“ڈیپ سٹیٹ” سے نکلنے ہی میں عافیت ہے


انگریزی زبان کے لفظ “سٹیٹ” کا مطلب کیفیت بھی ہے اور ریاست بھی، ہے نا عجیب بات۔ شاید اس لیے کہ ریاست بھی درحقیقت ایک کیفیت کا نام ہے جیسے جمہوری کیفیت، آمرانہ کیفیت، نیم آمرانہ نیم جمہوری کیفیت (یہ کیفیت عجیب بھی ہے اور غریب بھی، غریب کا مطلب سمجھتے ہیں نا آپ؟ نہیں سمجھتے! بھائی اس کا مطلب “غیروں سے ہونا” ہے۔ جب میرے ایک ایرانی دوست نے پوچھا تھا، “خانم شما غریب است؟” تو مجھے برا لگا تھا اور میں نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں کہا تھا، نہیں غریب نہیں کھاتے پیتے گھر سے ہے۔ اس نے اپنی مخصوص مسکراہٹ بکھیرتے اور حشیش کے خمار سے مزید چندھیائی ہوئی اپنی چندھی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا،” آقائے دکتر، میرا مطلب ہے کہ خاندان سے نہیں خاندان سے باہر کی ہے؟ اوہ، میں چونکا تھا۔ کیفیت تو ایک ہی ہو سکتی ہے مگر یہ نیم جمہوری، نیم آمرانہ کیفیت کچھ ایسی ہے جیسے مشرقی پاکستان میں بنی فلم “چاند سورج” کی ہیروئن اداکارہ کابوری ہنستے ہنستے رو دیتی تھی اور روتے روتے ہنس پڑتی تھی) ہمارے ہاں ریاست کی کیفیت ایسی عجیب و غریب زیادہ رہی ہے۔

 مگر غرض کیفیت سے نہیں بلکہ ریاست سے ہے۔ “ڈیپ سٹیٹ” یا ” گہرائی میں دھنسی ہوئی ریاست” کا پھر سے خیال، اس کتاب کو پڑھ کے زیادہ آیا جس کی وسیع پیمانے پر ترسیل کی جا چکی ہے اور جس میں چوہدری امرجیت سنگھ دلت اور جنرل اسد خان درانی کی سوال و جواب پر مبنی گفتگو کو ایک ہندوستانی صحافی ادتیا سنہا نے لکھا ہے۔ اس کتاب میں صحافی اور دلت سیاں نے جنرل اسد درانی سے بڑے طنز سے پوچھا ہے ( طنز بے جا ہرگز نہیں، بعض اوقات طنز مناسب ہوتی ہے ) کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو پاکستان کی “ڈیپ سٹیٹ ” خیال کیا جاتا ہے، کیا یہ درست ہے؟ جنرل درانی صاحب آئیں بائیں شائیں کرتے رہے مگر مجال ہے کہ تسلیم کرکے دیا ہو۔ جب کہ ایسی بہت سی باتیں تسلیم کر لیں جو کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو بظاہر دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور ایک صحافی کے سامنے تو کجا کسی کے بھی سامنے، کبھی بھی تسلیم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جیسے کہا جاتا ہے کہ “اگر کوئی ایک بار ڈاکٹر بن گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے ڈاکٹر بن گیا” چاہے وہ میری طرح طبی پریکٹس ربع صدی سے کیوں نہ چھوڑے ہوئے ہو ویسے ہی خفیہ ایجنسی میں شامل شخص بھی کبھی اس کے “شوربے” سے نہیں نکل پاتا۔ نہ کوئی نکلنے دیتا ہے اور نہ ہی کوئی خود شوربے کے مزے سے باہر رہنا چاہتا ہے۔

ایجنسی کا ڈیپ سٹیٹ ہونا ایک خاص کیفیت ہے جو اصل کیفیت یعنی جمہوری یا آمرانہ اور خاص طور پر نیم جمہوری نیم آمرانہ کیفیت پر ہمیشہ حاوی رہی ہے۔ اس خاص کیفیت کو اس کیفیت پر طاری ہونے کا سب سے پہلا موقع میرے محبوب قائد جناب ذوالفقار علی بھٹو نے فراہم کیا تھا جب انہوں نے آئی ایس آئی کو فکر فردا سے رہائی دلانے کی خاطر اس میں سیاسی سیل بنایا تھا۔ جنرل درانی صاحب نے درست ہی کہا ہے کہ آئی ایس آئی کو زیادہ اہمیت افغانستان کے حالات کے باعث ملی تھی اور پہلے افغان مہاجر بھٹو صاحب کے دور میں ہی آئے تھے۔

