مارکیٹنگ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت


مارکیٹنگ کا سادہ ترین اصول یہ ہے کہ آپ اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کی پراڈکٹ سے  متعارف اور متاثر ہوکر اُسے خریدیں۔جتنی زیادہ کسی پراڈکٹ کی سیل بڑھے گی اُتنا زیادہ  اُس پراڈکٹ سے حاصل ہونے منافع بڑھے گا۔ گویا مارکیٹنگ کا اصل مقصد لوگوں کی بھلائی یا آگاہی  نہیں بلکہ اُنہیں اپنی پراڈکٹ کی طرف راغب کرکے منافع اور مالی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات مارکیٹنگ کے زریعےلوگوں کی جنسی شہوت، مذہبی اعتقادات،  منفرد نظر آنے کی خواہش  اور ہوسِ زر کو ابھار کر  کسی پراڈکٹ کی مصنوعی طلب بھی پیدا کی جاتی ہے اور مٹی کو سونا بنا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لئے مارکیٹنگ  پر اربوں کھربوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی ایڈورٹائزنگ  ایجنسیز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو کہ انسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے پراڈکٹ کے پرکشش اور جاذبِ نظر  اشتہار بناتی ہیں۔ پھر اِن اشتہاروں کو الیکٹرانک، پرنٹ اورسوشل میڈیا پر چلایا جاتا ہے ،سڑکوں، چوراہوں اوراہم عوامی مقامات پرنصب کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سےزیادہ لوگ اشتہار کو دیکھیں اور پراڈکٹ خریدنے کی طرف متوجہ ہوں ۔  ایک محتاط اندازے کے مطابق عالمی سطح پر مارکیٹنگ انڈسٹری کا سالانہ حجم 550 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔(پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا وفاقی  بجٹ صرف 45  ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے)۔

 ملکِ خداداد پاکستان میں الیکشن کی آمد آمد ہے۔ آپ کسی بھی شہر کی کسی بھی سڑک پر سے گزریں تو آپ کو ہر طرف سیاسی راہنما‎‎ؤں کے چھوٹے بڑے بینر اور فلیکسیں لگی نظر آئیں گی۔ ہر بینر پر ”آپ کے ووٹ کا حقیقی حقدار “، ”انشاءاللہ ایم این اے“ اور” نصر ا  من اللہ وفتح قریب“ جیسے جملے درج   ملیں گے۔جن بڑی بڑی فلیکسوں پر عام دنوں میں  ملبوسات اوردیگر اشیاء ِضرورت و تَعیش کے اشتہار لگے ہوتے ہیں اُن پر آج کل ہمارے سیاسی لیڈروں کی تصویروں کا قبضہ ہے۔ ایسے میں انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا یہ تمام اشتہار بازی  اور اِس  پر آنے والے لاکھوں کروڑوں کے اخراجات عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے جارہے ہیں؟ یا پھر یہ سیاستدانوں کی اُس مارکیٹنگ کمپین کا حصہ ہے جس کے زریعے وہ  عوام میں اپنی تشہیر کے زریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور پھر عوامی نمائندہ منتخب ہونے کے بعدمختلف ناجائز ذرائع سے منافع حاصل کرتے ہیں۔

   پاکستان میں آئے دن کرپشن کی کہانیاں منظرعام پر آتی رہتی ہیں اور ہم بحیثیتِ قوم ہر کہانی پر حیرانگی اور غم و  غصے کے ملے جلے تاثرات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ردِعمل ہماری اجتماعی بے شعوری، جذباتیت اور  کم عِلمی  کا عکاس ہے۔ فطرت کا اصول یہ ہے کہ افراد اور اقوام جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔جب ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام عِلمی اور عَملی قابلیت کی بجائے محض سرمائے، طاقت اور جاگیر کی بنیاد پر قائم ہوگا اور اُسی کی بڑھوتری اور تحفظ کے لئے کام کرے گا تو پھر رونا دھونا کیسا؟ سادہ سی بات ہے کہ سرمایہ داری نظام میں سیاست ایک تجارت اور کاروبار کی حیثیت اختیارکر جاتی ہے جس میں مختلف افراد ، دھڑے او ر کمپنیاں  بے حساب شرح منافع کے لالچ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور قانون میں موجود کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمن پسند افراد او ر کمپنیوں کو ٹھیکے، پرمٹ ، لائسنس وغیرہ  دیے جاتےہیں جن سے کمیشن کا حصول ممکن ہوتا ہے۔انتخابی نظام میں پیسے کے اِسی عمل دخل  اور اِس کے نتیجے میں ہونے والی کرپشن نے تمام اداروں کو گھن کی طرح چاٹ لیا ہے اور آج ہمارے ریاستی  ادارے عوام کو خدمات فراہم کرنے کی بجائے عوام کی تذلیل اور لوٹ مار کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

آج کل الیکشن میں حصہ لینے اور مقابلہ کرنے کے لئے کم از کم پانچ کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں۔ پانچ کروڑ روپے کتنی  بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ  ریاست کی طے کردہ کم از کم اجرت یعنی 14 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے مزدور کو پانچ کروڑ روپے جمع کرنے کے لئےصرف دو سو ستانوےسال (297 سال) درکار ہونگے۔

