سردارچرنجیت سنگھ کے چرنوں میں ندامت کے پھول


ایک تکلیف ہے جس کی اذیت کا بیان ممکن نہیں کہ اس درد کوسمجھنے کے لیے ایک ایسا نرم دل چاہئے، جس میں سارے جہان کی محبت سما سکے، وہ محبت جس کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے کہ:

”اگر میں سارے جہاں کی بولیاں بولوں اور تمام دنیا کے علم حاصل کر لوں، لیکن محبت نہ کروںتو میں ٹھنٹھناتا ہوا پیپل اور جھنجھناتی ہوئی جھانجھ ہوں۔“

کچھ عرصے سے مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے اِردگرد سے محبتوں کے سبھی مقدس حصار منہدم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ایک ندامت ہے، ایک تاسف ہے کہ جس کا بیان اِن کورے لفظوں میں ممکن نہیں، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آج تک کوئی ایسے لفظ وجود میں نہ آسکے ،جو ندامتوں کا بوجھ سہار سکیں۔ لفظ جو اپنے اندر معنی کا جہان رکھتے ہیں، کب اپنے معنی کھو دیں، اس سے بڑی اذیت کوئی نہیں۔آج مجھے انہی بوسیدہ اور شکستہ لفظوں سے سردار چرنجیت سنگھ کے چرنوں میں عقیدت کے پھول رکھنے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرنا ہے کہ ہم اپنے سماج میںمحبت اور امن کی آبیاری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ رواداری جس کا اہمیت کا احساس ہمارے دل میں ، ہمارے بڑوں نے پروان چڑھایا تھا، آج ہمارے درمیان سے معدوم ہو گئی ہے۔ہم تہی داماں لوگ ہیں، جو اپنا سب کچھ باہمی رنجشوں کی نذر کر بیٹھے ہیں، ہمارے پاس اگر کچھ باقی ہے تو نفرت ، تعصب ، تنگ نظری اور شدت پسندی کا پیدا کردہ خوف اوردہشت سے بھرا، متعفن اور شدت آمیز ماحول اور ایسے پتھر دل انسان، جنھیں کیا سچ مچ انسان کہا جا سکتا ہے؟ جن کی آنکھیں انسانیت کی پہچان سے عاری ہیں، جن کے سینے میں دل نہیں، لیکن ہاتھوں میں اسلحہ و بارودہے۔ جن کے اذہان پہ تعصب اور منافرتوں کے جالے ہیںجو دل نہیں، بندوق مگر رکھتے ہیں۔


سردارچرنجیت سنگھ جیسے وہ لوگ جو چند دن پہلے تک، وطنِ عزیز میں اپنے محفوظ ہونے کا اعلان ببانگِ دہل کرتے نظر آتے ہیں، آج خاموشی سے چپ چاپ مگر شکوہ کناں، ہماری اس دھرتی سے اٹھ کر کہیں دورچلے جاتے ہیں۔ وہ دھرتی جس کے اشتراک پر ہم صدیوں سے ایک ہونے کا دعویٰ کرتے رہے۔ وہ دھرتی جس کے منقسم ہونے پر بھی اُس کی محبت، انھوں نے اپنے دل سے کم نہ ہونے دی ۔ کیا ہندو، کیا مسلم ،کیا عیسائی اورکیا سکھ…. میں جاننا چاہتی ہوں ہماری یہ شناخت کیا انسانیت کی حدود سے بھی ماورا ٹھہری؟

کیا اب کسی شخص کا مذہب، مسلک ، دھرم یا فرقہ یہ طے کرے گا کہ اسے یہاں ،اس گھٹن زدہ سماج میں کتنی سانسیں لینے کا حق ہے؟ کیا انسانیت اب ہمارا مسئلہ نہیں رہی؟سوچتی ہوں یہ سب کتنا ہولناک ہے، خوف کے اس ماحول میں، جہاں حق کا ساتھ دیتے ہوئے ہمارے ہاتھ کانپتے ہیں اورسچ بولنے سے زبان کتراتی ہے،سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہم اپنی آنکھیں بند کیے رکھنے کا دکھاوا کرتے ہیں، محض اس لیے کہ کھو جانے یا قتل کر دیے جانے والوں کے خون کا رنگ، عقیدہ اور مذہب ہم سے میل نہیں کھاتا۔

چند سال پرانی بات ہے میرے چند شاگردوں میں اختلافات جب طول پکڑنے لگے اور معاملات ہم اساتذہ کے کانوں تک آئے، تو ان اختلافات کی بنیادی وجہ ، جس نے مجھے کئی دن پریشان کیے رکھا، وہ کوئی نصابی یا غیر نصابی مسائل نہ تھے بلکہ محض شیعہ اور سنی مسالک کا اختلاف تھا۔ بہت آرام سے اور پیار سے انھیں سمجھایا گیا کہ انسان کو مسلک سے نہیں، انسانیت سے پہچان کر اُس کی قدر کرنا سیکھو۔ وقت نے اپنے بہاﺅ کے ساتھ ہمیشہ مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ مختلف مسالک اور فرقہ واریت میں بٹے لوگوں کے شدت پسند اذہان، صرف ایک نفرت کی چنگاری سے بھڑک اُٹھنے کے منتظر ہوتے ہیں، سو اُس دن سے آج تک میں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو یہی سکھایا کہ ہماری پہلی پہچان ایک انسان کی ہے، دوسری ایک پاکستانی کی اور تیسری ہم مکتب ہونے کی، مذہب ہم سب کا سراسر نجی وذاتی معاملہ ہے، جس پر کار بند ہونے کی آزادی ہم سب کو حاصل ہے اورجس میں کسی کی بھی دوسرے شخص کی دخل اندازی قابلِ اعتراض ہے۔ سو شناخت کے ان دائروں میں رہتے ہوئے، مہذب انسانوں کی طرح ،ہم پرنہ صرف ایک دوسرے کا شخصی احترام واجب ہو جاتاہے ، بلکہ ایک دوسرے کے مذہبی اعتقادات کا احترام بھی فرض ِ عین ہے۔ میں نہیں جانتی میری باتوں کا اثر کتنے دلوں پر ہوتا ہے لیکن میں یہ جانتی ہوں کہ یہ میرے حصے کی شمع ہے جو مجھے اس تاریک، تعصب زدہ اورمحبت سے عاری سماج میں ضرور جلانی ہوگی۔

ذرا سوچیے! ہمارے اپنے بچے جب کل اس متعصب، اور مذہبی و مسلکی منافرت کے سرخ ماحول میں بڑے ہونگے تو کیا وہ محبت کے کسی رنگ کو کبھی پہچان پائیں گے؟ کیا حالات کی یہ سنگینی اُن کی زندگیوں کو بھی تلخ نہ بنا دے گی؟ کیا احترامِ انسانیت کا تقاضا خود ہمارے اپنے مذہب میں شامل نہیں؟ کیا نفرتیں بو کر فصلِ بہاراں کی امید کی جا سکتی ہے؟کیا امن اور رواداری کی جن درخشاں وتابندہ خوشیوں کا خواب، ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے، ہماری نئی نسل کبھی اُس خواب کی تعبیر دیکھ پائے گی؟ اگر آپ ان تمام سوالوں کے جوابات سے مایوس ہو چکے ہیں تو یقین مانیں آپ بھی مجھ ایسے برائے نام زندوں میں شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).