بھارت کا بہترین ہتھیار پاکستان میں پانی کی بندش


بھارت بڑی مہارت کے ساتھ ہمارے بندوں کو ہمارے خلاف استعمال تو کر ہی رہا ہے اور کامیاب بھی ہو گیا ہے۔ اب تو کتاب پبلش بھی ہو گئی چیخنے چلانے سے کجھ نہیں ہونے والا۔  پہلے بھی یہاں انڈین لوگ رہتے ہیں وہ ہم سے کہتے ہوتے ہیں کہ اپ پاکستانی کام کرنے کے بعد سوچتے اور پچھتاتے ہو جبکہ ہم انڈیا والے پہلے سوچتے اور چلاتے ہیں بعد میں کام کرتے ہیں۔

مودی اپنے دورِ حکومت میں ہی پاکستان کو برباد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ اور اس کے پاس بہترین اور آسان ہتھیار ہمارا پانی بند کرنا ہے۔ شام، عراق اور یمن کے حالات ہمارے سامنے ہیں ان کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔ سعدیہ وارثی نے اُٹھائی تھی تو اپنے عہدے سے بھی ہاتھ دھوئے تھے اگر خدانخواستہ پاکستان میں ایسا کچھ ہوا تو ہمیں کہیں پناہ بھی نہیں ملے گی کوئی برما والوں کو تو پھر بھی بنگلہ دیش نے پناہ دے دی ہے۔ اور یہ جو ڈیموں کی مخالفت کرتے ہیں خود تو بلٹ پروف گھروں میں رہتے ہیں بچے باہر رہتے ہیں ان کو کیا پڑی ہے اعوام کی۔

مودی نے 57.5 ارب کا ڈیم بنا دیا ہے ہندوستان کے کسی بندے نے مخالفت نہیں کی کہ ہماری لاشوں سے گزر کے بنے گا۔ جبکہ کالا باغ ڈیم ایک آبِ حیات ہو سکتا ہے اُس پر مخالفت شروع کردی جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم بنانے سے 3600 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور پورے پاکستان اضافی پانی ہر صوبے کو دیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس کیمخالفت کرتے ہیں وہ پاکستانی اعوام کو پانی کی قلت سے مار کر دشمن کو خوش کرنا چاہتے ہیں ہمارا کتنا پانی ضائع ہو رہا ہے اور چند بندوں کی مخالفت کی وجہ سے پوری قوم کو سزا دے رہے ہیں۔ میانوالی کے ہزاروں علاقے بنجر پڑے ہیں ان کو نہریں دی جس سکتی ہیں۔ جو بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتا ہے پاکستان کی ترقی کا دشمن ہے۔

یہ صوبے بنانے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک ڈیم نہ بنا ئے جائیں اور ہمیں نہیں یاد کہ ہماری زندگی میں پاکستان میں کوئی ڈیم بنایا گیا ہو پھر چاہے وہ مُشرف ہو یا سو کالڈ جمہوریت ہو۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جس قوم سے خُدا ناراض ہو اس پر ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے یہی حال کتنے سالوں سے پاکستان کا ہوتا آرہا ہے۔ حکمران سرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں پیسا بنا کر باہر چلے جاتے ہیں جھوٹے اور کھوکھلے نعرے رمضان شریف میں بھی کُرسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں غریب آدمی لوڈشٹنگ میں روزہ رکھ رہا ہے۔ پر دیس میں بیٹھ کر اپنے ملک کی قدر کا پتا چلتا ہے جب یہاں فلسطین اور یمن کے لوگ پناہ کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں۔ اور معصوم بچے لے کر کھلے آسمان کے نیچے روزہ رکھ ہے ہوتے ہیں تو خوف آتا ہے اپنے بےحس حکمرانوں کو دیکھ کر جو اپنی ذات کے لئے ملک داؤ پہ لگا دیتے ہیں۔

یمن اور شام کے لوگوں کو پناہ کے لئے میلوں سفر کرکے یورپ لایا جاتا ہے اور جب تک رجسٹریشن نیں ہو جاتی بھیڑ بکریوں کی طرح اگے سے لوہے کی باڑ لگا دی جاتی ہے۔ ان میں بچے عورتیں بزرگ بیمار ہر قسم کے لوگ اپنا گھر بار سب کچھ گنوا کے آئے ہوتے ہیں اور حسرت بھری نظروں سے باڑ کی دوسری طرف ہمں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر کوئی ملک ان کو پناہ دینے سے انکار کر دے تو پھر جانوروں کی طرح دوسرے ملک روانہ کردیے جاتے ہیں۔ اوپر سے برف پڑ رہی ہوتی ہے اور بد قسمتی سے سب ہی مسلمان ملکوں کے باشندے ہوتے ہیں۔ ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ پاکستان پہ ایسا وقت نہ آئے ورنہ پھر یہ کیا کریں گے جو کالابا غ ڈیم سے ڈوبنے کا راگ الا پتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).