گگن سنگھ: فخر انسانیت یا ہماری منافقت


بھارت میں حال میں ہی ایک واقعہ ہوا۔ ایک مسلم لڑکے کو سکھ پولیس آفیسر نے مشتعل ہجوم سے بچایا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلم ہونے کے باوجود ایک مندر میں اپنی ہندو دوست کے ساتھ سیر کی غرض سے موجود تھا۔ گگن سنگھ نامی اس پولیس آفیسر کو پاکستان میں فخر انسانیت کا خطاب دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں کی طرف سے دیا گیا ہے جنہوں نے ابھی چند دن پہلے سیالکوٹ میں اپنے ہم وطن احمدی گروہ کی عبادت گاہ کو نہ صرف تباہ کیا بلکہ اس فعل کو درست ثابت کرنے کے لیے ہر عذر بھی تلاشا۔ ہے نا عجیب بات۔ انسانیت کا معیار کیسے بدلتا ہے۔ ایک جانب جہاں آپ خود اقلیت ہیں وہاں اگر آپ کے ہم مذہب بھائی بندے کو وہاں کا کوئی ریاستی ادارہ یا اس کا کوئی اہلکار بچاتا ہے تو وہ ایسا انسانیت کے ناطے کر رہا ہے۔ لیکن یہاں ایک پورا ہجوم بلوہ کر کے اپنے ہم وطنوں کی عبادت گاہ مسمار کرتا ہے تو آپ اس پہ چوں بھی نہیں کرتے بلکہ جواز تراشتے ہیں کہ انتظامی امور تھے، اس لیے ایسا کیا گیا۔

ذرا سچوئشن بدل کے دیکھتے ہیں۔ یہی واقعہ پاکسان میں ہوا ہوتا۔ یہاں کسی مسجد میں محض سیر کی غرض سے آیا ہوا کوئی غیر مذہب لڑکا کسی مسلمان لڑکی کے ساتھ پایا جاتا۔ اسے بچانے کے لیے پاکستانی پولیس اہلکار آگے بڑھتا تو کیا آپ اسے بھی ایسے کی گلوریفائی کرتے؟ کیسے کرتے؟ کس منہ سے کرتے؟ جہاں ایک مشعال خان جیسے انسان کے وحشیانہ قتل کے بھی جواز ڈھونڈے جاتے ہیں۔ بغیر تحقیق کیےاس پہ مرنے کے بعد بھی توہین کے الزامات لگتے ہیں۔ شریک جرم جب جیل سے رہا ہوتے ہیں تو آپ کی رہنما سیاسی جماعتیں انہیں ہار پہنا کے استقبال کرتی ہیں۔ وہاں انسانیت کہاں جاتی ہے؟ وہاں آنکھوں پہ تعصب کی پٹی کیوں بندھتی ہے؟ وہاں اس ظلم کو ظلم کہنے والوں اور اس کی مذمت کرنے والوں کو گستاخ کیوں گردانا جاتا ہے؟

کہانی یہاں تک نہیں پھر بات آتی ہے ایک مسیحی خاتون پہ لگنے والے توہین کے الزام کی اور اس کے مقدمے کی بات کرنے پہ اس وقت کے گورنر کو اس کا اپنا محافظ قتل کرتا ہے کہ یہ عین ثواب کا کام ہے۔ اس کے حق میں ایک ہجوم اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے عمل کو بے تحاشا سراہا جاتا ہے۔ اور پھانسی ملنے کے بعد اس کا مزار بنایا جاتا ہے۔ اس کو غازی کا خطاب ملتا ہے۔ یہاں انسانیت کہاں ہے ؟ یہاں کیوں صرف اندھے مقلدین کا ہجوم ہے؟

آپ کا دل تو اتنا بڑا بھی نہیں کہ اپنے اصل ہیروز کو اپنا سکیں۔  ڈاکٹر عبدالسلام کا نام و وجود آپ کے لیے قابل برداشت نہیں کیوںکہ وہ آپ کے طے کردہ عقیدے پہ پورا نہیں اترتے تھے۔ ہمیں ان کے کارناموں اور نوبل پزائز یافتہ ہونے کی نسبت عقیدے اور مذہب میں دلچسپی ہے اور اسی بنا پہ ہم انہیں اپنانے کی بجائے ان کا نام مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کہاں ہے انسانیت آپ کے لیے سب سے اہم آپ کا اپنا عقیدہ ہے، کوئی اپنے عمل میں کیسا انسان ہے، یہ آپ کا مسئلہ نہ کبھی رہا ہے، نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا ہونے کے کوئی امکانات ہیں۔

برائے مہربانی یہ فخر انسانیت والا چورن مت بیچیے۔ یہ آپ پہ نہیں جچتا۔ ایک نظر اپنے گریبان میں ڈالیے۔ اپنے مسلک، اپنے فرقے، ذات، علاقائی و لسانی تعصب کے چورن پہ توجہ دیں، وہی یہاں بکے گا۔ یہاں کسی گگن سنگھ کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں جگہ ہے تو ممتاز قادری کی، مولانا خادم حسین کی، تعصب میں اندھے ہجوم کی ،یہاں گگن سنگھ کی انسانیت زندہ نہیں رہ سکتی، یہاں اندھی گونگی بہری تقلید اور بند دماغ جی سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).