قیامت کے پانامے


\"farnood\"ہمارا رخ ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف تھا۔ ایک کے بعد ایک چیک پوسٹ پر سے یوں گزرتے کہ رہ رہ کر منیر نیازی یاد آئیں

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

آخر کو ایک سنگ میل ایسا آیا جو دو طریقوں سے عبور ہوسکے۔ یا تو این او سی دکھایا جائے یا پھر سیانے پن کا مظاہرہ کیا جائے۔ خیر سے اردو کے فرانسیسی ادیب ژولیاں ہمراہ تھے۔ ژولیاں فرانسیسی شہری ہیں جو ہندی اردو اور پنجابی پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ ساغر صدیقی پہ لکھا ان کا اردو ناول خاصے کی چیز ہے۔ میرا جی پہ لکھا ان کا ناول اجمل کمال صاحب ’’آج‘‘ میں شائع کر چکے اور یہ اجمل کمال ہی شائع کر سکتے تھے۔ جہاز میں پڑھتے ہوئے اچانک ’’آج‘‘ اس لیئے لپیٹنا پڑگیا کہ برابر کی نشست پہ بیٹھے ایک نہایت شریف النفس مسافر نے جھانکا تانکی شروع کردی تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ژولیاں کی لفظی آوارگیاں ایک بے بی کٹ بچے کی طبعیت میں کوئی خلجان پیدا کریں۔ پیشہ ورانہ عیاشیوں میں ایک یہ رہی کہ رزق کے جن دانوں پہ میرا اور ژولیاں کا نام لکھا تھا، وہ ایک ہی ادارے میں پائے جاتے تھے۔ ہماری گاڑی قطار میں لگی تھی کہ ژولیاں گاڑی سے اترے، چوکی پہ گئے، پولیس اہلکار سے مختصر مکالمہ کیا، زیر لب بڑبڑاتے ہوئے واپس آئے، گاڑی میں بیٹھے اور دھڑام سے دروازہ بند کردیا۔ میں نے پوچھا ’’خیریت تو ہے؟‘‘۔ بولے کہ میں پوچھنے گیا تھا کہ کیا ہم آگے جا سکتے ہیں؟ جواب نفی میں ملا ہے۔ اب گاڑی سے اترنے کی باری میری تھی۔ اسی پولیس اہلکار سے جا کر میں نے کہا میاں۔! ابھی یہاں سے اقوام متحدہ کے اہلکار گزرے ہیں، ڈبلیو ایچ او کا قافلہ گزرا ہے، انہیں تو آپ نے بلا روک ٹوک جانے دیا۔ اہلکار اکڑ کے بولا ’’تو پھر؟‘‘۔ تو پھر ہمیں کیوں جانے نہیں دے رہے؟ ترنت بولا ’’کیونکہ آپ نے پوچھا، نہ پوچھتے تو یونہی آپ بھی گزرجاتے‘‘۔ کرلو بات۔ این او سی ہمارے پاس تھی نہیں اور سیانہ گری کا موقع ژولیاں کی بے محل شرافت کے نتیجے میں ہم نے گنوا چکے تھے۔

