واپسی کا راستہ بند ہے


بہاریں دروازے پیٹتی رہ گئیں لیکن آپی نے ایک پل بھی کان نہ دھرا۔ کان دھرتی بھی کیسے اُس کے سامنے بیمار بہن کے ڈھیروں کام شیر خوار بچوں کی طرح چّلا رہے ہوتے اور جنہیں آپی اپنی باہوں کا جھولا جھلا جھلا اُن کی جوانی کے بے ثمر خواب دیکھتی رہی لیکن یہ شیر خوار تھے کہ کبھی اپنے پاﺅں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام ایک دن بھی کم نہ زیادہ ہوئے۔۔ آپی کو اُسے نہلانا پڑتا، اپنے ہاتھوں سے کھلانا پلانا ہوتا، اُس کے سرہانے کے سامنے نصب لکڑی کا مخصوص مطالعہ کا سٹینڈ (چوکھٹا) کھولنا اور بند کرنا ہوتا۔ سٹینڈ پر کھلی کتاب یا رسالہ کا صفحہ پلٹتا ہوتا، اُس کے جسم کی خارش سہلانی ہوتی، اُس کے کہنے پر ٹی وی آن، آف کرنا ہوتا، اُس کے چہرے پر مکھی یا مچھر بیٹھ جانے پر اُڑانا ہوتا۔

آپی کے دھیان کا دریچہ ہر گھڑی اُسی سمت کھلا رہتا کہ ایک اُسی کی آواز تھی جس کا آنا جانا آپی کی زندگی کے خالی کمرے میں رہتا تھا۔

گورستان کی رکھوالن کی طرح آپی اُس کی قبر پر مٹی ڈال ڈال پانی کا چھڑکاﺅ کرتی رہی۔ کبھی گھاس کاٹتی، کبھی بیچ بوتی، اُگے ہوئے پھولوں کو ترتیب دیتی، شام پڑے چراغ روشن کرتی، اگر بتی سلگاتی اور کتبے پر بیٹھ جانے والے چڑیوں کووّں کو اُڑاتی رہتی۔

وہ اپنی چلتی پھر تی آپی میں اپنی زندگی کر رہی تھی، اِک ایسی زندگی جو اس سے بہت دور تھی اور قریب بھی۔

کبھی کبھی آپی اُس کی خوشی کے لیئے، اُس کا بناﺅ سنگھار بھی کرتی۔ اُس کی بھنویں باریک کرتی، کانوں میں ٹاپس لگاتی اور اب تو اس کے چہرے کے بال بھی بلیچ کرنا پڑتے، لیکن جب آئینہ اُس کے سامنے رکھتی تو وہ فوراً آنکھیں موند لیتی۔ آپی ہمیشہ کی طرح بھول جاتی کہ بیماری کے باعث جب سے اُس کے سر سے بال جھڑے ہیں اُسے اپنے منڈے ہوئے سر کے ساتھ آئینہ دیکھنا کسی صورت نہیں بھاتا۔

آپی اُس کے پہلو میں لیٹی اُس کی گڑیا کے بھی سبھی چاﺅ پورے کرتی۔ روز اس کا لباس تبدیل کرتی، اس کا سنگھار تازہ کرتی۔ کبھی کبھی تو اُس نے، آپی نے اور گڑیا نے ایک ہی رنگ کا لباس پہنا ہوتا جس پر ایک ہی رنگ کے پھول بھی ہوتے۔ اُس روز وہ جیل کی ایک ہی بیرک کے مجرموں کی طرح ایک دوسرے سے نظریں چرا رہی ہوتیں کہ کہیں کوئی اُن میں چھپی سچائیاں پڑھ نہ لے۔۔ پھر ایک روز اُس کی ضد پر آپی نے گڑیا کے سر کے بال بھی صاف کر دیئے۔ اکثر آپی دونوں کو سجا کر انہیں ایک دوسرے کو دِکھا دیتی۔

اسی طرح کئی برس اور وہ بستر پر پڑی چھت پر نظریں جمائے خواہشوں کی سکاش کھیلتی رہی۔ منا اب منا نہیں رہا تھا تعلیم مکمل کر کے ملازم ہو چکا تھا، بابا ریٹائر ہو گئے تھے۔

اب اس کی کوئی نہ کوئی سہیلی بھی وزنی پیٹ اور بھری ہوئی گود کے ساتھ وہاں آ نکلتی تھی، پتہ نہیں کیوں اُس کا سر بھاری ہونے لگتا، اُسے لگتا جیسے آپی بھرے پیٹ سے اُس کے سر پر بیٹھ گئی ہے۔ وہ فوراً سر جھٹک دینا چاہتی لیکن وہ ایسا بھی تو نہیں کر سکتی تھی۔ ٹھہرے ہوئے تالاب میں کسی کا کنکر پھینکنا اُسے بالکل نہ بھاتا، آہستہ آہستہ اُس کی سہیلیوں نے اُس سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔

جس روز بھائی کو ملازمت کی غرض سے دوسرے شہر جانا تھا اُس نے ایک مرتبہ پھر خود کو قافلے سے کٹتاہوا محسوس کیا۔ جیسے کسی سست رفتار بحری بیٹے کے عرشے سے ساحل کی دور ہوتی آبادیوں کا منظر۔ اُسی وقت اُس کی ضد پر آپی نے سکول کی کتابوں سے گرد ہٹا کر اُس کے سٹڈی سٹینڈ پر رکھا دیا، جن میں میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کی اُونچی اُونچی عمارتیں مسمار ہوئی پڑی تھیں۔ کسی کتاب کے درمیانی صفحہ کا کونہ مڑا تھا تو کسی کے نصف میں پنسل پڑی تھی۔ صحرا کے آدھے تک ہی قافلے کے پیروں کے نشان تھے۔ پھر اس کے بعد قافلے کا کچھ پتہ نہ تھا۔ شاید اسی لیئے کئی روز تک اُس نے آپی سے کتابیں کھولنے کا تقاضا نہ کیا اور اسی طرح اُنہیں واپس رکھوا دیا۔ جب آپی اُس کی کتابیں واپس لے جا رہی تھی تو اُسے اپنا آپ اُس بے بس خلا باز کی طرح محسوس ہوا جو خلائی جہاز سے بچھڑ کر خلا میں قلا بازیاں کھاتا رہ گیا ہو۔

بابا نہ چاہتے ہوئے بھی عمر کے پہاڑ سے لڑھک رہے تھے۔ شاید اسی لئے اُن سے آپی کے بالوں میں پھوٹتی چاندی کی لکیر دیکھی نہ گئی۔ اس عمر میں آپی کو پسند کا گھر ملنا اتنا آسان نہ تھا لہٰذا مجبوراً ایک جگہ آپی کا نکاح کر دیا گیا۔ دوسری طرف بابا نے بیمار بیٹی کے علاج کے لیئے اپنی تحقیق تیز کر دی، وقت جس پر اہرام مصر تعمیر کیئے جا رہا تھا اور جو ممی کی طرح بے حس و حرکت پڑی تھی۔ ان اہراموں پر بابا کی کوششوں کے کدال بے سود ضربیں لگاتے رہے لیکن پتھر تھے کہ کٹتے ہی نہ تھے۔

دنیا کا شاید ہی کوئی بڑا ہسپتال ہو جہاں بابا نے اُس کی بیماری کے کاغذات نہ بھیجے تھے۔ جیسے جیسے آپی کے سسرال والے رخصتی کا تقاضا کرنے لگے، اُسے آپی بھی اس چڑیا کی مانند دکھائی دینے لگی جس کے نئے نئے پر اُگتے ہیں۔ اُنہی دنوں ٹی وی میں وہ پروگرام بھی شروع ہو گیا جس میں ایک ٹائم ٹنل کے ذریعے لوگ سینکڑوں سال پرانی دنیا میں چلے جاتے تھے۔ اب وہ سارا ہفتہ اُس پروگرام کے انتظار میں گزار دیتی۔

تازہ اخبار میں بھی اُس کے لیئے وحشتیں لکھی ہوتیں۔۔ ریڈیو سننا بھی اُس نے بند کر دیا۔ وقت کی لگام میں جتی ہوئی ہر شے اُسے اپنے بے جان جسم پر سر پٹ دوڑتی محسوس ہوتی۔ لمحوں کی ایک ایک ٹاپ اُسے روندتی ہوئی جانے کہاں گم ہوئی جا رہی تھی۔ اُس کا جی چاہتا کہ تیز رفتار سر پھری اندھی ٹرین کی زنجیر کھینچ دے اور اس ایمرجنسی بریک سے اتنا بڑا حادثہ ہو کہ سب کے سب اُس کی گڑیا اور آپی بن جائیں۔

آخر اِک روز آسمان پر اُمیدوں کے ٹھنڈے بادل کہیں سے تیرتے ہوئے گھِر آئے جو انتظار کی دھوپ کو غٹاغٹ پی گئے۔ بابا کے چہرے پر یوں تبدیلی نمودار ہوئی جیسے کسی بے ثمر بوڑھے اور بانجھ پیڑ پر بے موسمی بور آ جائے۔ بہت دور کسی ہسپتال سے اُڑتے ہوئے خوشخبریوں کے پرندے اُن کے گھر تک آ پہنچے۔

اب بابا آسانی سے کھائی میں لڑھک سکتے تھے اور آپی بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ سکتی تھی۔۔ مگر وہ۔۔۔ وہ کدھر جائے گی۔؟۔

آپی تو پانیوں کے آدھے میں تھی، کنارے تک پہنچنے کا تصور کر سکتی تھی۔

  لیکن وہ ۔۔۔ بے نشان قبر میں سے نکلی لاش کی طرح دوبارہ دنیا میں آ کر کیا کرے گی؟ اور جب اتنے سالوں بعد سٹیچر پر لٹا کر اُسے گھر سے نکالا گیا تو آسمان نے کسی بچھڑے ہوئے دوست کی طرح جھک کر اس کا ماتھا چوم لیا، پتہ نہیں آسمان کی آنکھ سے آنسو ٹپکا تھا کہ بادل اس کی آنکھوں میں بھر آئے تھے، ہر چیز دھندلا سی گئی تھی۔ اس وقت وہ کسی چوراہے پر ٹریفک کا اشارہ کھلنے کے انتظار میں رُکے تھے۔ اُس کا جی چاہا کہ اشارہ کبھی نہ کھلے۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے اشارہ کھل چکا تھا۔ دھند گہری ہوتی گئی۔ آخری بار اُسے ایسے لگا جیسے آنکھوں کے دیئے، ریت کے ٹیلوں میں دَب گئے ہوں۔

آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور دیئے بجھ چکے تھے۔!۔

شاید اب وہ اُس زندگی سے کبھی بھی ملنا نہیں چاہتی تھی جو اُس سے بہت پہلے بچھڑ چکی تھی۔

(Illustrations: Inam Raja)

***    ***   ***


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2