راج ہنسوں کی آخری نسل میں شادی


محبت اور سیاست کے چیستان میں پرنس ہیری نہ تو پہلا شہزادہ پے جو ایک مطلقہ اور اپنی سے عمر میں بڑی عورت کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا نہ ہی یہ یہ شاہی رسم و رواج کی آہنی فصیل میں پہلا شگاف ہے۔

اس خارزار کا پہلا راہ نورد موجودہ ملکہِ برطانیہ کا چچا کنگ ایڈورڈ ہشتم تھا جس نے نہ صرف عمر میں بڑی بلکہ اپنے سے دراز قد امریکی مسز ویلس سیمپسن کو دل دے دیا جو ناخوشگوار ازدواجی نشیب و فراز سے گزر رہی تھی۔

 اور وہ جو کہتے ہیں کہ عشقِ صادق عقل و خرد و تاج و تخت کا دشمن ہے تو اسی لافانی جذبے کی اندرونی پکار نے کنگ ایڈورڈ ہشتم کو بھی مذہبی، قانونی، سیاسی ، اخلاقی تنقید اور رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں اپنا فیصلہ تحریر کر کے قلم توڑنے پے مجبور کر دیا۔

چرچ آف انگلینڈ کسی طور بادشاہ کو ایک طلاق یافتہ عورت سے شادی کر کے ملکہ بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا لہذا یہ ممکن نہیں تھا کہ کنگ ایڈورڈ ہشتم ویلس سمپسن سے شادی کے بعد برطانوی تاج و تخت کا مالک رہ سکتا۔

ہز میجسٹیز ڈیکلریشن آف ایبڈیکیشن ایکٹ 1936 ء کے تحت کنگ ایڈورڈ کوتاج و تحت سے دست بردار ہونا پڑا اور جانشینی اپنے بھائی جارج اول کو سونپنا پڑی. موجودہ ملکہ انہی جارج اول کی صاحبزادی ہیں۔

 ایک طرف تو عزمِ مصمم اور عشق کی خاطر تاج و تحت ٹھکرانے کا غلغلہ تھا دوسری طرف ویلس سمپسن کو پیسے کی پجاری، بے وفا اور شہرت اور منصب کی ہوس میں دیوانی عورت کے القاب مرحمت کیے جا رہے تھے

ان دونوں نے نہ صرف محلات کی چکا چوند روشنی کو خیرباد کہا بلکہ برطانیہ کو چھوڑکر پیرس کے مضافات میں ایک خوبصورت ولا میں منتقل ہوگئے میں منتقل ہوگئے جسے فرانسیسی La Villa Windsor (à l’origine nommée Château Le Bois) ونڈسر ولا : المعروف عشقِ صادق کی یادگار کہتے ہیں۔

موجودہ ملکہ برطانیہ کی اکلوتی چھوٹی بہن شہزادی مارگریٹ نے بھی چچا جان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہی حلقے سے باہر عمر میں خود سے سولہ برس بڑے ، شادی شدہ ، دو بچوں کے باپ پیٹرٹاؤن سینڈ کو رفیق حیات بنانا چاہا۔ افواہ گرم تھی کہ پیٹر نے شہزادی مارگریٹ کی رفاقت کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دی ۔ مگر زندگی شہزادی مارگریٹ پر بھی مہربان نہ رہی اسے بالآخر شاہی فوٹو گرافر لارڈ اسنوڈن سے شادی کرنا پڑی اور نتیجہ طلاق نکلا۔

 شہزادی مارگریٹ کی ناکام محبت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے عمداً پیٹر سے دور کرنے میں سگی بہن یعنی ملکہ نے اقرار بھری مصلحت سے کام لیا۔ چرچ نے شادی پر دو سال کی پابندی لگائی. پیٹر کا تبادلہ لندن سے برسلز ہو گیا اور اس دوران شاہی فوٹو گرافر اسنوڈن کو ارل کا منصب دے کر ” خاندانی ” بنا لیا گیا۔

شہزادی مارگریٹ کی حیات اور شخصیت کے بارے میں بہت سی کتب اور مضامین لکھے گئے جن میں نفسیاتی تجزیات سے ثابت کیا گیا کہ شہزادی کو اولین عشق کی نارسائی کی دیمک چاٹ گئی۔