سیانہ گری کا جو لمحہ ہم نے گنوایا اسے سمجھنے کے لئے ایک دوسری کہانی کی طرف لیکر چلتا ہوں۔ کسی اور شہر میں شادی ہالوں کا تو کوئی تجربہ نہیں رہا، کراچی البتہ شادی ہالوں کا مرکز ہے۔ تقریب کے دوران سیکورٹی اہلکار گدا گروں پہ کڑی نظر رکھتے ہیں کہ گھمسان کے رن میں اپنا حصہ ڈالنے نہ پہنچ جائیں۔ ہمارے بڑے بھائی کی شادی تھی، بھائی ہی کے ایک دوست جو طبعیت میں بہت مسکین الحال واقع ہوئے ہیں، تشریف لائے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سیکورٹی گارڈ دروازے پہ ان سے باقاعدہ کوئی تفتیش کررہا ہے، میں بھاگ کر پہنچا، گارڈ نے پوچھا ’’یہ مدعو ہیں کیا؟‘‘۔ یار کمال کرتے ہو، یہی تو مدعو ہیں۔ گارڈ ہنسا۔ میں نے ہنسنے کا سبب پوچھا، اصرار کرنے پہ بتایا ’’یہ دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اور مجھ سے آنکھیں چراتے ہوئے یوں آئے کہ مجھے لگا کوئی مانگنے والا موقع پا کر گھسنے کی کوشش کررہا ہے، سو میں نے دھر لیا‘‘۔ اس سے بھی دلچسپ کہانی منتظر تھی۔ قابوں کے ڈھکن اٹھے، مہمان چھری کانٹے لیئے ایک دوسرے کے نصیب پہ ٹوٹ پڑے۔ اسی اثنا میں ایک بھکاری جسے میں بہت اچھی طرح سے جانتا تھا، پورے اعتماد کے ساتھ ہال میں داخل ہوا، ہنستے مسکراتے چار پانچ مہمانوں سے ہاتھ ملایا، پلیٹ اٹھائی، ایک دو لوگوں سے کہا آپ بھی لیں نا آپ کیوں نہیں لے رہے، کھانا نکالا، ایک ہجوم میں بیٹھا، لوگوں کی آوازوں میں اپنی آواز شامل کیے رہا، قہقہوں میں حصہ لیتا رہا، سب کچھ ڈکار کے دامن جھاڑا، گارڈ سے ہاتھ ملاتا ہوا ساتھ کچھ کہتا ہوا نکلا اور ریڑھیوں کے اس پار کہیں گم ہوگیا۔ یہ کیا؟ بس یہ دنیا سیانوں کی نگری ہے، شرافت کے غیر ضروری ملبوسات اچھے اچھوں کو چوڑے میں مروا دیتے ہیں۔ یہ جس بھکاری نے اعتماد کی پالیسی پہ عمل کر کے اپنا کام اتارا یہ اپنی ذہانت میں مجھے آصف علی زرداری لگتا ہے، اور جس اعصاب چٹخ دوست کو گارڈ نے روک کر تفتیشن کی اس پر آج مجھے نواز شریف ہونے کا گمان گزرتا ہے۔

