سروور کی رنگین مچھلیوں کو جان کا خوف نہیں ہے


گریندر پال سنگھ جوسن کی درخواست تھی کہ میں پشاور کے کسی چرنجیت سنگھ سے سر پہ اوڑھنے والے رومال وصول کروں اور ریاض صاحب تک پہنچا دوں جو امریکہ میں ان کے ہمسائے تھے اور ان دنوں پاکستان میں تھے۔ میں نے چرنجیت سنگھ کو فون کیا تو انہوں نے میرے لہجے میں سفر کی معذوری ڈھونڈ لی۔ طے یہ پایا کہ پشاور کی بجائے میں حسن ابدل تک آ جاؤں گا اور وہ گردوارہ پنجہ صاحب میں مجھے جوسن صاحب کی امانت سونپ دیں گے۔ گریندر صاحب نے لمبے رستے کا انتخاب کیا تھا، مگر ان کا بھی قصور نہیں تھا، عقیدے کا راستہ لمبا ہی ہوا کرتا ہے۔

پنجہ صاحب پہنچے تو چرنجیت سنگھ باہر کھڑے تھے۔ دروازے پہ شناخت کا معاملہ ان کی وساطت سے طے ہوا۔ گردوارے کے صحن میں گھر کے انگن سی کشادگی تھی۔
داخلی محراب کے ماتھے پہ بابا فرید کا شعر لکھا تھا۔
فریدا برے دا بھلا کر، غصہ من نہ ہنڈائے
دیہی روگ نہ لگے، پلے سب کچھ پائے

اپریل کا نیم گرم دن تھا مگر سروور کا پانی ابھی تک ٹھنڈا تھا۔ کنارے کنارے، پنجاب اور سرحد کے عبادت گزاروں کی عقیدت، سیوا کرائی کی سلوں کی صورت، فرش میں جڑی تھی۔ لائل پور کا ضلع ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے دھمیال کی ایک تختی نطر آئی تو چرنجیت سنگھ بولے،
حسن بھائی۔ ایہہ گلان پرانیاں ہو گیاں نیں۔ اندر چلو۔ لنگر تیار ہے۔ ۔

سروور میں رنگ رنگ کی مچھلیاں، آنے جانے والے قدموں سے بے نیاز، تال میں اوپر نیچے تیرتی تھیں۔ میں نے چرنجیت سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا ” حسن بھائی۔ یہ ہر رنگ اور نسل کی مچھلیاں اس آسرے پہ بے خوف پھرتی ہیں کہ یہاں سب ان کا خیال رکھیں گے، انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا“۔

چرنجیت سنگھ، خیبر پختون خواہ کے سکھوں کے لئے صرف سکھ رہنما نہیں تھے۔ گرنتھی شادی سے عبادت گاہوں کی دیکھ بھال، قومی تہواروں سے ذاتی پرسوں تک ان کی جڑت، ہم سب سے اور ان سب سے بہت گہری تھی۔

اس سال، فروری میں خیبر پختونخواہ سے آنے والے لوگوں میں سرب دیال صاحب کے ساتھ چرن جیت سنگھ بھی تھے۔ فرنود نے انہیں بلایا تھا مگر خود موجود نہیں تھا۔ یہ اقلیتوں کی اقلیت تھی یعنی بلوچستان سے ہندو اور خیبر پختون خواہ سے سکھ اور عیسائی۔ ایبٹ آباد کے پادری صاحب کا دبا دبا شکوہ تھا کہ وہ اپنے فرقے کا گرجا گھر نہ ہونے کے سبب، ایک گھر میں جمع ہو کر عبادت کرتے ہیں مگر اس کا لائسنس کینسل ہو گیا ہے۔ چٹھی ڈالنے دفتر جائیں تو ڈی سی صاحب بہادر ڈانتے ہیں۔

اسلام آباد کے ہندو رہنما کا کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں صرف ایک مندر تھا جو سید پور ماڈل ولیج بن گیا ہے۔ انتظامیہ وہاں سیاحت کی اجازت تو دیتی ہے مگر عبادت کی اجازت نہیں دیتی۔ گیانی صاحب کی ذاتی زندگی بھی اتنی ہی تاریک تھی جیسے ہمارے نصاب میں ان کی عبادت گاہوں کی وضاحت۔ وسائل نہ ہونے کے سبب ان کی اہلیہ انتقال کر گئیں تھیں اور اب ان کی بوڑھی والدہ، ان کے معذور بچے پالتی تھیں۔ بیت المال سے مالی مدد کی درخواست یہ کہہ کر رد کر دی گئی تھی کہ یہ پیسہ صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔

چرنجیت سنگھ، بنوں کی ایک کہانی لائے تھے جس میں گردوارہ، زمین، اوقاف، قبضہ وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ آتے تھے، مگر یہ کوئی نئی کہانی تھوڑی تھی۔ اب تو بہت سے گردواروں کو یاد بھی نہیں رہا کہ ”پاک سر زمین شادباد ہونے سے پہلے ان کے آنگن میں ”اک اونکار“ گونجا کرتی تھی۔

پہلے ظفراللہ اٹھا اور باہر آ گیا۔ پھر لینہ بھابھی، چائے کے بہانے دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھ گئیں۔ حاشر بھائی اور میں، آخر تک بیٹھے رہے کیونکہ تسلی کا ذمہ حاشر بھائی کا تھا سو وہ جتنا جھوٹ بول سکتے تھے انہوں نے بول دیا۔ ایسی بے وقعت تسلیاں تھیں جن کے بے سر وپا ہونے کا ہمیں بھی احساس تھا اور ان لوگوں کو بھی، مگر بدقسمتی یہ تھی کہ ہمارے پاس جھوٹ کے علاقہ کوئی آنکڑا نہیں تھا اور ان کے پاس یقین کے سو کوئی راستہ نہیں تھا۔ چلتے وقت، سیڑھیوں پہ ایک تصویر ہوئی، سب نے نمبروں کا تبادلہ کیا اور چرنجیت پشاور آنے کی دعوت دے کر چلا گیا۔
کل شام کسی نے سکیم چوک پشاور میں چرنجیت سنگھ کو قتل کر دیا۔

فرنود لکھتا ہے کہ چرنجیت کی بیٹی اپنے باپ کا انتظار کر رہی ہے، مگر کیا کریں، باپ کی زندگی کی جواب طلبی تو کجا، پرسا دینے کی بھی ممانعت ہے۔ ہمارے سماج نے روک کا نیا نظام وضع کیا ہے کہ اب کسی غیر مسلم ہم وطن کے قتل کی مذمت کرنے سے پہلے کل عالم کے اہل ایمان پہ ہونے والے مظالم کی مخالفت با آواز بلند کی جائے۔ سماجی رابطے کے پہرے دار، گالیوں کے بھالے تانے کھڑے ہیں کہ کب کوئی ان کی کھینچی ہوئی فصیل سے باہر نکلے اور وہ پاکستان کے نظریاتی محافظ ہونے کا فرض نبھائیں۔

کچھ دوست، فیس بک پہ تلوار سونتے کھڑے ہیں کہ تمہیں سیالکوٹ کے احمدی نظر آتے ہیں مگر مغرب کی جنسی ہراسانی کے بارے میں ایک لفظ نہیں لکھ سکتے۔ جن احباب کو فیس بک کی دیوار کا یارا نہیں وہ واٹس ایپ کی کھڑکی سے نیزے چبھوتے ہیں کہ فرانس کی مریم کا حکومتی وزیر نے مذاق اڑایا ہے، تمہاری خاموشی مجرمانہ ہے، فلسطین میں اسرائیل کی فوج بچے مار رہی ہے اور تمہارا قلم گریزاں ہے۔ یہ سب الزامات ایک طرف، چرنجیت کا کیا کریں۔

ریاست پہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ جھنڈے کی تقدیس پہ گرد پڑتی ہے۔ مقتدر لوگوں کی جواب طلبی ممکن نہیں کہ قومی مفاد کی فصل تیار کھڑی ہے۔ مذہب اور منبر، تو کئی سو سال ہوئے سوال سے مبرا قرار پائے ہیں، پھر چرنجیت کی ایف آئی آر کہاں کٹوائی جائے۔

گردوارہ جوگا سنگھ کے آنگن سے چرن جیت سنگھ اٹھ گیا ہے، دعا کیجئے کہ ان سنگھوں اور کوروں کے دلوں سے ہمارا اعتماد نہ اٹھ جائے اور یہ لوگ یہاں اس آسرے پہ بے خوف پھرتے رہیں کہ سب ان کا خیال رکھیں گے، انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
ایک رنگ کی مچھلیاں رہ بھی جائیں تو بھی سروور اپنا رنگ کھو دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).