گھر سے بھاگنے والی ہر لڑکی قصور وار نہیں ہوتی


کلچر، سسٹم ،یا معاشرہ بہت بڑی وجہ ہیں کسی رونما ہونے والے واقعے یا تحریک کے۔ جب کوئی سانحہ ہو جاتا ہے تو معاشرہ کے نام نہاد علم بردار لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کچھ لوگ براہ راست سخت تنقید کرتے ہیں اُن لڑکیوں پر جو والدین کا گھر چھوڑ کر کسی کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔ اگر وہ پڑھی لکھی ہے تو الزام تراشی یوں ہوتی ہے کہ جس ادارے سے تعلیم لی تھی وہ ادارہ اچھا نہ تھا یا پڑھائی نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا ۔جناب تعلیم کی کمی اچھی تربیت سے پوری ہو سکتی ہے لیکن اچھی تربیت کی کمی کبھی بھی کسی ادارے یا نصاب سے پوری نہیں کی جا سکتی ۔

معصوم بچیوں کے احساسات کی پرواہ کیے بغیر لوگ چرکے پہ چرکہ لگاتے چلے جاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ بطور ماں باپ کون سی کوتاہیاں ان سے سرزد ہوتیں ہیں کہ جوان لڑکیاں اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بھی ان کے ساتھ نہیں ہوتیں۔ بظاہر ایک ہی چھت تلے رہ کر بھی وہ ان سے کوسوں دوری پر کیوں ہو جاتی ہیں؟ وہ بہن ہے، بیٹی ہے مگر اس کی ایک اپنی ذات بھی ہے ۔

دیہاتوں میں اورعموماََ کم پڑھے لکھے گھرانوں میں اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے ۔اور لڑکی فرار ہونے سے پہلے پکڑی جائے تو نام نہاد شرفاء اور سماج کے ٹھیکیدار پہلے تو اسے مارنے پر تل جاتے ہیں یا اس کے جسم کے کسی ایک آدھ عضو کو بیکار کر دیتے ہیں ۔مثلاََ بازو توڑ دیایا ٹانگ توڑ دی۔ اور کچھ عرصے کے بعد کسی بھی چرسی ،بھنگی ،ٹھگ یا دور پار کے بیکار کزن کو نکاح میں دے دی۔مونچھیں بھی اکڑ گئیں ،عزت بھی رہ گئی اور مسئلہ بھی حل ہو گیا ۔دودھ جیسی رنگت والی لڑکی ماہ پارہ کو اپنے سے 15 سال بڑے نشئی شوہر کے ساتھ دیکھ کر حیرت ہوئی۔

لڑکی 20 سال کی تھی۔ گلی کے ایک لڑکے سے ٹیوشن سنٹر میں ملاقات ہو گئی۔ دوستی ہوئی۔ فون پر باتیں ہوئیں تو باہر ملنے کی ٹھانی۔ ریسٹورنٹ میں جا کے بیٹھے ہی تھے کہ اس کی ڈھنڈیا مچ گئی۔ لڑکے کے کسی دوست نے اس کے بھائیوں کو خبر کر دی تھی ۔ وہ ڈر گئی اور لڑکے سے کہا کہ وہ مجھے مار دیں گے۔ لڑکا پہلے تو لے کر بازار میں پھرتا رہا پھر اپنے گھر لے گیا جہاں اس کے بھائیوں نے پہلے سے لڑکی کے گھر والوں کو بلا رکھا تھا۔ ماہ پارہ کو وہ پیار سے گھر لائے اور کمرے میں بند کر دیا پہلے ایک بھائی نے کلہاڑی سے ا س کے پاؤں پر وار کیے وہ درد سے چیخنے لگی تو ماں آڑے آگئی اور منتیں کرنے لگ گئی ۔بڑے نے کلہاڑی پھینکی تو چھوٹا پٹرول کی بوتل اٹھا لایا اور اس کے سر اور جسم پر چھڑک دیا اس کا چہرہ بچ گیا۔مگر سر کے بال جل گئے اور جسم پر آبلے پڑ گئے۔اس کے بعد سارے گھر والوں نے اس سے بول چال بند کر دی وہ صرف رفع حاجت کے وقت کمرے سے نکلتی تھی باپ گزشتہ 20 برس سے سعودی عرب میں مقیم تھا اور خاندان میں حاجی صاحب کہلاتا تھا۔اس نے دو دفعہ کال کر کے کہا کہ اسے ختم کر دو ماہ پارہ کے لیے یہ زندگی تنگ ہوگئی تھی صرف ایک بھابھی تھی جو اس سے بات کرتی تھی بھابھی نے خود اسے فون لا کر دیا کہ لو اس لڑکے سے بات کر لو ۔اس لڑکے کی بجائے ماہ پارہ نے اس کے دوست کو کال کر دی جو کہ پہلے سے شادی شدہ تھا اور بیوی ناراض ہو کر میکے گئی ہوئی تھی۔ ماہ پارہ پیار کو ترسی ہوئی تھی کوئی اس سے بات نہ کر تا تھا اس لیے اسکی پیار بھری باتوں پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ گھر سے بھاگ آئی۔