 اللہ دے اور بندہ لے۔ افغانستان میں جہاد تو بعد میبں شروع ہونا تھا مگر سول معاملات میں ناک پہلے ہی گھسیڑی جا چکی تھی۔ امریکہ سے اسامہ بن لادن سے متعلق اطلاع دینے کے معاوضے کی مد میں مبینہ طور پر خطیر رقم لے کر اطلاع کے مطابق سان ڈیگو میں جا بسنے والے آئی ایس آئی کے سابق بریگیڈیر اقبال کو تو میں نہیں جانتا مگر اقبال نام کے ایک میجر صاحب 1975 میں تب مجھے تلاش کرتے پھر رہے تھے جب میں نشتر میڈیکل کالج کے قاسم ہال میں رہتا تھا۔

 قصہ یوں تھا کہ میرا ایک بچپن کا دوست تھا جو ان دنوں ڈسٹرکٹ جیل میں وارڈن تھا۔ جیل میرے ہوسٹل کے کمرے کے عقبی حصے سے دکھائی دیتی تھی۔ یہ دوست نشتر میڈیکل کالج سے ملحق ایک سڑک پر بسے معروف وکیل کے بگڑے ہوئے بیٹے کے ساتھ مل کر جز وقتی غنڈہ گردی بھی کیا کرتا تھا۔ غنڈہ گردی کرتے ہوئے اس نے ایک شخص کو چاقو گھونپ دیا تھا جو اتفاق سے فوجی تھا۔ یوں یہ میجر صاحب اس سلسلے میں تفتیش کر رہے تھے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ فوجی کو چاقو گھونپے جانے کے سلسلے میں میجر اقبال تمہیں تلاش کر رہے ہیں۔ میں اس قضیے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا چنانچہ ادھر ادھر ہو رہا تھا۔

اس دوست کو سال چھ ماہ کی سزا بھی ہوگئی، جہاں وہ وارڈن تھا وہاں وہ قیدی ہو گیا۔ میں اس سے ملاقات کے لیے بھی جاتا رہا۔

پھر وقت گذر گیا۔ ایم بی بی ایس فائنل کا رزلٹ آ گیا۔ میں تب ایک کلاس فیلو کے ساتھ جو حال بریگیڈیر ریٹائرڈ ڈاکٹر ہے، کے “نیلام گھر” میں شرکت کے شوق کے باعث اس کے ساتھ کراچی میں تھا۔ اس دوران ایک طالبعلم دوست ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں اپنے کسی شناسا سے ملنے گیا تو وہاں پڑی ہم دونوں نئے ڈاکٹر بنے دوستوں کی” کال فار آرمی” اٹھاتا لایا تھا۔ یوں ہمیں انٹرویو کے لیے جی ایچ کیو جانا تھا۔ کال کے ساتھ اے سی کمپارٹمنٹ ریل کے راولپنڈی تک کے ٹکٹ بھی تھے۔ ہم چار دوست میں، اظہار (حال بریگیڈیر ریٹائرڈ) اقبال (حال ایم ایس سٹی ہسپتال ملتان) اور قاضی اقبال (حال ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل آئی سپیشلسٹ) اکٹھے ریل کے ڈبے میں سوار ہوئے تھے۔ ہم سب کھل کے فوج کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ایک صاحب پہلے سے ہی وہاں براجمان تھے۔ اس سنجیدہ شخص نے میری طرف اشارہ کرکے پوچھا تھا، ” کیا تم مرزا مجاہد ہو” میں چونک گیا تھا اور کہا تھا ” جی” ۔ ” امیر علی برق (حال ریٹائرڈ فیڈرل سیکرٹری) کو جانتے ہو؟” انہوں نے پوچھا تھا۔ “جی جانتا ہوں مگر آپ کو نہیں پہچانتا” میں نے کہا تھا۔

