تحریک انصاف پھر انتخاب ہارتی دکھائی دیتی ہے


دی اکنامسٹ کے حالیہ سروے نے ایک بار پھر یہ پیش گوئی کر دی ہے کہ ملک میں آئندہ انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز فتح حاصل کر کے دوبارہ پنجاب اور مرکز میں حکومتیں تشکیل دے دے گی۔ گیلپ پاکستان کا حالیہ سروے بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی نااہلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔ خواجہ آصف کی اہلیت اور انہیں انتخابات لڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ مسلم لیگ نواز کے لئے انتہائی خوش کن امر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ نمواز کے ووٹر کا اعتماد بھی بحال ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سیالکوٹ ڈویژن کی سیاست پر بھی اس عدالتی فیصلے کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے جہاں خواجہ آصف اپنی قومی اسمبلی کی نشست پر پہلے سے بھی زیادہ بھاری مارجن کے ساتھ جیتنے کے علاوہ دیگر حلقوں میں بھی مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کی جیت کے لئے ایکس فیکٹر ثابت ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ایک کے بعد ایک ناپختہ سیاسی فیصلہ کر کے اور پھر اپنے ہی فیصلوں سے ہمیشہ کی طرح مکر کر پھر سے یو ٹرن کی چیپمئن جماعت بنی ہوئی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ پارٹی قیادت فیصلے کرتے وقت زمینی حقائق سے بالکل بے خبر ہوتی ہے اور سوشل میڈیا کے عوامی ردعمل کو دیکھ کر فیصلے کئے بھی جاتے ہیں اور واپس بھی لئے جاتے ہیں. حال ہی میں فاروق بندیال جیسے شخص کو پارٹی میں شامل کرنا اور پھر فورا اسے نکال دینا، پھر پنجاب میں ناصر کھوسہ کا نام نگران وزیر اعلی کے لئے دینا اور پھر اس نام پر خود ہی اعتراض کر کے واپس لے لینا، اوریا مقبول جان کا نام نگران وزیراعلی پنجاب کے لئے پارلیمانی کمیٹی میں پیش کرنا اور پھر اس سے بھی مکر جانا، یہ تمام فیصلے اس بات کی دلیل ہیں کہ تحریک انصاف آج بھی سیاسی بلوغت سے بہت دور کھڑی محض ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کی ایک جماعت ہے جو پس پشت قوتوں کی تمام تر پشت پناہی کے باوجود سیاست کے میدان کے اسرار و رموز سے بالکل نابلد اور انجان ہے۔عمران خان جیسے غیر سنجیدہ اور غیر متوازن مزاج کے مالک مرکزی رہنما کی موجودگی میں تحریک انصاف کا نواز شریف جیسے زیرک اور رموز سیاست کو سمجھنے والے سیاست دان کی جماعت سے انتخابی میدان میں جیتنے کے فی الحال دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی کوشش یہ ہے کہ عدلیہ اور پس پشت قوتیں مسلم لیگ نواز کے ہاتھ پیر باندھ کر انتخابات کی جیت عمران خان کو تھالی میں سجا کر پیش کر دیں جو کہ ایک خواب سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں ہے۔ جس قدرممکن مدد عدلیہ اورپس پشت قووتوں سے عمران خان اور تحریک انصاف کو مل سکتی تھی وہ پہلے ہی مل چکی ہے اور اس سے زیادہ مدد ملنے کی توقع کرنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

اوریا مقبول جان جیسے شدت پسند اور ایاز امیر جیسے مسلم لیگ نون مخالف تجزیہ کار کو نگران وزیراعلی نامزد کر کے تحریک انصاف نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ یہ جماعت اعصابی طور پر مسلم نواز سے خوف کا شکار ہے اور ہر قیمت پر مسلم لیگ نواز کے بدترین مخالف کو پنجاب میں نگران وزیر اعلی دیکھنا چاہتی ہے۔ یعنی عمران خان اور ان کی جماعت کے خیال میں مسلم لیگ نواز کا بدترین مخالف اگر نگران وزیر اعلی پنجاب بنا دیا جائے تو وہ جادو کی چھڑی استعمال کر کے پنجاب کا انتخابی میدان تحریک انصاف کے نام کروا دے گا۔ جبکہ پنجاب کو مسلم لیگ نواز کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور مسلم لیگ نواز کے پاس اس صوبے میں اپنی کارکردگی کی بنا پر ووٹ مانگنے کے لئے ان گنت منصوبوں اور کاموں کی طویل فہرست موجود ہے دوسری جانب عمران خان اور ان کی جماعت کے پاس نہ تو خیبر پختونخواہ میں کسی خاص کارکردگی کی فرد عمل ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ پنجاب کے ووٹر سے ووٹ حاصل کر سکیں اور نہ ہی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے باہر نکل کر تحریک انصاف پنجاب کے ووٹرز کو اپنے حق میں قائل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آپ تحریک انصاف کی بچگانہ سیاست کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کو پس پشت قوتوں نے ان کی جھولی میں ڈال دیا تھا جس کے بعد عمران خان کو وسطی اور شمالی پنجاب میں ایک جاندار انتخابی مہم ،جلسے جلوسوں اور ایک ایسے بیانیے کی ضرورت تھی جو نواز شریف کو فوکس کرنے کے بجائے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اجاگر کرتا اور ان علاقوں سے ووٹر اور الیٹیبکز کو ان کی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوتا۔