آپ اختلاف کر لیجیئے، مگر میرا ماننا یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کے گرد جو گھہیرا تنگ ہوا ہے اس کے پیچھے کلیدی ہاتھ خود میاں صاحب کا کار فرما ہے۔ یہ مصیبت شریف خاندان کی اس خوفزدگی کے سبب گلے پڑی ہے جو پارسائی کی لیپا پوتیوں سے پیدا ہوتی ہے۔ پارسائی کا دھندہ کرنے والے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ اسی لیئے تو یاری نبھانے میں بھی ناکام ہی رہتے ہیں۔ جو دامن کو پاک چاہتے ہوں وہ خواستہ نخواستہ عشق سے ذرا فاصلے پہ ہی رہتے ہیں۔ عشق چلا بھی آئے تو بندہ بشر ہوکر بھی اس سے حجابوں میں ملتے ہیں۔ اس طور کے خوفزدہ لوگ اپنی حلال کی کمائی بھی اس لیئے چھپاتے ہیں کہ کہیں حرام کا شبہ نہ پڑجائے۔ طبعیت بی ایم ڈبلیو کو مچلتی ہے، مگر دل پہ جبر کرکے کرولا لیئے پھرتے ہیں۔ بیش قیمت گاڑی لے بھی لیں تو بات یہ رکھتے ہیں کہ انگلیڈ کے دوست نے سالگرہ کا تحفہ دیا ہے۔ دکھلاوے کے واسطے ابا کا گھر رکھتے ہیں، بہلاوے کے واسطے انشا جی کی نظروں سے بھی دور کہیں نہر کے کنارے کٹیا تعمیر کرواتے ہیں۔ زمانے کی نظر پڑ جائے تو ملکیت کسی نامعلوم دوست کے متھے مار دیتے ہیں۔ بیش قیمت گھڑی ہاتھ میں دیکھ کر کوئی تعریف کردے، تو جھٹ سے کہتے ہیں بس جی یہ تو بیٹے کے ایک دوست نے گفٹ کی تو میں نے پہن لی، ورنہ تمہیں تو پتہ ہے گھڑیوں کا مجھے کوئی خاص شوق نہیں ہے۔ اسے کہتے ہیں خود پہ ازخود سوال کھڑے کرنا۔ راحت اندوری ایک مشاعرے میں مائک کی طرف بڑھے تو قدم ڈگمگا رہے تھے، بولنے پہ آئے تو لفظ پھسل رہے تھے، سمجھنے والے تو سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو کچھ بے حسابی ہوگئی ہے، مگر چونکہ راحت صاحب نے اپنی شاعری میں پارسائی کا ایک مقدس بت بھی تراش رکھا ہے، تو خوفزدگی نے آن لیا۔ ایک بے محل وضاحت کرنے پہ مجبور ہوگئے۔ فرمایا ’’خواتین و حضرات۔! ٹانگوں میں کچھ تکلیف ہے، آنکھوں میں کچھ سوزش ہے، بس طبعیت ناساز ہے خدارا کچھ اور شک مت کر لیجیئے گا‘‘۔ اس وضاحت کے بعد تو معاملہ ان سامعین کی سمجھ میں بھی آگیا جو خم وپیمانے کا حساب نہیں جانتے تھے۔ بے محل وضاحتیں دراصل اعتراف کے زمرے میں آتی ہیں اور غیر ضروری احتیاطیں شک میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ نیسلے کی کا گھونٹ خوفزدگی کے عالم میں بھریں گے تو ووڈکا کا ہی گمان گزرے گا نا صاحب۔ کبھی سو چیئے کہ آخر ضرورت کیا تھی جو حسن نواز اپنی ذاتی ملکیت کو بھی کرائے کا مکان کہنے پہ مجبور ہوگئے؟ ظاہر ہے کہ خوف۔ اس خوف نے کہاں سے جنم لیا؟ پھر ملا کیا؟ جب مریم اپنے بھائی حسین کے گھر رہتی ہوں، پھر حسین نواز ابا جی کے پاس اقامت ہذیر ہوں، ابا جی اپنی اماں حضور کے پاس رہائش پذیر ہوں، زوجہ شوہر نامدار کے پاس رہتی ہوں، میاں صاحب کی گاڑی بیٹے کا دیا تحفہ ہو، حسین کی گاڑی ابو کا دیا ہدیہ ہو، بیٹی کا زیور امی کی نشانی ہو، امی کا ہار بیٹی کی محبت ہو تو ایسے گھن چکر میں کچھ ہو نہ ہو آف شور کی بتوڑیوں سے بے خبر عام آدمی کو بھی آپ اس نتیجے پہ پہنچا دیتے ہیں کہ بابا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

