واپسی کا راستہ بند ہے


یہ وہ دن تھے جب بچپن کی نرم اور کچی برف رفتہ رفتہ پگھل رہی ہوتی ہے، وقت کی کرنیں نیچے کی زمین کے سبھی نشیب و فراز اُبھار رہی ہوتی ہیں۔ موسموں میں ایک نیا پن سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ زندگی اُس موڑ پر ہوتی ہے جہاں سے دور کھڑی منزلیں بھی سرنگوں دکھائی دیتی ہیں، درمیان کے سبھی راستے ایک ہی جست میں سر کرنے کا کھیل لگتے ہیں۔

اُس نے ڈاکٹر بننے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ وہ اپنے سکول میں بیالوجی کی بہترین طالبہ تھی۔ اس مرتبہ کے امتحانات مستقبل کے اہم ترین فیصلے کا پیش خیمہ تھے۔ شاید اسی لئے وہ ہر دوسرے، تیسرے روز ہونے والے نجار کا کسی کو پتہ نہ چلنے دے رہی تھی۔ خاص طور پر بابا اور آپی کو۔۔ منا تو ابھی چھوٹا تھا۔۔ بابا اور آپی سے اس ایک سچ کو چھپانے کے لیئے اُسے کتنی بے احتیاطی کرنا پڑتی تھی۔۔ بہت پہلے اس کے گلے میں ایک چھوٹا سا آپریشن ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ آئے دن ہونے والا بخار اُسی آپریشن کے بعد کے اثرات میں سے ہے۔ جب بخار کا حملہ ہوتا تھا تو اُس کے جوڑوں میں درد کی ٹیسیں اُٹھنے لگتی تھیں۔۔ ایسے لگتا تھا جیسے کوئی ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ ایسے میں اُس کے پاﺅں کے ٹخنے بھی سوج کر سرخ ہو جاتے تھے۔

پچھلے کچھ دنوں سے بخار کے وقت بے وقت پے در پے حملے اُس کے بدن میں کسی بیماری کا یوں راستہ بنا رہے تھے جیسے گئی رات سانپ رینگتا ہوا گھر میں آ گھسے اور مکین بے خبر سوئے رہیں۔۔ شاید اسی لئے جیسے جیسے امتحان کی تاریخ قریب آ رہی تھی اس کی اُمیدیں اُس کا ساتھ چھوڑے جا رہی تھیں۔ ایک مرتبہ پکنک کے دوران اُس کی ہم جماعت لڑکیوں نے اُسے چھوڑ کر موٹر بوٹ میں فرار ہونے کا مذاق کیا تھا اور وہ شام تک جزیرے میں اکیلی گھومتی رہ گئی تھی۔ پتہ نہیں کیوں وہ مذاق اب اُسے سچ ہونا دکھائی دے رہا تھا۔

اب کئی روز سے خوابوں اور اُمنگوں کے سمندر میں اُس کے ہمراہ نہاتی ہوئی ہمجولیاں اُسے پانی کی تندوتیز موجوں میں چھوڑ کر ساحل کی طرف بھاگتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ رنگ رنگ کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہوا ہمقدم جلوس اُسے خود سے الگ ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور وہ راستہ بدلنے والے ایک مسافر کی طرح بوجھل قدموں سے چلتی نجانے کن اَن دیکھے راستوں پر ہو چلی تھی۔۔ کالج سے گھر آتے ہی وہ کسی سے کچھ کہے بنا سیدھا اپنے کمرے میں جاتی اور آتش دان پر رکھی گڑیا کو پہروں دیکھتی رہتی۔

شام کو ہوا کا زور بڑھتا جا تا۔۔ اور منہ زور جھونکے بے دھڑک کھڑکی کے کواڑ کھول کر میز پر رکھی کتابوں کے ورق اُلٹ پلٹ کرنے لگتے۔ ہوا کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی معصوم گڑیا بازو پھیلائے اُسے مدد کے لیئے پکارنے لگتی اور اگلے ہی لمحے وہ گڑیا کو اپنے سینے کی نرم پناہوں میں چھپا لیتی۔۔ ایسے میں اس کی نظر دیوار پر آویزاں کیلنڈر پر پڑتی۔۔ پہلے پرچے کی تاریخ دیکھتی تو اُسے لگتا جیسے سامنے ایک بڑی سکرین پر اپنی طرف بڑھتے ہوئے تیز رفتار ٹرین کے انجن کو دیکھ رہی ہے جو اگلے ہی لمحے بہت بڑے حادثہ کا شکار ہونے والا ہے۔ روز بروز گڑیا سے اُس کی ایک بے نام سی وابستگی بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا جیسے وہ گڑیا کو سینے سے لگائے کسی انجانے سے خوف میں زینے پر پاﺅں رکھے کھڑی ہے اور جیسے ہی وہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے زینے پر پاﺅں رکھے گی، سیڑھی ٹوٹ جائے گی۔