لیکن محترم عمران خان نے اس کے برعکس محض نواز شریف کو فوکس کرتے ہوئے اپنا زیادہ وقت ٹیلیویژن پروگراموں اور پریس ٹاک میں ضائع کر دیا۔ جس قدر زیادہ اور معمول سے عمران خان نے نواز شریف پر تنقید کی اور انہیں اپنی بات چیت کا محور بنایا اتنی ہی تیزی سے نواز شریف اور ان کی جماعت کی ہمدردی کی لہر میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کے لئے یہ سود مند ہے کہ ان کی نااہلی کے متنازعہ فیصلے کو بنیاد بنا کر ان پر تنقید جاری رکھی جائے کیونکہ یہ تنقید مسلم لیگ نواز پنجاب کے ووٹر میں عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں اور پس پشت قوتوں کی عمران خان کی سرپرستی کے شکوک و شبہات کو یقین میں تبدیل کرتی ہے اور اس کے باعث مسلم لیگ نواز کارکردگی کے ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ مظلومیت اور ہمدردی کا ووٹ بنک بھی سمیٹتی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر تحریک انصاف کے وہ بدتمیز اور سیاسی حقائق سے نابلد ہمدرد اور سپورٹرز پوری کر دیتے ہیں جو عملی میدان میں انتخابی حلقوں میں ووٹرز کو اپنی جماعت کے حق میں راغب کرنے کے بجائے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے ہوئے محض مخالفین کی تضحیک اور کردار کشی میں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ انتخابی سیاست ڈرائنگ روموں یا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی سکرینوں پر بیٹھ کر نہ تو کی جاتی ہے اور نہ ہی جیتی جا سکتی ہے۔

اس وقت مسلم لیگ نواز پنجاب کی حد تک تمام حلقوں پر اپنا ہوم ورک ململ کر چکی ہے۔ حمزہ شہباز، چوہدری تنویر، نثار گجر اور ان کی پوری ٹیم انتخابی جوڑ توڑ بھی مکمل کر چکے ہیں۔ جبکہ مریم نواز اور نواز شریف کی دھواں دھار تقاریر اور بیانیہ اس نوجوان ووٹ بنک کو بھی اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے جو مسلم لیگ نواز سے کسی دور میں دوری پر تھا۔ ایسے حالات میں صرف بانوے کے ورلڈ کپ کی فتح کا ذکر اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا کریڈٹ عمران خان اور ان کی جماعت کو انتخابات میں فتح دلوانے کے لئے ناکافی ہیں۔ جس قدر مدد پس پشت قوتوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کی کی ہے اس کی مثال حالیہ تاریخ میں ملنا ناممکن ہے۔ نظام عدل سے لیکر میڈیا تک کو ہر طرح سے تحریک انصاف کی مدد کے لئے استعمال کیا گیا۔ بڑے بڑے سیاسی برج اس جماعت میں شامل کروائے گئے، نواز شریف کو بھی مائی نس کر دیا گیا لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ اگر دی اکانومسٹ، گیلپ اور بیرونی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں نواز شریف کی جماعت کو اگلے انتخابات میں ابھی بھی فاتح قرار دے رہی ہیں تو پس پشت قوتوں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ شاید اس مرتبہ پس پشت قوتوں نے لنگڑے گھوڑے پر وسائل اور وقت کا زیاں کر دیا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا مسلم لیگ نواز سے انتخابی میدان میں دور دور تک کوئی جوڑ نہیں۔ مسلم لیگ نواز کو پنجاب کے انتخابی میدان میں ناقابل شکست بنانے کا کریڈٹ جہاں پس پشت قوتوں کو جاتا ہے وہیں اس کا سہرا عمران خان کے سر بھی ہے کہ اپنی احمقانہ سیاسی تدبیروں اور بدزبانی سے انہوں نے پنجاب کے ووٹر کو مسلم لیگ نون کی جانب راغب کروانے میں کوئی کمی اور کوتاہی نہیں چھوڑی۔ قرائن بتاتے ہیں کہ پس پشت قوتوں کی تمام تر مدد اور تمام الیکٹیبلز کو ملا کر بھی تحریک انصاف پاکستان بھر سے چالیس سے پینتالیس سیٹیں حاصل کرے گی جبکہ مسلم لیگ نواز بآسانی سادہ اکثریت حاصل کر کے مرکز اور پنجاب میں پھر سے حکومت بنا لے گی۔ یوں تحریک انصاف اگلے عام انتخابات کے بعد پھر سے دھاندلی کا راگ الاپتی نظر آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).