مولوی کس نے بنایا۔۔۔ جواب آں غزل!


گزشتہ روز ایک ڈاکٹر صاحبہ کا ایک آرٹیکل بعنوان ”مولوی کس نے بنایا” اتفاقاً نظر سے گزرا۔ ڈاکٹر صاحبہ کی پیشہ وارانہ مہارت میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کے میدانِ طب سے متعلق مضامین سے مستفید ہونے والوں میں میرا بھی نام شامل ہے۔ لیکن ان محترمہ نے جب بھی کبھی اپنے شعبے سے ہٹ کر کسی بھی موضوع پر قلم اٹھایا اپنے بنے بنائے تشخّص کو اپنے ہاتھوں سے برباد ہی کیا۔ اس مضمون میں فاضل مضمون نگار صاحبہ نے ”مولوی” کو جہالت کے استعارے کےطور پر پیش کیا اور ان کی تحریر کا بحیثیتِ مجموعی تاثر یہ تھا کہ مولوی چاہے مسلمان ہو یا عیسائی، مساوی طور پر جاہل ہوتے ہیں اور ان کی روزی روٹی کا دارومدار جاہل عوام کی جہالت پہ ہے۔ میں اس کے رد میں کوئی دلائل دینے کی بجائے آج آپ سب کی ملاقات ایک مولوی سے کروانا چاہتی ہوں۔

ان مولوی صاحب کا تعلق آزاد کشمیر کے ایک انتہائی غریب لیکن دین دار گھرانے سے تھا۔ گاؤں کے ٹاٹ سکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد والدین نے بہت چھوٹی عمر میں حصولِ علم کیلئے اپنے دوردراز گاؤں میں موجود گھر سے ایک نسبتاً زیادہ آباد علاقے پلندری کے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا۔ جہاں سے انہوں نے درسیات کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ان کے والدِ گرامی انہیں لاہور کے جامعہ نظامیہ رضویہ میں داخل کروا گئے۔ یہاں لاہور میں پہلے سے ان کے دو بڑے بھائی تعلیم اور روزگار کیلئے مقیم تھے۔ یہاں سے اپنی درسِ نظامی کی ڈگری مکمل کرنے ساتھ ساتھ ان مولوی صاحب نے سیکنڈری بورڈ سے ایف۔اے اور پنجاب یونیورسٹی سے بی۔اے امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا۔ ان محترمہ کے کلیے کے مطابق ان مولوی صاحب کو لوگوں کے ”ٹکڑوں” پر پلنا چاہیئے تھا لیکن درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مولوی صاحب نے ایک مسجد میں امامت خطابت کے ساتھ ساتھ جامعہ نظامیہ میں درس و  تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور ساتھ ہی سرکاری ملازمت کیلئے درخواست دے دی۔ جلد ہی انہیں محکمہء اوقاف میں 5ویں سکیل کے سرکاری ملازم کے طور پر ملازمت مل گئی۔

اسی دوران سرکاری ملازمت کے ساتھ سا تھ پارٹ ٹائم مختلف مدارس میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، جن میں منہاج القرآن بھی شامل ہے۔ جب تک ممکن ہوا یہ سلسلہ جاری رکھا اور اسی دوران انہوں نے جس لاہور کے مضافاتی علاقے میں کشمیر سے ہجرت کر کے اپنی فیملی کو آباد کیا، وہاں کے لوگوں کو دین سے بہرہ ور کرنے کیلئے ایک دینی ادارے کی بنیاد رکھی۔ یہ دینی ادارہ بہت محدود وسائل اور مولوی صاحب کی سرکاری ملازمت کی مصروفیات کے باوجود آہستہ آہستہ اپنے مشن پر گامزن رہا۔ ان مولوی صاحب نے اپنی آمدن میں اضافہ کیلئے ہوم ٹیوشنز دیں، تنظیم المدارس کے امتحانات میں بطور نگران سے لے کر بطورِ پیپر چیکر خدمات سر انجام دیں، سارا دن سرکاری ملازمت اور ادارے کی مصروفیات اور ساری ساری رات پیپر چیکنگ۔، اور ان بے تحاشا مصروفیات اور دمے جیسی بیماری کے ساتھ مقابلے کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وقت گزرتا رہا اور ان مولوی صاحب کو اللہ پاک نے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ ان کی زندگی مسلسل جدو جہد سے عبارت تھی اور اس  جدوجہد کا محور صرف دو مقاصد تھے۔ ایک اپنے دینی ادارے کے پلیٹ فارم سے دینِ حق کی تعلیم و تبلیغ اور دوسرے اپنی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت۔

