میں شوخ رنگ نہیں پہن سکتی


مدرز ڈے پر امی کے لئے جوڑا خریدنا تھا۔ آدھی دکان کے کپڑے دیکھ لئے۔ جب بھی کوئی اچھا لگا تو ماں کی آواز کانوں میں گونج گئی، یہ رنگ میں نہیں پہن سکتی، ہر بار اس بحث پر میں امی سے یہی کہتی تھی، امی سارا جوڑا تو لال یا گلابی نہیں ہے، کہیں کہیں شوخ رنگ ہے، سب پہنتے ہیں، آپ کیوں نہیں پہن سکتیں؟ ابو کے انتقال کے بعد امی نے کبھی شوخ رنگ نہیں پہنا، ان کو ہمیشہ معاشرے کے اس خود ساختہ اصول کی پیروی کرتے دیکھا کہ بیوہ خاتون شوخ رنگ نہیں پہن سکتی، بحیثیت انسان کیا بیوہ عورت کے پاس مرضی سے جینے کا حق نہیں؟ کیا اس کا دل نہیں کرتا ہو گا کہ وہ اچھے رنگ پہنے؟ اچھی لگے؟ ہاں اگر کسی عورت کی یہ ذاتی پسند ہو تو الگ بات ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین پر جو خاص اصول و ضوابط لاگو کر دئیے گئے ہیں، کیا یہ شخصی آزادی سلب کرنے کے مترادف نہیں ہیں؟

رنگ ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انسان خواہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو وہ نہ صرف رنگوں کے امتزاج کی طرف متوجہ ہوتا ہے بلکہ وہ خود بھی ان رنگوں کو اپنے لئے استعمال کر کے ایک خاص خوشی محسوس کرتا ہے۔ رنگوں کی نفسیات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ رنگوں میں انسانی جسم اور ذہن پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے رنگ ہمارے احساسات اور جذبات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ سرخ رنگ خوشی، شوخ اور غصے کی علامت ہے، نیل ارنگ دسعتوں کو ظاہر کرتا ہے، سبز رنگ انسان کو ٹھنڈک اور سکون بخشتا ہے۔ اسی طرح متعدد رنگوں کے بارے میں مختلف خیال ظاہر کیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں شخصی آزادی کی راہ میں دقیانوسی رسم و رواج کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں وہیں لباس اور رنگوں کے معاملے میں بھی موقع مناسبت اور عمر کے لحاظ سے عورت کو پابند کر دیا گیا ہے کہ اس کو کب، کہاں اور کس عمر تک کونسا رنگ پہننا ہے۔ ہم معاشرے کی ان بھونڈی رسومات سے کسی کے ذہنی و جسمانی سکون یا خوشی پر بھی اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات سے انکا ر نہیں کہ ہر رنگ کوئی خاص پیغام دے رہا ہوتا ہے اگر شوخ رنگ خوشی کا پیغام دیتے ہیں تو کیا ایسی خواتین کو خوش رہنے کا حق نہیں ہے؟ اگر وہ کوئی شوخ رنگ پہنتی ہیں تو ضروری ہے کہ اسے ازدواجی حیثیت سے ہی دیکھا جائے، ا ور اگر کوئی عمر رسیدہ خاتون سرخ یا گلابی رنگ پہن لے تو اسے کہا جائے کہ اب کونسی عمر ہے کہ یہ رنگ پہنا جائے۔ ہر انسان خواہ مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا جوان ہر کسی کی چاہت ہوتی ہے کہ وہ اچھا لگے ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنی مرضی کا رنگ پہن کر زیادہ اچھا محسوس کرتا ہے مگر ہمارے ہا ں حوصلہ افزائی یا تعریف سے زیادہ تنقید پر زور دیا جاتا ہے۔ کسی کی پسند نا پسند پر پہرے لگانا ہمارے معاشرے میں سماجی اور مذہبی طور پر جائز سمجھا جاتا ہے۔

ایک طرف تو بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون پہلے ہی زندگی کے بد ترین تجربے سے گزر چکی ہوتی ہے اور دوسر ی طرف اس پر زندگی کو اتنا تنگ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس اور رنگ بھی نہیں پہن سکتی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسی خواتین کو اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر میں نے صرف شوخ رنگ پر ہی بات کیوں کی، تو ذرا سوچیے اگر لباس کے رنگ کے معاملے میں معاشرہ اتنا تنگ نظر ہو سکتا ہے تو بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں کو زند گی کے باقی معاملات میں کس قدر مشکلات کا سامنا ہو گا۔ ہمارا معاشرہ ویسے تو کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے لیکن کچھ سماجی مسائل ایسے ہیں جن کو حل کرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن ہم اپنی دقیانوسی سوچ کے زندان میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ بہت سے لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن معاشرے کی روش کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).