موٹر سائکل چور کو عاشقی مہنگی پڑگئی


چھٹی کے صبح دیر سے سو کر اٹھا، تو گھر والوں نے ناشتے میں گرما گرم کچوری کی فرمایش کی۔ موٹر سائکل کی چابی گھماتے جب گیراج میں پہنچا تو موٹرسائکل دکھائی نہ دی۔ پہلا خیال آیا کہ بڑے بھائی کسی کام سے نکل گئے ہوں گے، لیکن چابی تو میرے ہاتھ میں تھی؛ ماتھا ٹھنکا۔ سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے کی دو ماہ پرانی موٹر سائکل چوری ہوجائے تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں، کہ اس کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ کچھ دیر بعد حواس بحال ہوئے، تو گھر میں سب کو بتایا کہ موٹر سائکل چوری ہوگئی ہے۔

بھاگم بھاگ تھانے پہنچے؛ ایف آئی آر درج کروائی۔ گھر واپس پہنچے تو ہر شخص تعزیتی انداز میں ہمارے لٹکے ہوئے چہرے پر نظر ڈالتا اور مزید افسوس کا اظہار کرتا۔ بہی خواہوں نے ان گنت مشورے بھی دیے، جو قابل عمل تھے؛ ان پر عمل بھی کیا، لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا، سو صبر و شکر کرکے بیٹھ گئے۔

یہ واقعہ اگست  1983ء کا ہے۔ ان دنوں میں ایک سرکاری ادارے میں بطور ٹرینی ملازم تھا۔ موٹر سائکل چوری ہونے کے چند ماہ بعد کی بات ہے، دفتر سے گھر پہنچا تو امی نے ایک لفافہ تھما دیا۔ ”تمھارے نام خط آیا ہے“۔ لفافے پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی، تو ایک کونے میں چوری شدہ موٹر سائکل کا رجسٹریشن نمبر لکھا نظر آیا۔

فوری طور پر تو ذہن میں یہی آیا کہ موٹر سائکل کے کاغذات ہوں گے۔ بے دلی سے لفافہ چاک کیا تو اس میں دو صفحے کا خط لکھا ہوا تھا، جو من جانب چور تھا۔ اس زمانے کے چور بھی خاندانی ہوتے تھے، یعنی اپنے حقیقی نام سے خط لکھا، معذرت کے ساتھ موٹر سائکل چوری کا پورا طریقہ کار لکھا اور چوری کے عمل میں شریک تمام دوستوں کے حقیقی نام مع درست پتے بھی لکھے، چور دوستوں سے اختلافات کی وجوہ بھی بیان کیں اور یہ بھی لکھا کہ آپ کی موٹر سائکل فلاں جگہ فلاں شخص کے فلیٹ کی پارکنگ میں کھڑی ہوئی ہے۔

جب دونوں بڑے بھائی دفتر سے واپس آگئے، تو مشورہ کیا۔ ایس ایچ او ہمارے ایک عزیز کے جاننے والے تھے۔ خط کی فوٹو کاپی ایس ایچ او صاحب کے حوالے کر آئے۔

دوسرے دن جستجو ہوئی کہ تھانے جاکر تازہ ترین صورت احوال معلوم کی جائے۔ منجھلے اور بڑے بھائی کے ساتھ تھانے پہنچے؛ ہیڈ محرر صاحب سے پوچھا کہ ہماری شکایت پر کیا کارروائی ہوئی، تو انھوں نے سلاخوں کے پیچھے کھڑے دو لڑکوں کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ قابو آگئے ہیں۔ مرکزی چور نے اپنا نام تو لکھ دیا تھا لیکن پتا نہیں لکھا تھا، اس لیے وہ پہنچ سے دور تھا۔

گرفتار شدہ ایک لڑکے کے بھائی کو جب پتا چلا کہ ان کے بھائی کو ہماری شکایت پر گرفتار کیا گیا ہے، تو وہ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ نے کس بنیاد پر میرے بھائی کو گرفتار کروایا؟ خط کی ایک فوٹو کاپی ان کے بھی حوالے کی اور ہم گھر واپس آگئے۔

