عمران خان صاحب! عامر لیاقت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کریں


مجھے نہیں پتہ عمران خان صاحب کو آج کل کسی مطالعے کی فرصت بھی ملتی ہو گی یا نہیں کیونکہ آج کل ان سے ملاقات کرنے والے افراد اور وفود بہت زیادہ ہیں۔ کوئی بنی گالا آ جاتا ہے، کوئی اپنے گھر بلا لیتا یے اور پھر رمضان میں افطار فنڈ ریزر بھی بہت ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی خان صاحب تک یہ پیغام پہنچا سکے تو وہ نہ صرف پاکستان تحریک انصاف، عمران خان بلکہ پاکستان کی بھی بہت بڑی خدمت ہو گی۔

جناب عمران خان صاحب، بے شک آپ نے اپنی سیاسی جماعت 1996 میں بنائی تھی مگر اسے عروج 2011 سے حاصل ہوا۔ ہماری جنریشن کے بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں، وہ جنہوں نے آپ کو کرکٹ کھیلتے بھی نہیں دیکھا، وہ بھی آپ سے متاثر ہوئے۔ آپ کہتے تھے کہ شوکت خانم کے عطیات کیلئے سب سے زیادہ مجھے بچوں نے مدد کی۔ وہی بچے جوان ہو گئے تو سیاست میں بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ سب اچھا چلنے ہی لگا تھا کہ دھڑام سے دروازہ اور چھت توڑ کر الیکٹیبلز کی بارش بلکہ سیلابی آمد شروع ہو گئی۔ یہ، وہ، ادھر، ادھر سے ٹپا ٹپ سب تحریک انصاف میں برسنے لگے۔ 2013 کے انتخابات تھے تو آپ نے کہا مجھے ابھی ان کی ضرورت ہے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جو لہر انتخابات میں قائم ہوئی اور جس نے جماعت کو ایک مضبوط شناخت دی وہ الیکٹیبلز نہیں بلکہ وہ نوجوان تھے جن کے خاندان میں بھی کوئی سیاستدان نہ گزرا تھا۔

بعد از انتخابات کچھ نام پارٹی چھوڑ گئے۔ دھرنا، دھرنا (ٹو) ان سب میں بھی آپ کے نوجوان سپورٹر کچھ نہ کچھ توجیح بنا کر درسگاہوں میں، دفتروں میں، سوشل میڈیا پہ آپ کا دفاع کرتے رہتے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد انتخابات کا سال آیا تو پچھلی بار سے زیادہ جوش سے لوٹوں کی بارش شروع ہوئی۔ اس بار دروازہ، کھڑکی، چھت، روشندان ہر طرف سے تھالی کے بینگن تحریک انصاف میں آرہے تھے۔ ہر آنے والے نام کا دفاع کرنا پچھلے والے نام سے زیادہ مشکل ہوتا مگر پھر ایک نام ایسا آیا کہ اگلے پچھلے سب ریکارڈ برابر کر گیا اور دفاع کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔ خود ساختہ مذہبی اسکالر اور زہر آلود زبان کے مالک عامر لیاقت حسین۔

عامر لیاقت کسی شخصیت سے زیادہ ایک کیفیت کا نام ہے جو توجہ کا مرکز خود تک رکھنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔ موصوف جب ‘مائی نس مائی نس’ کر کے مہاجروں کے کرتا دھرتا بننے کی کوششوں میں تھے تو دال چاول کی ایسی تاثیر کا شکار ہوئے کہ نس نس سے پاکستانیت پھوٹنے لگی۔ لہک لہک کر ‘ دل ہے ہندوستانی’ گانے والے لمحہ لمحہ نریندر مودی کو للکار رہے تھے۔ مگر عادت سے مجبور ہو کر نفرت پھیلانے اور ریٹنگ کی خاطر لغو حرکات سے باز نہ آئے۔ دکان رمضان سجانا ان کا مشغلہ ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے کیونکہ اس میں صبح سے شام تک یہ توجہ کا منبع بنے ہوتے ہیں۔

گذشتہ دنوں واضح اداکاری کرتے ہوئےمذہبی فرقوں کو لائیو پروگرام میں ایک ایسی بات پر لڑوایا گیا جس میں کوئی بھی ذی شعور ناظر دیکھ سکتا تھا کہ کون، کسے اور کیسے اکسا رہا ہے۔ اس حرکت پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ جب پیمرا نے پابندی لگائی تو اپنے ٹویٹ کے ذریعے اکسا کر لوگوں کے جذبات حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ادب نبی جیسے وزنی وزنی الفاظ سے عقائد کی لڑائی کروانے کی کوشش کی۔

عمران خان صاحب! جتنا آپ کو ہم نے دیکھا ہے تو چاہے کوئی آپ کو یہودی ایجنٹ کہے یا کوئی طالبان خان پکارے؛ آپ کو آج تک کسی فرقے یا ذات کی دل آزاری کرتے نہیں دیکھا گیا۔ آپ کی جماعت میں بھی صف اول کے رہنماوں میں اہل تشیع، سنی، اہل حدیث، بریلوی، دیو بندی سب ہی موجود ہیں۔ آپ خود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آپ کے والد کے عقائد آپ کی والدہ کے عقائد سے ذرا مختلف تھے مگر انہوں نے کبھی ایک دوسرے پر زور زبردستی نہیں کی۔ اور یہ ایک انتہائی خوشگوار روایت ہے کہ نظریئے اور عقائد کے اختلافات کے باوجود انسان میں اپنائیت اور قبولیت ہو۔

ایک ایسا انسان جو ہزاروں لوگوں کی دلآزاری کا باعث بن رہا ہے، لوگوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے، خود آپ کی جماعت کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو منفرد دکھانے کیلئے سینئر قیادت کو برا بھلا کہہ رہا ہے، اپنے آپ کو محب وطن بنانے کیلئے دوسروں کو غدار کہہ رہا ہے، خود کو عاشق رسول (ص) بتانے کیلئے دوسروں پہ گستاخ کا لیبل لگا رہا ہے۔۔۔ ایسے انسان سے آپ کو کس خیر کی توقع ہے؟ آپ کو لگتا ہے کہ وہ کراچی کے انتخابات کیلئے موزوں ثابت ہو گا تو جناب بڑی جماعتوں کو کسی ایک شخصیت کا سہارا درکار نہیں ہوتا۔ رہا کراچی تو کراچی تو مختلف قومیتوں، عقائد اور طبقات کا ایک گلدستہ ہے۔ یہاں کا ووٹ اگر محفوظ ہو تو ووٹر نسبتا پڑھا لکھا، باشعور ہے۔ ایسے کسی مداری کے ہاتھ آپ چند ووٹ کی خاطر اپنا ایک صاف عکس دھندلا رہے ہیں جس میں آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ برابری کا سلوک ہر شہری کا حق ہے۔ آپ کے بہتر مستقبل میں ہے کہ جلد از جلد اس زہر آلود پراگندہ ذہنیت کے مالک سے اپنی جان چھڑا لیں ورنہ جلد یا بدیر آپ بہت پشیمان ہوں گے۔ یہ آپ کی جتنی خوشامد کر لے آخر کو آپ کے خلاف بھی زہر ہی اگلنا ہے تو بہتر ہے کہ اپنا روایتی کام ہی کرتا رہے اور تحریک انصاف کے دامن کو فرقہ واریت، نفرت اور بد تمیزی سے آلودہ نہ کرے۔

جتنے گھٹیا لیول کے پروگرام موصوف نے خود آپ کے خلاف کیے اور جیسے کالم لکھے اس کے باوجود اگر آپ نے انہیں اپنی پارٹی میں لیا تو اسے ہم آپ کی اعلی ظرفی ہی کہہ سکتے ہیں مگر جناب آپ کی آستین میں رہے یا آپ کے قدموں میں، ڈنگ زہریلا ہی ہو گا۔ ملک پہلے ہی فرقہ واریت اور نفرت کی آگ میں سلگتا رہتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک عبادت گاہ تباہ کر کے اسلام زندہ کیا گیا تو کبھی کسی کو محض شک کی بنا پر کافر، مرتد، غدار کہہ کر مار دیا جاتا ہے۔ کیا ملک کی سب سے بڑی پارٹی اپنے کسی رہنما کو اس بات کی اجازت دے گی کہ جاو اس جلتی آگ میں پیٹرول پھینکو؟ امید ہے آپ ایک اچھا اور میچور فیصلہ لیں گے اور اگر نہ لے سکے تو ہم سب آپ کے لئے دعاگو ہیں کہ کل کو آپ کے کی بورڈ جنگجووں کو جناب خود ساختہ عالم کے عمران خان کے بارے سنسنی خیز انکشافات اور راز فاش کرنے کے نام پر زہر اور فساد کا مقابلہ نہ کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).