 ذرا سوچئے کہ اگر آپ  کے پاس محنت کی کمائی کے پانچ کروڑ ہوں تو کیا آپ فی سبیل اللہ اِسے الیکشن کے جوئے میں جھونکنے کو تیار ہوجائیں گے؟ کونسا  تاجر اپنے ہوش و ہواس میں اتنے گھاٹے کا سودا کرنے کو تیار ہوگا؟اگر آپ مخلص ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں  توکیا آپ اِس  پانچ کروڑ کا ایک  حصہ اپنے ماتحتوں اور اردگرد موجود ضرورت مندوں  پر خرچ کرنے کوترجیح نہیں دیں گے؟ظاہری سی بات ہے کہ جو افراد یہ سرمایہ کاری کرتے ہیں ان کا خدمت خلق سے  قطعا کوئی تعلق نہیں ہوتا  بلکہ وہ یہ عمل  ایک سیاسی جواء کھیلنے کے ارادے سے کرتے ہیں کہ اگر جیت گئے تو خرچ کی گئی رقم کو کئی گنا کرنے کا کھلا لائسنس مل جائے گا اور اگر ہار گئے تو بھی علاقے میں کچھ نہ کچھ دھاک تو بیٹھ ہی جائے گی۔ تھانہ کچہری  اور اربابِ اختیار سے  واقفیت بن جائیگی  جس کی بنیاد پر کاروباری فوائد حاصل ہو سکیں گےاور اس امید پر کروڑوں کے نقصان کو برداشت کرلیتے ہیں کہ چلو اگلی دفعہ جیت گئے تو  تمام کسر نکال دیں گے۔

جیتنا یا ہارنا تو بعد کی بات لیکن موجودہ سیاسی نظام میں ایک سیاسی جماعت  اگر تمام حلقوں میں  اپنے امیدوار کھڑا کرنا چاہے تو اسے کم و بیش 80 ارب روپے کی خطیر رقم  درکار ہوگی۔ یاد رہے کہ ایک ارب میں 9صفر ہوتے ہیں اور کوئی بھی انسان یا جماعت  دوسروں کا استحصال کئے بغیر فقط  اپنی محنت سے اتنی بڑی رقم اکٹھی نہیں کرسکتی ۔  یہ رقم کہاں سے آ‏ئیگی اور کوئی جماعت یا فرد یہ رقم بمع سود  واپسی کی امید کے بغیر  کیوں لگائےگا اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کسی آئن سٹائن کے دماغ کی ضرورت نہیں ہے۔

آج کل قبل از الیکشن ہونے والی دھاندلی کا بہت چرچا ہے لیکن سب سے بڑی دھاندلی تو یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ  جمہوریت میں اقتدار تک پہنچنے کا موقع صرف جاگیردار اور سرمایہ دار کے پاس ہوتا ہے ۔ عوام کی اکثریت جو کہ اپنی  بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے  ، عملی طور پر اس سیاسی عمل سے خارج ہے اور پانچ سال بعد اشرافیہ کے کسی دھڑے کو  ووٹ کی پرچی ڈالنے کے علاوہ عوام کی کوئی سیاسی  اہمیت نہیں ہے۔ جہاں 80 فی صد آبادی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہوں اور پڑھی لکھی مڈل کلاس بھی بمشکل اپنے ضروریات پوری کر رہی ہو وہاں الیکشن محض اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائی کا نام رہ جاتا ہے۔سرمایہ داریت کو انسانیت کی معراج سمجھنے والا  ہمارا کوئی دانشور اس دھاندلی کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔    موجودہ صورتحال میں ہر پانچ سال بعد ہونے والے نام نہاد الیکشن اور اُس کی بنیاد پر پیدا کردہ جذباتی فضا ء کی حقیقت اِس کے سوا  اور کچھ نہیں ہے کہ  سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نئے  ٹولے کو اقتدار منتقل کیا جائے تاکہ وہ عالمی سامراجی آقاؤں کے ایجنڈے کوآگے بڑھا سکیں اور بدلے میں اپنی ذاتی اور گروہی  ترقی کے لئے  عوام کے معاشی وسماجی استحصال کو قانونی تحفظ دے سکیں۔

ضرورت اِس اَمر  کی ہے کہ پاکستانی نوجوان ملک میں رائج  سرمایہ داری نظام اور اس کے استحصالی کردار  کا شعوری ادراک حاصل کریں اور ایک ایسے سیاسی نظام کا تخیّل پیدا کریں جو سرمائے اور جاگیر کے جبر سے آزاد ہو ، جہاں ذمہ داریاں اور عہدے قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر افراد کے سپرد کئے جائیں او رپھر عہدیداران کو قانون کا پابند بنانے کے لئے ریاستی ادارو ں کی  نگرانی کا عمل بھی موجود ہو۔دورِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ مایوسی اور تخیّل کی موت کا ہی ہے جس کے نتیجے میں نوجوان بے عملی اور  کمتر برائی پر سمجھوتے کی نفسیات کا شکار ہیں۔ ہزاروں سال پر مبنی انسانی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ انسان جِس چیز کا تخیّل قائم کرلے، ایک نہ ایک دن وہ  اُسے حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ہوہی جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).