بات پیڈز یا پیریڈز کی نہیں حیا کی ہے


مجھے ہم سب پر لکھنا اور پڑھنا اسی لئے پسند ہے کے یہاں ہر خاص و عام کی دلچسپی کا مواد میسر ہوتا ہے اور ہر شخص اپنی پسند ناپسند کے مطابق اس مواد تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو اس کی دلچسپی کا باعث ہو۔ گزشتہ روز ایک تحریر پڑھی جو  ماہ رمضان میں خواتین کی ماہواری کے دوارن آفس میں کھانے پینے اور مرد حضرات کے اس رویے کی عکاس تھی جس کا تقریبا ہر لڑکی ہی سامنا کرتی ہے لیکن یہ رویہ ہر کسی پر اتنا گراں نہیں گزرتا کے اس پر خاص طور پر تحریر لکھے جانے کا سوچا جائے، ہر بات بتانا لازم نہیں ہوتا اور ہر بات جاننا بھی لازم نہیں ہوتا جیسا میں اگر یہ کہنا یا لکھنا چاہوں کے شادی کے بعد سیکس، پریگننسی اور  ڈیلیوری کا عمل اور عورت کو اس کا سامنا؟ اور بلاگ لکھ کر بھیج دوں تو اس پر بلاگ لکھنا مقصود نہیں کیونکہ یہ انسان کی زندگی کا اہم حصہ ہے، قدرتی ضرورت ہے جو جبلت کی صورت میں ہر انسان میں پائی جاتی ہے اور اس کا پایا جانا کوئی گناہ نہیں، اور سب کو یہ بات پتا ہوتی ہے کے شادی خاندان بنانے کے لئے ہی کی جاتی ہے اور خاندان اہل وعیال سے مل کر ہی تشکیل پاتا ہے جس میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔

ہر بات کو کھول کھول کر بیان کرنا انسان کی زندگی کا حسن اور اس کی لطافت اور حیا کو چھین لیتا ہے، ہاں اگر میں ایک ڈاکٹر ہوں تو میں حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیدائش یا اس عمل میں ممکنہ خدشات کو پیش نظر رکھ کر عورت کی زندگی کو بچانے یا رہنمائی فراہم کرنے میں معاون ہوسکتی ہوں اور ایسا مواد لکھنے کی اہلیت بھی رکھ سکتی ہوں لیکن میں کبھی یہ نہیں چاہوں گی کے میرا جسم یا میری جسمانی ضرورت دوسروں کے لئے ایک چٹ پٹےمواد سے زیادہ کچھ نہ ہو اور میں اور میرا لکھا ہوا مواد“ ایک لڑکی ایک تماشہ“ بن جائے۔ میں بھی عام لڑکی جیسی ہی ایک لڑکی ہوں، میرا جسم اور میری ضرورت بھی خدا کے ان ہی اصولوں کے تحت گھومتی ہے جیسے کسی اور لڑکی کی، لیکن کچھ چیزیں پردے میں ہی اچھی لگتی ہیں۔

ابھی اللہ کا کرم ہے کہ وہ دور نہیں آیا کہ بہن بیٹیاں، باپ اور بھائی سے اپنی ذاتی ضروریات کے لئے رجوع فرمائیں، سیلز گرلز موجود ہوتی ہیں معاونت فراہم کرنے کے لئے، ہر عورت آزاد ہے اور سکون سے کسی بھی سپر اسٹور سے جاکر جو چاہے خرید سکتی ہے، ایسے تو کچھ عرصے بعد یہ مطالبہ بھی بلاگ کی شکل میں آسکتا ہے کے مرد حضرات کو خواتین کے انڈرگارمنٹس سیکشن میں گھومنے پھرنے اور من پسند انڈرگارمنٹس خریدنے کی آزادی ہونی چاہیے؟ جب بیٹیوں کو باپ اور بھائی سے پیڈز منگوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے تو میرا خیال ہے بیویوں کو بھی شوہروں کو فہرست بنا کر اسٹور پر روانہ کردینا چاہیے کیونکہ وہ اگر اپنی پسند سے آپ کی شاپنگ کرے گا تو آپ کو زیادہ خوشی اور راحت میسر ہوگی اور آپ کی بھی جان چھٹ جائے گی اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مغزماری اور تکان سے۔

کچھ معاملات میں شعور و آگاہی کی اشد ضرورت ہے جیسے حقوق نسواں، حفظان صحت کے اصول اور دیگر مرد اور خواتین کے معاملات جو معاشرے میں مثبت سوچ اور معاشرے میں پائی جانے والی ناہمواریوں کے ساتھ ساتھ بہتر زندگی گزارنے کے اصولوں کو پروان چڑھاسکیں اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں مدد دے سکیں ناکے عورت کے وجود کو ہر شخص کے لئے پیریڈز اور پیڈزکی جدو جہدکامحور بناکے رکھ دیں، کیونکہ اللہ پردہ رکھنے کو پسند فرماتا ہے اور اسی پردے کو اس نے رشتوں میں منتقل فرمایا ہے تاکہ رشتوں کا تقدس پامال ناہو اور حیا کا دامن ہاتھ سے نا چھوٹے ورنہ ہمیں کبھی یہ آگاہی نا ہوتی کیا بات ماں سے کرنے کی ہے اور کیا باپ سے، اور کس چیز کے لئے کس سے رجوع کرنا ہے، بچہ پیدا ہوکر ماں کو دےدیا جاتا ہے دودھ پلانے کےلئے آخر کیوں؟   کیا باپ انتظام نہیں کرسکتا؟ ذرا سوچیے آج ہم پیڈز باپ سے مانگنا چاہتے ہیں اور رمضان میں ماہواری اور کھانے پینے کی دشواری پر لب کشائی کررہے ہیں۔

اسی بارے میں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).