کر بھی کیا سکتا تھا!

میدان میں بہت کام تھا سارے مرد ابھی مرے نہ تھے۔ ان کو قتل کرنا ضروری تھا سامان تو جہاں تھا وہیں تھا، عورتیں اندھا دھند بھاگ رہی تھیں مگر وہ کہاں جا سکتی تھیں۔ مردوں سے فارغ ہو کر ان سے بھی نمٹا جا سکتا تھا۔ بھاگتے بھاگتے جو گر جاتیں ان میں اٹھنے اور بھاگنے کی ہمت نہ ہوتی، بلوائی ان پر بے دلی سے ایک آدھ بلم مار کر انہیں مُردوں میں تبدیل کر دیتے بعض نے ان پر اتنی توجہ بھی نہ دی کیونکہ سامان سے بھری بسیں منتظر کھڑی تھیں۔

مجھے پتہ نہ تھا کہ میری دو ماہ کی پروین میرے سینے سے چمٹی ہوئی ہے مجھے دھکا لگا تو میں اوندھے منہ گر گئی فورا ہی ایک بوڑھی عورت میرے اوپر آن پڑی اس کے پیٹ سے خون کا فوارہ بہہ رہا تھا، دو تین گھنٹے میں میدان میں خاموشی چھا گئی۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں میں بہت تھکی ہوئی تھی میں سوجانا چاہتی تھی مگر نیند کوسوں دور تھی۔ میں سامان گھسیٹنے، چھپی ہوئی عورتوں کی سسکیوں اور قاتلوں کے قدموں کی آوازیں سنتی تھی مگر مجھے پتہ نہ تھا کہ میں زندہ ہوں یا مردہ!
پتہ نہیں پھر کس وقت مکمل سناٹا ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے آنکھ کھول کر سورج کی طرف دیکھا اس کی روشنی نرم تھی، میں نے سوچا کہ شاید یہ صبح کا ہی وقت ہے جب ہم گھر سے نکلے تھے، کسی کو بھی کچھ نہیں ہوا یہ سب وہم ہے، میں سوچا کہ اٹھ کر دیکھو میرے ماسٹر جی کہاں ہیں ان کے پیٹ پر بندھی اپنی جگہ پر رکابیاں بندھی ہیں یا ہٹ گئی۔ میرے بچے کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے کچھ کھایا پیا ہے یا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پوچھوں تو سہی
مگر مجھ میں اٹھنے کی طاقت نہیں تھی، میں نے آنکھیں بند کر لیں جب دوبارہ کھولیں تو میدان خالی ہو چکا تھا، جگہ جگہ لاشیں، کھلے ہوئے سوٹ کیس، کٹے ہوئے ہاتھ پیر بکھرے ہوئے تھے، ادھر ادھر خون کے سیاہی مائل لوتھڑے پڑے تھے جنہیں گاؤں کے کتے سونگھ سونگھ کر چاٹ رہے تھے۔ کٹے ہوئے ہاتھ پیروں کو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تھا کیونکہ ابھی وہ تازہ تھے۔
چھٹپٹے کا ایسا ہی سماں تھا جب میں اپنے بچوں کو پراٹھے کھلا رہی تھی اور سوچتی کہ تھوڑی دیر میں ہم لاری میں بیٹھ کر پاکستان پہنچ جائیں گے۔ ۔ ۔
یا اللہ تیری خیر، یا اللہ تیرا فضل!

اللہ کا شکر ہے میرے دل کو تھوڑی سی تقویت پہنچی اور ہوش و حواس بجا ہوئے۔ مجھے یاد آیا کہ میری بچی میرے سینے سے چمٹی پڑی ہے اسے دودھ پلانا چاہیے، میں نے آہستگی سے اپنی بچی کو نیچے سے نکالا تو مجھے پتہ چلا کہ میرے اوپر اب تک بوڑھی مری ہوئی عورت پڑی ہے اس کا خون میرے چہرے پر جم گیا ہے، تب مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنے ماسٹر جی کو نیزہ کھا کر گرتے دیکھا تھا، میرا پانچ سال کا بیٹا اور چار سال کی بیٹی بس کے پاس گرے ہوئے تھے مگر میری چھ سال کی بیٹی کہاں ہے میں نے اسے بس کے دروازے میں کھڑی دیکھا تو تھا۔ ۔ ۔
مجھے یہ سوچ کر قرار آ گیا کہ سب مر چکے ہیں، میں نے رونے کی کوشش کی مگر میری آنکھوں میں سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ بہا، میں نے اپنی دودھ پیتی بیٹی کو ہولے ہولے پیار کرنا شروع کردیا اور اسے دودھ پلانے کی کوشش کی، میں ایک لمحے کے لئے سارے دکھ بھول گئی۔

میری پروین، میری بچی نے میری چھاتی کے چھیچھڑے کو چوسنا شروع کیا تو میں حیران ہو گئی کہ اس میں دودھ کی نہر کیوں نہیں بہی۔ ۔ ۔
آسمان پر تارے نکل آئے تھے، میدان میں ہو کا عالم تھا، تمام زخمی مرچکے تھے، عین اسی وقت مجھے بڑے زور کی پیاس لگی، میں نے بڑی مشکل سے تھوک نگلی تو مجھے لگا کہ میرے حلق میں کانٹے اگ آئے ہیں، یہ کانٹے مجھے بڑی تکلیف دینے لگے، مجھے لگا پیاس سے بڑا دنیا میں کوئی دکھ نہیں میں اٹھکر بیٹھ گئی۔ ۔ ۔

بیٹھ کر میں نے حواس درست کیے، دن کے سارے واقعات ایک ایک کر کے مجھے یاد آنے لگے۔ مجھے یاد آیا کہ درختوں کے اس جُھنڈ کی طرف بڑھتے ہوئے بسوں نے ریلوے لائین پار کی تھی، ریلوے لائین جو جموں سے سیالکوٹ جاتی ہے،
یعنی پاکستان۔ امن، سلامتی، اطمینان
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2