ان میں سے پہلے مقصد یعنی ادارے نے بےشمار نشیب و فراز دیکھے اور آج الحمدللہ اس ادارے کی بدولت وہ علاقہ جہاں لوگوں کو مسلمان ہونے کے باوجود طہارت تک کے بنیادی مسائل کی خبر نہیں تھی، ہر گلی اور ہر محلے میں گھر گھر میں عالمات بچیاں اپنے گھرانوں کو اور ارد گرد کے لوگوں کو نورِ ایمان سےمنور کر رہی ہیں اور یہی نہیں اسی ادارے کی فارغ التحصیل طالبات ایچ۔ای سی کے تحت یونیورسٹیز سے ایم۔فل کی ڈگریز لے رہی ہیں۔ اور اس ادارے کے تعلیم یافتہ علماء نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں دین کی خدمت کر رہے ہیں۔

اب آتے ہیں ان مولوی صاحب کی اولاد کی طرف، جو ان محترمہ کے بقول ”جہالت کا پیکر” تھے، نعوذ باللہ، ان مولوی صاحب کی  سب سے بڑی بیٹی نے ایف۔ ایس سی پری میڈیکل کیا، میڈیکل کالج میں داخلے کی بھر پور کوشش کی لیکن انٹری ٹیسٹ کے عفریت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اور مایوسی کی انتہائوں پر پہنچ کر تعلیم کو ہی خیر باد کہنا چاہتی تھی لیکن اس وقت یہ مولوی صاحب ہی اس کی ہمت افزائی اور حوصلہ بڑھانے میں کامیاب ہوئے اور اپنی بیٹی کو پنجاب یونیورسٹی سے کمیونیکیشن سٹڈیز میں ماسٹرز کروا کے ہی دم لیا۔ اور یونیورسٹی میں ان کی بیٹی ایک بھرپور بااعتماد سٹوڈنٹ کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہی اور یہ تعلیم اس نے احکاماتِ خداوندی کے مطابق باپردہ رہ کر حاصل کی۔ آج کل ان کی وہ بیٹی سوشل میڈیا پر آن لائن آرٹیکلز لکھتی ہے۔

اس سے چھوٹا بیٹا غالباً 2006ء میں یو۔ای۔ٹی لاہور سے میکاٹرانکس انجینئر بنا اور بعد ازاں سکالر شپ پر ایم۔فل کر کے پی۔این۔آر۔اے کے محکمے میں گزٹیڈ آفیسر کے طور پر ملازمت اختیار کی۔ اور ابھی گزشتہ دنوں ایک ریسرچ سکالر کے طور پر ویانا میں ایک مقالہ پڑھ کے اور لیکچر دے کے آیا ہے اور کامیابی کا یہ سفر الحمدللہ جاری ہے۔ تیسرا بیٹا پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد سی۔ایس۔ایس کے امتحان میں بیٹھا لیکن معمولی سے مارجن سے کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ وہ آج کل بطورِ اوورسیز پاکستانی شارجہ میں خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ مولوی صاحب کا چوتھا بیٹا اس وقت ایک وکیل کے طور پر اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ مولوی صاحب کی دوسری بیٹی بھی بڑی بہن کے نقشِ قدم پر آج کل پنجاب یونیورسٹی سے کمیونیکیشن سٹڈیز میں ماسٹرز کر رہی ہے  اور ساتھ ہی ساتھ پاپولر فکشن کے کچھ کامیاب رسائل میں بطورِ مصنفہ اپنی شناخت بنانے میں مصروف ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا اپنے والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بی۔اے کرچکا ہے اور درسیات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایم۔فل کرنے یا سی۔ایس۔ایس  میں قسمت آزمائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور سب سے چھوٹی بیٹی سکول سے فارغ ہونے والی ہے۔ یہ ان ”جہالت کا پیکر” مولوی صاحب کی اولاد کا مختصر تعارف ہے۔

