تاریخ کی پیش گوئی کب پوری ہو گی؟


جنرل ضیاالحق اور ان کے رفقا نے پانچ جولائی 1977ءکو اقتدار پر قبضہ کر لیا لیکن جسٹس یعقوب علی خان سے مشاورت کر کے فیصلہ کیا گیا کہ آئین کو منسوخ کرنے کی بجائے تعطل میں ڈال دیا جائے۔ فضل الہی چوہدری اگست 1973 سے صدر چلے آ رہے تھے۔ آئین کے تسلسل کی نمائشی نشانی کے طور پر چوہدری فضل الہی کو صدارت کے منصب پر برقرار رکھا گیا۔ چوہتر سالہ فضل الہی چوہدری کا پارلیمانی تجربہ نصف صدی پر محیط تھا۔ پنجاب کی زمیندارہ سیاست کا ٹکسالی نمونہ تھے۔ یونینسٹ پارٹی، ریپبلیکن پارٹی اور کنونشن لیگ کا حصہ بھی رہے تھے۔ بھٹو صاحب کی وزارت عظمیٰ میں چوہدری صاحب کا کردار محض ایوان صدر کو رونق بخشنا تھا۔ بھٹو صاحب تمام انتظامی اور سیاسی شعبوں پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ ضیا کی فوجی حکومت میں صدر مملکت کے منصب کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہی۔

ان دنوں فضل الہی چوہدری کے ایک پرانے دوست ان سے ملنے ایوان صدر جا پہنچے۔ پوچھا کہ وقت کیسا گزر رہا ہے؟ چوہدری صاحب کا جواب مختصر مگر بامعنی تھا، “feeling incarcerated without trial” (بغیر مقدمہ چلائے رکھے گئے قیدی جیسا محسوس کر رہا ہوں۔) واقعی آمریت پوری قوم کو بغیر مقدمہ چلائے کٹہرے میں کھڑے کر دینے کا نام ہے۔ آمریت میں سُر ممنوع قرار پاتا ہے اور گیت خاموش کر دیا جاتا ہے۔ جنرل پنوشے نے کہا تھا کہ چلی میں وہی پتہ ہل سکے گا جسے میں ہلنے کی اجازت دوں گا۔ یہ آمر کی افتاد طبع کا بلیغ اظہار ہے۔ ہم نے بھی اس طرح کے جملے سن رکھے ہیں۔ مثلا یہ کہ آئین بارہ صفحات کی ایک دستاویز ہی تو ہے جب چاہوں پھاڑ کے پھینک سکتا ہوں۔ نیز یہ کہ سیاست دان میرے اشارے پر دم ہلاتے ہوئے چلے آئیں گے۔ فیض احمد فیض نے اپنی نظم کی آخری سطر میں کتوں کی سوئی ہوئی دم ہلانے کا مشورہ دیا تھا تو یقینی طور پر ان کے ذہن میں دم ہلانے کا یہ مفہوم نہیں تھا جو آزادی کے بعد ہمارے ہاں رائج ہوا۔

آمریت کی بدترین شکل وہ ہے کہ عزیز ہموطنوں کو خبر دے دی جائے کہ اگر آمریت نافذ کرنا مقصود ہو تو اس میں کچھ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ ایوب خان نے بھی تو اپنی خود نوشت میں لکھا تھا کہ مارشل لا اس آسانی سے نافذ ہو گیا گویا کسی نے بجلی کا بٹن دبا دیا۔ اسی طرح سنسر شپ کی بدترین شکل یہ ہے کہ سنسر کی نیلی پینسل کی بجائے صحافی کی سوچ میں نشتر چبھو دیا جائے۔ لکھنے والے کو اپنے ہی لکھے لفظ پر سے اعتماد اٹھ جائے۔ یہ وہ زمانہ نہیں کہ اخبار کے مالک میاں افتخار الدین امروز کے مدیر چراغ حسن حسرت سے درخواست کریں کہ کبھی ان کی سیاسی سرگرمیوں کی کوئی خبر بھی اخبار میں لگائی جائے۔ حسرت صاحب نے سگریٹ کا کش لے کر کہا، میاں صاحب، جس دن آپ کوئی کام کی بات کہیں گے، آپ کی خبر چھاپ دی جائے گی۔ اب لکھنے والا چراغ حسن حسرت ہے اور نہ مالک افتخار الدین۔ لکھنے والا اخبار کے مالک پہ گزرنے والی افتاد سے آگاہ ہے۔

ہم نے افغان جنگ میں پراکسی وار کا ہنر ہی نہیں سیکھا، ہم نے عکسی سیاست اور ملفوف صحافت کا ڈھنگ بھی سیکھ لیا ہے۔ صحافت کی تعلیم میں پہلا سبق یہی تھا کہ جملے کے مبتدا میں فاعل کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ آج ہماری صحافت فاعل سے محروم ہو چکی ہے۔ “کیا جا رہا ہے” اور “بتا دیا گیا ہے” جیسے بیانات میں یہ نشاندہی نہیں کی جاتی کہ جو کیا گیا ہے، وہ کس نے کیا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو چتاؤنی دیتے ہیں کہ ایسے بہادر ہو تو نام لے کر دکھاؤ۔ حالانکہ ان کی اپنی زبان بھی خاصی موقع شناس ہے۔ محترم آصف علی زرداری میاں نواز شریف سے گلہ کرتے ہیں کہ جون 2015ء میں ان سے ملاقات منسوخ کیوں کی؟ یہ نہیں بتاتے کہ اس کے بعد قریب اٹھارہ مہینے دبئی میں قیام پذیر رہنے کا سبب کیا محض میاں نواز شریف کی بے رخی تھی؟

چیکو سلواکیہ کے سابق صدر ویکلاف ہیول بنیادی طور پر ڈرامہ نویس تھے۔ ان کے طنزیہ ڈرامے میمورینڈم کی کہانی یہ تھی کہ ایک روز ملک کے سب شہری اپنے دفاتر اور کام کی دوسری جگہوں پر پہنچتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ سرکاری طور پر ایک نئی زبان نافذ کر دی گئی ہے اور اب سب شہریوں کو اسی زبان میں بات چیت کرنا ہو گی۔ لطف کی بات ہے کہ ہمیں ایسا کوئی میمورینڈم نہیں ملا لیکن ہم جانتے ہیں کہ حاکمیت کے اصل سرچشموں کے لئے اسٹیبلیشمینٹ اور ڈیپ سٹیٹ وغیرہ جیسے کھردرے اور فتنہ پرور الفاظ کی بجائے ادارے کہنا چاہیے۔ ہم کیسی سہولت سے کہتے ہیں کہ فلاں جماعت اس لیے چھوڑی کہ وہ اداروں سے ٹکراو¿ کے راستے پر چل رہی تھی۔ سیاسی لغت میں ایک اصطلاح متعارف کرانے سے آئین کا تمام ڈھانچہ ہی تلپٹ ہو گیا ہے۔ پھر اس میں کیا تعجب کہ ملک کا وزیر اعظم خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو انصاف ملتا نظر نہیں آ رہا۔ سیاسی خط تنصیف کی دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالقیوم کو کیا انصاف کی بالادستی کے لیے فون کیا جاتا تھا؟

ہدایت کار رابرٹ ریڈفورڈ نے 1992 میں A river runs through it کے نام سے ایک خوبصورت فلم بنائی تھی۔ امریکا کی شمال مغربی ریاست مونٹانا کا خوبصورت لینڈ سکیپ بیان کرتی اس فلم میں ہمارے لئے دلچسپی کا سامان یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بیچوں بیچ بھی ایک نادیدہ دریا بہتا ہے جس کے کناروں پر دو مختلف قومیں آباد ہیں۔ ایک کنارے پر رہنے والوں کے لئے سیاست کا نصب العین اپنے علاقے کی چوہدراہٹ ہے، تھانے کچہری میں اثر و نفوذ ہے، پٹواری تک رسائی ہے، مراعات یافتہ حیثیت کا تحفظ ہے، مردانہ بالادستی کے معاشرتی نمونے کا تحفط ہے، ذات پات کی حدبندیاں ہیں اور عقیدے کے نام پر اشتعال انگیزی ہے۔ دریا کے دوسرے کنارے پر آباد قبیلے میں محمد علی جناح نام کا ایک شخص 1919ءمیں غیر ملکی حکمرانوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں اگر آپ اسے اخبار میں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے تو میرے اظہار کی آزادی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس قبیلے میں فاطمہ جناح پارلیمانی جمہوریت مانگتی ہیں، میاں افتخار الدین زرعی اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے، عبدالغفار خان صوبوں کے حقوق مانگتا ہے، بھٹو پارلیمانی نظام پر مبنی آئین مرتب کرتا ہے، میاں محمود قصوری رائے کے اختلاف پر وزارت چھوڑ دیتا ہے۔ بے نظیر بھٹو اپنے بھائی سے مخالفت مول لیتی ہے لیکن تشدد کی سیاست کی حمایت نہیں کرتی۔ عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق مانگتی ہے۔ فیض احمد فیض فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم مانگتا ہے۔ گل خان نصیر بلوچستان کے پہاڑوں کی سطوت بیان کرتا ہے، شیخ ایاز بارشوں کی دعائیں کرتا ہے کہ رہ ہستی کا غبار دھل سکے۔ حبیب جالب کتاب کا مطالبہ کرتا ہے۔ دریا کے اس کنارے پر بسنے والوں نے مساوات، انصاف، آزادی، امن اور خوشحال پاکستان کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے۔

ہم نے اس ملک میں بہت مشکل زمانے دیکھ رکھے ہیں۔ اک کڑا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں۔ ہماری امید مگر اس حقیقت سے جڑی ہے کہ دریا کا جمہوری کنارہ کبھی غیر آباد نہیں ہوا۔ تو شب آفریدی، چراغ آفریدم۔ چراغ بنانے اور جلانے والوں کا تسلسل گواہی دیتا ہے کہ ایک دن پاکستان کے بیچ میں بہتے دریا پر مفاہمت کا پل باندھا جائے گا۔ اس دریا میں تیرتی کشتیوں پر گیت آزاد ہو گا، لفظ بامعنی ہو گا۔ شہریوں میں رتبے کی مساوات ہو گی، علم سے خوف کھانے کی بجائے توانائی کشید کی جائے گی۔ سوال اٹھانے والوں کو غدار نہیں کہا جائے گا۔ میثاق جمہوریت کو مذاق جمہوریت کہنے والے مفاہمت کا راستہ اختیار کریں گے۔ یہ پیش گوئی ضرور پوری ہو گی لیکن آج کی خبر بہر صورت یہی ہے کہ ابھی یہاں دو قومیں بستی ہیں۔ وہ جو حاکم بنے، ہم جو رسوا ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).