مگر جو شادی بہت ارمانوں اور چاہ سے ارینج میرج کی طرح ہوئی اس کا بھی کیا حشر ہوا۔ولی عہد چارلس کے لئے ملکہ نے چاند سی بہو ڈیانا کا انتخاب کس کس احتیاط سے نہ کیا۔ پر اس نے بھی ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ ،

” میں اس ملک کی ملکہ بننے کے بجائے دلوں کی ملکہ بننا چاہتی ہوں ”۔

یہ بات سن کر ممکن ہے ملکہ نے من ہی من میں ” در فٹے منہ ” کہا ہو مگر وقت نے ڈیانا کا ہاتھ پکڑا اور اسے دلوں کی ملکہ بنا دیا۔

وقت کی قلمرو ، جہاں کوئی پچھتاوا کوئی ملال قدم نہیں رکھ سکتا ۔

ڈیانا کی موت کے پتھر نے یورپ کے شاہی محلوں کی منجمد روایات کے تالاب میں بھی ارتعاش پیدا کیا۔ بالخصوص اسکینڈے نیویا میں شہزادوں نے عام خاندانوں کی لڑکیوں کو شادی کے لئے منتخب کرنے کی جرات دکھانا شروع کی ۔ اپنے ہی جیسے نیلے خون والے خاندان میں شادیاں کرنے کا غیر تحریری قانون چیلنج کیا اور یورپی شاہی خاندانوں میں قرابت اور سیاست کو مستحکم کرنے کے اصولوں پر کی جانے والی شادیوں کے شکنجے کو ڈھیلا کر دیا۔

 خود ملکہ الزبتھ جو اپنی شادی کو سعادت مند بچی کی طرح کامیابی سے نبھا رہی ہیں انہوں نے بھی ڈیانا کی موت اور اپنے دیگر بیٹوں کی گذارہ ٹائپ شادیاں دیکھ کر تخت سے تو نہیں البتہ نئی روایات کے حق میں ” خصماں نوں کھاؤ ” کہہ کر دستبرداری اختیار کر لی۔

پرنس ہیری نے جب اپنے لیے امریکہ سے عمر میں خود سے بڑی معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے متنازع اور طلاق یافتہ اداکارہ کو اپنی زندگی کا ہمسفر منتخب کیا تو یہ شاہی خاندان بالخصوص ملکہ کے لئے کوئی ایسی ناقابل یقین بات نہیں تھی جس سے انہونی کا دھچکہ لگتا۔ ملکہ کے پوتے پرنس ہیری اور میگھن مرکل کے لیے معاملات نسبتا سہل رہے۔ان کے راستے کے بہت سے کانٹے ان سے پہلے آنے والے عاشقوں نے چن د ئیے تھے ۔پھر ہیری اس ماں کا بیٹا ہے جو آج بھی دلوں کی حکمران ہے۔ملکہ نے ڈیانا کی موت کے بعد شہزادہ چارلس کی ایک طلاق یافتہ سے دوسری شادی میں شرکت نہیں کی مگر اپنے پوتے کی شادی میں اہتمام سے شامل ہوئی۔ اکیس برس قبل بکنگھم پیلس کے باہر ایک سیاح کی صورت بیٹھی میگھن مرکل نے شاید کبھی تصور بھی نہ کیا ہو کہ دو دہائیوں بعد وہ ایک شہزادی کے روپ میں اسی محل میں داخل ہو گی۔

ڈینش الف لیلوی کہانیوں کے مصنف ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانی بطخ کا بد صورت بچہ، جسے قسمت بطخوں کے ڈربے سے نکال کر راج ہنسوں کے پاس لے آئی۔

یہ اپنے دور کے آخری راج ہنس ہیں۔ان کی اولادیں شائد مستقبل کی کتابوں میں بنے ماضی کے محلات کی مکین ہو جائیں۔ اس لئے دیکھ لو آج ہم کو جی بھر کے۔۔۔

صدف مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف مرزا

صدف مرزا کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مقیم ادیبہ، مترجم اور صحافی ہیں۔

sadaf-mirza has 3 posts and counting.See all posts by sadaf-mirza