” میں ہوں میجر اقبال فرام آئی ایس آئی” جب انہوں نے کہا تو میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ اوہو یہ تو وہی میجر ہے جو مجھے ڈھونڈ رہا تھا۔ پھر انہوں نے فوج کی تعریف کرنا شروع کی تھی اور ہم چاروں چپ رہے تھے۔ “سینیر ہیز ٹو پے” کہہ کے انہوں نے ہمیں کھلایا پلایا بھی اور راولپنڈی میں جدا ہوتے ہوئے کہتے گئے تھے، ” سی یو ان گلگت” میں ہکا بکا کھڑا رہ گیا تھا، دوست شش و پنج میں تھے۔ ایک ماہ سے زائد ٹریننگ رہی تھی ایبٹ آباد کے آرمی میڈیکل کور سنٹر میں اور پھر مجھے گلگت ہی کی پوسٹنگ دی گئی تھی۔

میرے جانے کے چند دنوں بعد استور میں ایک ہیلی کاپٹر کریش ہو گیا تھا۔ وہاں کے ایم آئی روم میں میل نرس نے مجھے بتایا تھا ” سر حوالدار یعقوب کہتا ہے کہ آپ کے کیپٹن صاحب کو جلسے جلوس کا شوق ہے اگر وہ چاہیں تو ہم یہاں بھی انتظام کر دیں گے” اتنے میں عام کپڑوں میں ملبوس یعقوب بھی آ گیا تھا اتفاق سے۔ جب میں نے پیار سے اس کی گو شمالی کی تو اس نے بتایا، ” سر کرنل اقبال سر کی ہدایت ہے کہ آپ کا خاص خیال رکھیں”۔ خیال رکھنا میں تو سمجھ گیا تھا آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے۔

 اب آپ اندازہ کیجیے کہ معاملہ پولیس کا تھا، تفتیش فوجی بھی کر رہا تھا۔ جس ڈبے میں میں سوار ہوا، اسی ریل اسی ڈبے میں “اتفاق سے” میجر صاحب بھی موجود اور انہوں نے باقاعدہ “فرام آئی ایس آئی” بھی کہا تھا۔ قسم لے لیجیے جو ہم تینوں نئے ڈاکٹروں میں سے کسی کو معلوم ہو کہ یہ ادارہ ہے یا رجمنٹ۔ چوتھے نئے ڈاکٹر حال بریگیڈیر ریٹائرڈ اظہار کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اسے بہت زیادہ معلومات ہوا کرتی تھیں اور اب بھی ہیں۔ پھر جاتے ہوئے یہ کہنا کہ ” آپ سے گلگت میں ملیں گے” جب کہ پوسٹنگز کہیں ایک ماہ کے بعد ہونی تھی۔ پھر اپنے حوالدار کو میرے متعلق چوکس رکھنا۔ اللہ لگتی کہیے کہ یہ “ڈیپ سٹیٹ” یعنی گہرائی میں دھنسی ہوئی کیفیت ہے کہ نہیں کہ ریاست ہے سو ہے مگر ہم جس ادارے میں ہیں اس کو زیادہ معلومات ہونی چاہییں تاکہ اس کی فوقیت زیادہ ہو۔

 سب جانتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں ملک کی سیکیورٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں سب کام ملک کی بھلائی کے لیے کرتی ہیں مگر کسی شہزاد سلیم کو ٹھکانے لگا دینا اسی عجلت روی کا اظہار نہیں کیا جس کا ذکر جنرل اسد درانی نے کیا ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہوتا تھا ، ہمیں جلدی میں فیصلے کرنے ہوتے تھے۔ انہوں نے یہ افغانستان کے حالات کے تناظر میں کہا تھا۔ افغانستان آج بھی مسئلہ ہے اور فیصلے اسی طرح عجلت میں ہو رہے ہیں۔ عجلت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “جلدی کا کام شیطان کا” اس عجلت پسندی کی لپیٹ میں بہت سے معصوم آ جاتے ہیں۔

 میں کہنا یہی چاہوں گا کہ “ڈیپ سٹیٹ” سے نکلنے میں ہی عافیت ہوا کرتی ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کی اصطلاح ایک اور موقع پر بھی بولی جاتی ہے جب حشیش استعمال کرنے والا نشے کی انتہائی گہری حالت میں ہوتا ہے، وہ تو مست ہوتا ہے۔ امن پسند، محبت کرنے والا مگر جس ڈیپ سٹیٹ کا ٹھٹھہ امرجیت سنگھ دلت اور ادتیا سنہا نے اڑایا ہے وہ مضطرب اور متشکک کیفیت یعنی ریاست ہو سکتی ہے جو کہیں بھی زیادہ دیر نہ چل سکی، نہ چل سکتی ہے اور نہ چلنی چاہیے۔ کیفیت اور ریاست دونوں ہی جمہوری ہونی چاہییں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).