اب ان کے اپنے علمی قد کاٹھ کی بات کرتے ہیں۔ ان کے علمی قد کاٹھ کا اندازہ صرف ان کے گھر میں موجود ان کی ذاتی لائبریری میں موجود کتب سے لگایا جا سکتا ہے۔ جو کم و بیش ہزار ڈیڑھ ہزار کتب پر مشتمل ہے اور ان کتب کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اپنی اتنی سخت جدوجہد پر مبنی شب و روز کے باوجود مولوی صاحب نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اوردو کتابچوں اور دو کتابوں کی تصنیف کے علاوہ اسلامی تاریخ پر مشتمل ایک مصری مئورخ کی چار جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کا اردو ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔  غالباً 2004 ء میں ان مولوی صاحب کے ایک شاگرد نے جو ڈنمارک میں ایک اسلامک سنٹر میں بطورِ امام خدمات سرانجام دے رہے تھے، اپنی انتظامیہ کو مذہبی سکالر کی آسامی کیلئے مولوی صاحب کا نام پیش کیا۔ اسلامک سینٹر کے منتظمین اس نامزدگی سے کچھ مطمئن نہیں تھے کہ اس جگہ وہ پی۔ایچ۔ڈی سے کم کسی عالمِ دین کو  متعین نہیں کرتے تھے۔ بہرحال انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا، مولوی صاحب سے ملاقات کی، ان کی کچھ تقاریر سنیں، کچھ ریکارڈ کر کے لے گئے اور بالآخر انہوں نے مولوی صاحب کو ایک پی۔ایچ۔ڈی کی آسامی پر ڈنمارک بلوا لیا۔

پاکستان میں اپنی ملازمت سے تین سال کیلئے بغیر تنخواہ چھٹی لے کر مولوی صاحب ڈنمارک چلے گئے۔ وہاں اپنے قیام کے تین سالوں کے دوران مولوی صاحب نے انتہائی اعلٰی تعلیم یافتہ پاکستانی نژاد ڈینش طلباء اور پروفیشنلز کی ایک ایسی ٹیم کی تشکیل کی کہ  اب اس ٹیم کا صرف ایک ممبر جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہے اور ایسا انجینئر کہ جس نے ڈنمارک کی تاریخ میں تعلیمی میدان میں ریکارڈ قائم کئے۔، وہ جانے کتنے آن لائن حلقوں میں نوجوانوں کو قرآن اور حدیث کا علم دے رہا ہے اور مکمل عالمِ دین بن چکا ہے۔ اور یہ نوجوان مولوی صاحب سے اس قدر متاثر ہے اور ان کا معتقد ہے کہ اپنی شادی پر بطورِ خاص مولوی صاحب کو ڈنمارک لے کے گیا کہ اپنا نکاح کسی اور سے پڑھوانا اس نے گوارا نہیں کیا۔ یہ مولوی صاحب بہت ہی اعلٰی پائے کے غزل گو اور نعت گو شاعر ہیں، اور آج کل یہ مولوی صاحب محکمہء اوقاف میں بطور صوبائی خطیب 18ویں سکیل پر اپنی ملازمت کے آخری چند ماہ گزار رہے ہیں کہ ریٹائرمنٹ چند ماہ کے فاصلے پر ہے۔ مندرجہ بالا واقعات اور حوالہ جات ان مولوی صاحب کی علمی قابلیت کی محض ایک جھلک ہے۔

گزارش یہ ہے ڈاکٹر صاحبہ کہ آپ جیسے لبرل اور سیکولر لوگ ہم جیسے دینی سوچ کے حامل افراد کو اکثرو بیشتر تنگ نظری اور افراد کو ان کے لباس اور وضح قطع کی بنیاد پر جج کرنے کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ حقیقتاً آپ کے طبقے سے زیادہ لباس اور وضح قطع کی بنیاد پر لوگوں کو کوئی اور طبقہ جج نہیں کرتا۔ جہاں کوئی داڑھی اور ٹوپی میں ملبوس مرد یا باپردہ عورت نظر آئی فورًا تصور کر لیتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ ایک ”جاہل مولوی” ہے یا یہ عورت ایک ظلم اور جبر کی چکّی میں پسی ہوئی مظلوم اور جاہل عورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ صرف ایک مولوی صاحب کا مختصر سا تعارف آپ کی اس سوچ کو اگر بدل نہیں سکے گا تو کم از کم آپ اپنی سوچ پر نظرِ ثانی ضرور کریں گی۔ اور ہاں آخر میں بتا دوں کہ یہ مولوی صاحب کوئی اور نہیں میرے اپنے والدِ مجترم ہیں اور مجھے ایک مولوی کی بیٹی ہونے پر فخر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).