کل دارلحکومت کے ایک صحافتی گوشے سے آواز اٹھی کہ جب کبھی میاں صاحب پر برا وقت آیا لوگوں نے رستے بدل لیئے۔ ہم چونک پڑے صاحب کہ راتوں رات مورخ کا بیان کیسے بدل سکتا ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ میاں صاحب کی خوفزدگی سے جنم لینے والی خاموشی کو ہمیشہ صبر جانا گیا۔ سامنا کرنے کا حوصلہ آج وہ تیسری بار مسند اقتدار پہ بیٹھ کر بھی نہیں پا سکے ہیں۔ سوالات متعین نہ ہوں تو کیمرے سے دور رہتے ہیں۔ غیر ضروری احتیاط کو حکمت اور اخلاقی فرار کو کبھی تدبر نہیں کہا جا سکتا۔ اصل میاں صاحب یہ ہیں جو ایک ماہ میں تیسری بار قوم سے مخاطب ہوئے ہیں۔ پردے میں تھے تو خوفزدگی کے باعث، چلمن اٹھایا ہے تو بھی خوفزدگی کے سبب۔ طبعیت کا یہ پہلو دوستی کے قابل بھی نہیں چھوڑتا۔ جرات رندانہ اور صبرِ مسلسل وہ ہے جو آصف علی زرداری کے حصے میں آیا۔ خلق خدا ان پہ کیوں حرف گیر نہیں ہے؟ صرف اس لیئے کہ پارسائی کے کبھی دعوے نہیں کیئے۔ خود ان کے رفقا نے بھی نہیں کیئے۔ تقدیس کا ایک بت جو کبھی تراشا ہی نہیں گیا تو اس کی بقا کے لئے وسوسوں اندیشوں سے گزر کیسا؟ فقط ایک عمل کا حساب دینا تھا وہ عام انتخابات میں دے دیا۔ زندگی آسان۔ اسی لیئے تو جب وہ حلیف سے نبھاتے ہیں تو زمانے کی لومت لائم سے بے پرواہ ہوکر فلک تک ساتھ چلتے ہیں، حریف کو مارتے ہیں تو نہر کے اسی کنارے لے جاتے ہیں جہاں پانی قدرے کم ہوتا ہے۔ میاں صاحب کی کمائی حلال کی ہے۔ اس میں حرام کا اتنا ہی دخل ہے جتنا کہ اس ملک کے ہر دوسرے شہری کی کمائی میں ہے۔ پارسائی کی آنکھ مچولی میں خود قوم کو پیچھے لگا دیا، اب کہتے ہیں تنہائی ڈستی ہے؟ پھر شکوہ یاروں سے؟ یہ تنہائی آصف علی زرداری کی عنایت نہیں ہے، یہ ان وقتوں کا صلہ ہے جو میاں صاحب اور ان کے الحمد اللہ ماشااللہ والے رفقا بھول جاتے ہیں۔ زرداری نے تو تب بھی نبھائی جب میاں صاحب میمو گیٹ اسکینڈل میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔ سوچنا چاہیئے کہ وکلا تحریک پہ اب ندامت سی کیوں محسوس ہوتی ہے؟ زرداری نے وقت نہیں دیا؟ بالکل بجا، مگر یاد کیجیئے وہ سارے لمحے کہ جب جب زرداری نے پکارا تو آپ کو کام نکل آئے۔ کیوں؟ صرف اس لیئے کہ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر آپ کی اس پارسائی پہ حرف آتا تھا جو بلا وجہ تراشی گئی۔ خوفزدگی کے یہ اسباب خود آپ نے پیدا کیئے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں زرداری نے وقت مانگا تھا، آپ نے دیا؟ نہیں نا؟ تو اب رویئے زار زار کیا کیجیئے ہائے ہائے کیوں؟

رہے ہم۔؟ تو ہم کیا کریں؟ ہم منظرنامے کا درست اور مبنی برحقیقت تجزیہ کریں۔ مبنی بر حقیقت تجزیئے اوقات میں رہے بغیر نہیں ہوسکتے۔ سامنے کا نوشتہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، جمہوری تسلسل کے سوا احتساب کی کوئی شکل ممکن نہیں ہوسکتی۔ کیوں؟ ہم سے نہ پوچھیئے کہ کیوں، خود ہی بتلایئے کہ احتساب کون کرے گا؟ وہ جن کے صرف ایک رفیق نے دو ارب اسی کروڑ دبا رکھے ہیں؟ چیف جسٹس کریں گے؟ سبحان اللہ۔ اچھا تو عمران خان کریں گے؟ واقعی؟ کئی بار وہ اپنے دائیں بائیں دیکھ کر یہ کہہ چکے ہیں کہ میں فرشتے کہاں سے لاؤں؟۔ یہی سچائی ہے۔ یہ وہ سچ ہے جسے بھول کر کبھی نواز شریف صاحب نے پارسائی کی دیوار اٹھائی تھی، اب کچھ اور ہیں جو اوقات سے بڑھ کر محتسب کو اکسا رہے ہیں۔ پارسائی کے اس دھندے میں کس کس کا دامن نچوڑیں گے؟ میں ہوں ، آپ ہوں یا کہ میر ہوں، چونکہ ہم سب ایک ہی زلف کے اسیر ہیں اس لیئے پاکیِ داماں کی حکایت اتنی ہی بڑھانی چاہیئے جتنا کہ ظرف ہے۔ مثالی احتساب کی دہائی صد مرحبا، مگر ظالم دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ۔ جو کام ہو نہیں سکتا اس سے باز رہنا چاہیئے، جو ہوسکتا ہے اس کے لئے دو برس کا انتظار کیا جانا چاہیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments