یومِ نجات: ڈیم بناو پاکستان بچاو


آج ٹویٹر پر دو طرح کی مہم چلائی جارہی تھیں، ایک ”ڈیم بناو پاکستان بچاؤ“، اور دوسری ”یومِ نجات“ دونوں مہمات پر ٹویٹ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پانی کی قلت اور بھارت کا پاکستان کی طرف بہنے والے دریاوں پر ڈیم تعمیر کرنا واقعی پاکستان کے لیے پریشان کن ہے۔ مزید اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ افغانستان بھی بھارت کے تعاون سے، پاکستان کی طرف بہنے والے دریاوں پر ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ بس یہ دیکھ کر لگتا ہے، جیسے ہر طرف سے پاکستان پر گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے سبب دشمن کھلم کھلا جنگ کا اعلان تو نہیں کرتا مگر پاکستان کیلئے وہ مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے، کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

سانپ سے یاد آیا ویسے تو ہر سانپ زہریلا اور انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ مگر سیانے کہتے ہیں آستین کے سانپ سب سے خطرناک سانپ ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی، جو آج ٹویٹر پر دونوں مہمات کا موضوع، وہی چند آستین کے سانپ ہی تھے، جنھوں نے اپنے گھر کی جنگ پڑوسی دشمن سے ہوتے ہوئے، عالم میں پھیلا دی۔ اس کی وجہ سے ملک کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آنے والے دور میں ملک کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں کہ پہلے ہی سے پاکستان کو تنبیہہ کی گئی تھی، کہ جون تک بہتری لائے، ورنہ پاکستان کا نام ”گرے لسٹ“ میں شامل کردیا جائے گا۔ اس کارِ بد میں آستین کے سانپ نے وہ ڈسا کہ ساری راہیں ہم وار ہو چکی ہیں۔ اب پاکستان چوں چراں بھی نہیں کرسکتا۔ اس شعر کے مصداق:
ہمیں تو اپنوں نے لوٹا، غیروں میں دم کہاں تھا
میری کشتی تھی ڈوبی وہاں جہاں پانی کم تھا

انسان دشمنوں سے لڑسکتا ہے، دشمن تو آخر دشمن ہوتا ہے، دشمن سے کیسا شکوہ۔ گلہ تو اپنوں سے ہوتا ہے۔ ایسے آستین کے سانپوں کو اپنا کہنا بھی رشتوں کی تذلیل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آج وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے اپنی مدت مکمل کرلی، تو ایسا لگا جیسے زمین سے بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔ جیسے ایک عجب خوشی محسوس ہورہی ہے۔ اس خوشی کی وجہ سے ٹویٹر پر ایک مہم ”یومِ نجات“ کے نام سے چلائی گئی۔

ان پانچ سالوں میں حکومتوں نے جو گُل کھلائے ہیں، اگر بات احتساب پر آئے تو نواز شریف اور شہباز شریف وغیرہ تو تاحیات جیلوں میں سڑتے رہیں، مگر بچنے کے امکان عمران خان وغیرہ کا بھی نہیں، جو پارسائی کے گیت گنگنا رہے ہیں۔ وہ بھی احتساب سے نہیں بچ سکتے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کا نظامِ احتساب پہلے تو ہے نہیں، اور اگر ہے بھی تو برائے نام۔ جس کی وجہ سے یہ سیاست دان دندناتے پھرتے ہیں۔

اس دورِ حکومت میں کیا کچھ ہوتا رہا، سب جانتے ہیں، مگر حالت یہ ہے کہ سارے کالے کرتوتوں کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت ابھی مسلم لیگ اور نواز شریف کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اینکر پرسن سے لے کر پان کی دُکان کے مالک تک، ہر طبقے میں ایسے لوگ بہت ہیں، جو کالے کرتوتوں کو نظر انداز کر کے نواز شریف کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار خیال آتا ہے پاکستانی قوم جیسی سادہ اور بے وقوف قوم شاید ہی پوری دنیا میں کہیں ہو، کہ حکمرانوں نے اس قوم کا خون تک چوس لیا، پھر بھی یہ قوم ان کے لیے مرنے کو تیار ہے۔

اگر سچ میں یہ لوگ اخلاص کے ساتھ عوام کی خدمت کرتے اور عوام واقعی خوش حال ہوتے، تو عوام ان حکمرانوں کے بچوں کے بھی غلام بن کر رہتے۔ یا پھر شاید یہ قوم شعور سے عاری ہے، ابھی تک شعور کی اس منزل تک پہنچی ہی نہیں، جہاں ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہوکر، صرف کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو منتخب کیا جاتا ہے۔ کرپٹ مافیا کو ان کی کرپشن کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے سیاست سے فارغ کردیا جاتا ہے۔

اللہ ہی جانے آنے والے الیکشن میں، اس قوم کے نصیب میں بہتری لکھی ہے یا پھر اگلے پانچ سال پھر وہی رونا دھونا لکھا ہے۔ یہی دعا ہے کہ جنرل الیکشن سے پہلے پہلے، اللہ کرے احتساب ہوجائے۔ تا کہ کرپٹ اور چور سیاست دان اپنے انجام کو پہنچیں۔ اس کے بعد صاف شفاف الیکشن ہوں، تبھی بہتری کی امید ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).