گھر سے بھاگ آنے کے بعد اس کو پتہ چلا کہ وہ اعلیٰ درجے کا نشئی تھا ۔اور پہلی بیوی بھی اسی لیے گئی تھی۔ ماہ پارہ کے ہاں بیٹا ہوا تو اس کا شوہر اس وقت تک ہیروئن پی پی کر چارپائی سے لگ چکا تھا ۔ابھی اس کی عمر 20 سال تھی اور مستقبل ڈریکولا بن کر سامنے کھڑا تھا۔ کسی نے کہا اپنے والدین کے پاس چلی جاؤ کہنے لگی میرے بھائی غیرت کے نام پر مجھے مار دیں گے میں اپنے بچے کے لیے جینا چاہتی ہوں ۔برادری سسٹم نے اس کی زندگی تباہ کر دی تھی ماہ پارہ کو باپ کی شکل ہر دو سال بعد دیکھنا نصیب ہوتی تھی بھائی ذات پات معاشرہ اور برادر ی کے اس قدر پابند تھے کہ گھر میں دس سال سے اوپر کا کوئی بچہ نہ گھسنے دیتے تھے۔ ماہ پارہ بھائیوں کو دیکھتے ہی کمرے میں گھس جاتی تھی۔ گھر کا ماحول بہت گھٹا ہوا تھا۔ پیار محبت اورانس جیسی کوئی چیز ان کے گھر میں نہ تھی جس کی تلاش میں اس کی زندگی برباد ہو گئی۔ اس کی آنکھیں اپنوں کو ڈھونڈتی ہیں جو اس کے خون سے پگڑی کا طرّہ رنگ کر اُونچا کرنا چاہتے ہیں۔

جہالت اور تعلیم کے فقدان ہی کے باعث سیما نام کی ایک لڑکی گھر سے بھاگی۔ قصور اتنا تھا کہ24 سالہ امام مسجد اسے پسند کرنے لگ گیا تھا۔اور وہ اس سے شادی کی خواہش مند تھی۔ ذات برادری کے اختلاف کے باعث اس کے لیے بھی مشکلات ہوئیں۔ بھائی نے امام مسجد کو مسجد سے بھگا دیا اور اس کی ٹانگوں پر لوہے کے سریے مارے۔ صبح اذان کے بعد گھر سے بھاگی اور گورنمنٹ کالج کے اندر داخل ہوگئی ۔دراصل اس کالج میں اس نے ایف اے کے پیپر دیے تھے۔اور وہ اسے ہی جائے پناہ سمجھی تھی وہ ہوسٹل کے بینچ پر بیٹھ گئی ۔وارڈن اسے پرنسپل کے پاس لے گئی۔ تلاشی لی تو ایک ہزار کا نوٹ اور ایک تسبیح اس کے ہاتھ میں تھی۔ ٹانگوں اور ہاتھوں پر زخم کے نشان تھے اس نے کہا کہ وہ سیر کرنے کے لیے آئی ہے کالج انتظامیہ نے جب مزید پوچھ پڑتال کی اور وہ گھبرا گئی اور کالج کا گیٹ کراس کر گئی۔

تین دن بعد اس کے والدین بھی کالج پہنچے ماں نے رو رو کر حقیقت بتائی اور کہا کہ بچی پانچ وقت کی نمازی تھی میں رشتہ کرنا چاہتی تھی کیونکہ برادر ی میں اس کے لیے کوئی رشتہ نہیں تھا ۔ مگر بھائی نہ مانے اور وہ جان بچانے کے لیے گھر سے بھا گ کھڑی ہوئی والدین لڑکی کو ڈھونڈتے رہے آخرکار دو سال بعد وہ ایدھی سینٹر کراچی سے جا کر بچی کو لے آئے۔ان دو سالوں میں وہ مختلف جگہوں پر رہی واپسی پر وہ جسمانی و ذہنی طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ نیم پاگل یہ لڑکی آج اپنی کھڑکی میں کھڑی آنے جانے والوں کو کارٹون کی طرح کی شکلیں بنا بنا کر دکھاتی ہے۔ان کا منہ چڑاتی ہے۔

یہاں یہ صرف دو مثالیں ہیں ورنہ لاتعداد قصے ہیں جو بے بس مجبور اور لاچار بچیوں کی زبانی سننے کو ملے۔ کسی حد تک اور کہیں نہ کہیں وہ جذباتی ضرور ہوتیں ہیں مگر کیا والدین کا فرض نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے احساسات کو سمجھیں ان کی عمر کے ادوار میں ان کے ساتھ وقت گزاریں ۔نیٹ ،موبائل، لیپ ٹاپ جیسی چیزوں کا گھنٹوں استعمال اور ان پر چیک بھی ضروری ہے مگر مسائل جب گھمبیر شکل اختیار کر جاتے ہیں تو بجائے سلجھانے کے صرف مار پیٹ اور تشد د ہی ہے جس کے ذریعے وہ معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں ۔اس کے علاوہ جھوٹے پنچایتی اور سماج کے وہ ٹھیکیدار بھی ہیں جو ظالمانہ فیصلے کرتے ہیں اور والدین پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ برادری یا ذات سے باہر نکلے تو تیاگ دیے جاؤ گے۔ سماجی انحطاط کے پروردہ ان پیروکاروں کا پریشر اور دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بچیوں کے احساسات کی پرواہ کیے بغیر صرف خاندان والوں کو خوش کرنے کے لیے غیرت کے نام پر ان لڑکیوں کو مارنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے قبائلی اور کم وسائل والے گھروں میں ایسے واقعات نسبتاََ زیادہ ہیں۔

کچھ عرصہ قبل کم عمری کی شادیوں پر حکومت نے سختی سے نوٹس لیا اور18 سال سے پہلے شادی کرنے پر ورثا کو سزا کا حقدار قرار دیا۔ سزا کے خوف سے کم عمری کی شادی میں کمی واقع ہوئی۔ کاش ایسا کوئی عمل بھی ریاست کرے کہ وہ لڑکیاں جو ایک دفعہ قدم اٹھا کر ذلیل ہو جاتیں ہیں انھیں عزت سے معاشرے میں جینے کا حق دیا جائے صرف موت ہی ان کا مقدر کیوں ہے؟ یا در در کی ٹھوکریں ہی ان کا نصیب کیوں ہوتی ہیں؟ شادی کے وقت انھیں تاحیات جانی تحفظ بھی تو دیا جا سکتا ہے یا اس شخص کے ساتھ جس سے وہ بھاگ کر نکاح کررہی ہے اس کے لیے بھی تو کوئی قانون ہو سکتا ہے ؟