تیسرے روز شام کو پھر تھانے پہنچے، تو گرفتار شدہ لڑکے کے بھائی میرے پاس آئے اور کہا کہ اس طرح کے خطوط تو ہمارے گھر بھی آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے گھر آنے والے خطوط دکھائے۔ واقعی سب تحریروں کا خط ایک جیسا تھا۔ نہایت شرمندگی کے عالم میں انھوں نے خط لکھنے والے لڑکے کا نام اور وجہ بتائی کہ بہن اسٹیج ڈراموں میں کام کرتی ہے۔ چور ان کا پرانا محلے دار ہے، اور ان بہن کو پسند کرتا ہے، لیکن ہم نے اس کی منگنی خالہ زاد بھائی سے طے کردی ہے؛ اس لیے وہ برہم ہے اور اپنے خط میں میرے بھائیوں اور بہن کے کے منگیتر کے نام پتے لکھ دیے؛ تاکہ پولیس ان کو پکڑے۔

میرے مشورے پر انھوں نے یہی کہانی ہیڈ محرر کو سنائی۔ نام پتا بتا دیا گیا، ہم بھی جم کر تھانے میں بیٹھ گئے، تو ہیڈ محرر صاحب ہمیں خاصی دیر بیٹھا دیکھ کر مسکرائے اور بولے بیٹا رات گیارہ بجے آجانا، تم بھی؛ دیکھنا پولیس کیسے کارروائی کرتی ہے۔

وقت تھا کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سردیوں کے دن تھے، رات گیارہ بجے تک پولیس نے چھاپے اور گرفتاری کی تیاری مکمل کی اور میں بھی ان کے ساتھ پولیس موبائل میں بیٹھ گیا۔ جب گھر مل گیا تو پولیس نے گھر کو تین طرف سے گھیر لیا اور صدر دروازے پر جا کر میں نے دستک دی اور پوچھا کہ محمود گھر پر ہے؟ چور کے گھرانے کے متعلق علم ہوچکا تھا کہ دین دار گھرانے کے طور پر جانا جاتا ہے اور گھر والے خود محمود کی حرکتوں سے تنگ ہیں۔ دستک دینے پر چور کے والد دروازے کی اوٹ سے ’نہ‘ میں جواب دے ہی رہے تھے کہ پولیس اہل کار یک دم گھر میں داخل ہوگئے اور چند لمحوں میں چور کو باہر لے آئے اور گاڑی میں بٹھا کر تھانے۔

دوسرے دن اس امید کے ساتھ پہنچے کہ شاید موٹر سائکل کا کوئی سراغ مل جائے۔ ہیڈ محرر صاحب نے بتایا کہ موٹر سائکل چور کی ایک ہی رٹ ہے۔ ہاں میں نے موٹر سائیکل چرائی تھی، اور دیگر ملزمان بھی میرے ساتھ تھے اور ایک دن چوری شدہ موٹر سائکل پر ہم تینوں کلفٹن جارہے تھے، تو پولیس پیچھے لگ گئی اور ہم موٹر سائکل وہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ہیڈ محرر صاحب نے کہا کہ میں ایک پولیس والا آپ کے ساتھ کروں گا، کلفٹن کی حدود کے تمام تھانوں میں جا کر اپنی موٹر سائکل تلاش کر کے دیکھ لو، شاید مل جائے۔ الحمدللہ، سول لائنز تھانے کے بیت المال میں میری موٹر سائکل موجود تھی۔ اے ایس آئی نے متعلقہ تھانے میں خود بات کی اور مجھ سے کہا، آپ موٹر سائکل لے کر گھر جاؤ، باقی کے معاملات میں خود دیکھ لوں گا۔ ہم نے چابی لگائی تو جناب موٹر سائکل اسٹارٹ اور ہماری خوشی کے ٹھکانے نہیں۔

اس کے بعد کبھی موٹر سائکل کے حوالے سے تھانے جانے کی نوبت نہیں آئی اور نہ ہی ہم نے پلٹ کر پوچھا کہ چوروں کے ساتھ پولیس نے کیا معاملہ کیا۔ واقعے کا ایک پہلو یہ ہے کہ پولیس کے عملے نے متاثرین چور کا بھرپور ساتھ دیا اور مجھے پائی پیسا اپنی جیب سے خرچ نہیں کرنا پڑا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ عشق واقعی مہنگا پڑتا ہے اور عشق کرنا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ اگر چور صاحب لڑکی سے زیادہ اپنے کام دھندے پر زور دیتے، تو یوں عاشقی معشوقی میں نہ پکڑے جاتے اور نہ پولیس کے ڈنڈے کھاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).