بابوں کیلئے نصیحت


کہتے ہیں کہ بابیوں بغیر بکریاں نئیں چردیاں لیکن عجیب معاشرہ ہے انہی بابوں کو گھر کا بوجھ سمجھا جاتا۔ تقریبا ہر گھر میں بابوں کی ایسی ہی حالت زار ہے کہ ان کو گھر کی نئی مالکن طعنوں سے روزانہ مار دیتی ہے لیکن اتنے صابر اور باہمت ہیں کہ پل پل مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بابے کیساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے تو وہ سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ بوجھ تو آپ سمجھتے ہیں اور جو حقیقتا ایسا سمجھتے ہیں وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ جو کماتا نہ ہو وہ بوجھ ہی تو ہوتا ہے ۔ بالکل یہ بات تو سچ ہے کہ جو کماتا نہ ہو وہ گھر کیا اس ملک کیلئے بھی بوجھ ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کیٹیگری میں صرف بابے تو نہیں آتے گھر کی نئی مالکن کے بچے بھی تو کماتے نہیں۔ وہ بھی صرف کھاتے ہی ہیں بلکہ اپنی منواتے بھی ہیں۔ تو پھر وہ گھر کیلئے بوجھ کیوں نہیں ہوتے ان کو ایسے طعنے کیوں نہیں ملتے۔ بلکہ الٹا ان کے ہر نخرے کو پہلی فرصت میں پورا کیا جاتا ہے۔ اگر تو کہا جائے کہ یہ پیار کی بات ہے کیونکہ وہ پیارے ہوتے ہیں اس لیے ان کی ہر بات مانی جاتی ہے لیکن کیا بابے کسی کے پیارے نہیں ہوتے کیا ان سے پیار جتانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان کو اتنی ہی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جتنا وہ اپنے پوترے پوتریوں سے پیار کرتے ہیں۔

کمانے والے بابے کی عزت ہوتی ہے لیکن اتنی ہی جتنی وہ کمائی کر کے لاتا ہے یاں یوں کہہ لیں کہ ان کی صرف مہینہ کے پہلے ہفتہ میں پیار سے بات کی جاتی ہے۔ صرف نئی مالکن ہی نہیں بلکہ اس کی اپنی گھر والی اس کو پہلے ہفتہ کے گزر جانے کے بعد چائے بھی پوچھنا گوارا نہیں کرتی۔ بیچارہ بابا پورا مہینہ حقہ کی نلی کو ہاتھ میں تھامے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے روٹی کا انتظار ہی کرتا رہتا ہے۔ کچھ گھروں بابوں کو بوجھ اس وقت سمجھا جاتا ہے جب اس کو جائیداد تقسیم کیے ہوئے مہینہ گزر جائے۔ اور کچھ کو جائیداد کے ہوتے ہوئے بھی بوجھ ہی سمجھا جاتا ہے اور اس سے چھٹکارا پانے کیلئے تقریبا گھر کا ہر فرد مصلے پہ بیٹھا اس کیلئے ہی دعائیں کرتا رہتا ہے کہ کب یہ جائے اور ہمیں کوئی مرلہ نصیب ہو۔

سہیل ورائچ صاحب ایک مشہور صحافی ہیں ایک دن وہ کسی پروگرام میں شعبہ کامیڈی سے منسلک لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے کہ زندگی میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں اس لیے جب آپ آسمانوں کی بلندیوں کو چھو رہے ہوں تو اپنے لیے اتنا بچا کر رکھو کہ واپس زمیں پہ آ کر زندگی کو اچھے طریقے سے گزارا جاسکے۔ جب میں نے یہ بات سنی تو سوچا کہ یہ نصیحت تو ہر کسی کو اپنانی چاہئے خصوصا بابوں کو جو کہ تمام عمر کمائی کرتے اور بیٹوں کی فکر کرتے گزار دیتے ہیں اور اپنے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں رکھتے تو پھر جو ان کے ساتھ سلوک ہوتا ہے اس سے وہ پل پل مرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر انھوں نے اپنے لیے کچھ سوچا ہوتا تو صورتحال شائد مختلف ہوتی۔ اگر بابے جائیداد کی وراثت کے وقت اپنے نام کچھ زمیں رہنے دیں اور یہ شرط عائد کردیں کہ جو کوئی خدمت کرے گا وہ یہ زمین حاصل کر لے گا۔ پنشن والے بزرگوں کو بھی ایسی ہی کوئی چال چلنی چاہئے پنشن لیکر سنبھال کر رکھ لیں اور پھر پورا مہینہ اس کو صرف کرتے رہیں جب تک اگلی پمشن وصول نہیں ہوتی۔ ایسے میں ان کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑے گا حتی کہ اپنے بیٹے کے آگے بھی نہیں یوں وہ گھر کا بوجھ نہیں سمجھیں جائیں گے۔ اور جو فارغ ہوتے ہیں ویسے تو ہر بابا فارغ ہی ہوتا ہے لیکن میرا یہاں مطلب ہے کہ جن کی آمدن کا ذریعہ صرف ان کا بیٹا ہوتا ہے تو ان کیلئے نصیحت یہی ہے کہ وہ گھر کی مالکن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کریں ہر دم اسی کا پانی بھرتے رہا کریں تو پھر کسی کو جرات نہیں ہو گی کی وہ بابے کو گھر کا بوجھ سمجھے یا اس کو ایسا کوئی طعنہ بھی دے۔

سیٹھ وسیم طارق
Latest posts by سیٹھ وسیم طارق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).