ریاست کے فرائض میں جان و مال کی حفاظت شامل ہے۔ کیا لڑکی میں جان نہیں ہے؟ اس کے سینے میں کیا دھڑکتا ہوا نہیں، پتھر کا دل ہے کہ ایک غلطی پر اس سے ناصر ف یہ کہ وہ گھر گلی محلہ اور شہر چھوٹ جاتا ہے بلکہ تا حیات وہ انھیں خونی رشتوں کو ترستی رہتی ہے جن کی کوکھ سے جنم لیااور جن کے ساتھ زندگی کا خوبصور ت ترین وقت گزارا۔ گھر سے بھاگ کر یا اپنی پسند کی شادی کرنے والی ماں اور بچے عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں کیونکہ مذہب اور سماج کے ٹھیکیدار اسے بری عورت سمجھ کر اپنے بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسے تنہا رہ کر یہ تاوان اد ا کرنا پڑتا ہے۔ سسرال میں بھاگی ہوئی لڑکی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور تاحیات مرنے تک اس کا استحصال جاری رہتا ہے۔

برادری کلچر جسے اکٹھ سے موسوم کیا جاتا ہے بعض اوقات دلوں کو توڑنے کا کام بھی بخوبی انجام دیتا ہے اسی کلچر کی وجہ سے پڑھی لکھی لڑکیاں بھی مجبور ہیں کہ وہ جہنم جیسی آگ میں جلتی رہیں کچھ کو برادری میں اچھا رشتہ مل جاتا ہے مگر بہت سی ایسی ہوتیں ہیں جن کو دور دور تک اچھا رشتہ نظر نہیں آتا وہ بھی اچھی زندگی کاخواب لے کر پسند سے شادی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جس کے باعث ان کی شہرت و نیک نامی کو نقصان پہنچتا ہے اور خاندان میں عموماََ اسے بری مثال سے یاد کیا جاتا ہے۔ جسے تعلیم دلاتے وقت گھر والے روشن خیالی کا عمدہ پیکر بن کر معاشرے کے سامنے اپنے خرچ کی تفصیل بتاتے ہیں بعد میں اس کے نام کا حوالہ بھی اپنی شان میں گستاختی سمجھتے ہیں ۔باپ کے بڑے گھر اور جائیداد میں حصہ ہوتے ہوئے بھی وہ ساری زندگی کرائے کے گھر میں رہتی ہے اور خون تھوکتے تھوکتے مر جاتی ہے کیونکہ معاشرتی پہرے داروں کے اصول بہت سخت ہیں جنہیں وہ توڑ نہیں سکتی۔ اس کے باپ کی جائیداد کا حصہ اس کے بھائی تو کھا سکتے ہیں اس کے اپنے بچے نہیں۔

اس کے برعکس مرد کا سماجی رتبہ مستحکم رہتا ہے۔ پسند کی شادی یا کسی کو بھگانے سے اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں آتی وہ معتبر ہوتا ہے بلکہ دلیر کہلاتا ہے ایسا دلیر جو کمزور عورت کو بھی تحفظ نہیں دے سکتا اور اسے حالات کی بھٹی میں جلنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

کاش ان بے درد والدین کے لیے بھی ریاست کوئی ایسا سماجی و معاشرتی قانون لاگو کرے کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دے اور ان کو پابند کرے کہ مرضی سے پیدا کی ہوئی اولاد نے اگر اپنی مرضی کی ہے تو ان پر زندگی کے دروازے بند مت کریں وہ اپنے والدین کے پیار اور ان کی جائیداد میں برابر کی حقدار ہے ۔ کیوں اچھوت سمجھ کر اس کے استعمال شدہ برتن بھی پھینک دیے جاتے ہیں اس کی تصویریں تک دیواروں سے اُتار کر جلا دی جاتی ہیں ؟کیا پیار و محبت اور امن و خوشحالی کی کوئی خواہش ایسی لڑکیوں کے لیے دل میں نہیں رکھی جا سکتی؟ اُن کی آنکھوں سے نوچے گئے امید بھرے خواب ان کی جھولی میں دوبارہ نہیں ڈالے جا سکتے؟ کیا لوٹے ہوئے موسم اور چوری شدہ زندگی ان کو واپس نہیں مل سکتی۔ ساری ناانصافیوں، ظلم اور بربریت کی علامت لڑکی ہی کیوں؟ معاشرہ، والدین، برادری سسٹم اور لنگڑا کلچر کیوں ذمہ دار نہیں؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).