کچھ دنوں سے وہ حیاتیات کے پریکٹیکل کی کاپی پر انسانی جسم کے سرکا خاکہ بنا سکتی، دھڑ کا خاکہ کھینچے ہوئے حاشیہ اُس کی گرفت میں نہ رہتا۔ شاید اسی لیئے آج کل کالج سے گھر جاتے ہوئے راستوں میں میڈیکل کالج اور ہسپتالوں کی عمارتیں اُسے اجنبیت کے نقاب اوڑھے بے رخی کے بادلوں میں دھندلاتی محسوس ہو رہی تھیں۔ کبھی یہی عمارتیں اُسے اپنی طرف بلایا کرتی تھیں لیکن اب اُسے لگتا جیسے وہ کبھی بھی ان کے مرکزی دروازوں میں سے سفید رنگ کے کوٹ پہنے داخل نہ ہو سکے گی۔

اُسے ماں کی کمی کا احساس بھی کچھ زیادہ ہی ہونے لگا تھا۔ اگرچہ بابا نے اُن سب کو ماں کی طرح پالا تھا اور اب تو آپی نے ماں کی جگہ لے لی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ آپی جوان ہے لیکن وہ اسے کبھی بھی جوان دکھائی نہ دی تھی۔ اُس نے گھر کو اور بابا کو یوں سنبھال رکھا تھا جیسے بڑی بوڑھیاں سنبھالتی ہیں۔ چھوٹے بھائی منے کی دیکھ بھال میں تو وہ بھی آپی سے مٹھی بھر ممتا پھانک لیتی تھی۔

بچپنے کے دھندلکے میں اُسے اب بھی کبھی ماں کی موت کا حادثہ واضح طور پر لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ سب سے واضح بابا کے چہرے پر۔۔ اُسی دن سے وہ آپی اور منا اپنے اپنے پہلو میں دل نہیں بابا کا وہی چہرا دھڑ کائے پھر رہے تھے۔ اگرچہ بابا کے چہرے پر اب وہ نقش مدھم ہو چکے تھے یا شاید اُن تحریروں پر نئی تحریریں جگہ لے چکی تھیں۔

اس مرتبہ کا بخار اُسے اپنے گرم بازوﺅں میں بھینچے گویا ہمیشہ کے لیئے سوچکا تھا، جسم کے ایک اِک جوڑ پر جیسے پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور پاﺅں کے ٹخنے کوئلوں کی طرح سلگ رہے تھے۔ امتحان شروع ہونے میں صرف دو دن تھے، لیکن بخار نے اُسے اس قدر نڈھال کر دیا کہ مجبوراً اُسے بابا اور آپی کو بتانا پڑا۔

وہ ایک مرتبہ پھر ہسپتال کے بستر پر آ گئی۔۔ اب اُس پر کھلا کہ پچھلے کئی روز سے وہ اداسیوں کی جس دھند میں راستے ٹٹول رہی تھی، ہسپتال کے اسی سفید اور نرم بستر کی اُداسی تھی جو اُسے بچھڑی ہوئی ماں کی طرح گود میں لیئے ہوئے تھا۔ اگرچہ منا، آپی اور بابا ہی ماں بنے اُس کے گرد کھڑے تھے۔

ایک رات بیماری نے ایسا شب خون مارا جیسے زور دار دھماکہ ہو جانے کے بعد عمارت آ گرتی ہے اور ملبے میں کوئی صرف اپنا سر ہی نکال سکتا ہے۔ اُس کی نس نس کو بے حسی کی دیمک کھوکھلا کرتی ہوئی سرنگ در سرنگ اپنا رستہ بنائے جا رہی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے کسی نے اُس پر پتھر کی بھاری سلیں رکھ دی ہیں اور اب وہ بستر پر پڑے پڑے اپنا سر بھی اِدھر اُدھر نہیں کر سکتی۔ اب آ کر اُس پہ کھلا حیاتیات کی کاپی میں وہ انسانی جسم کا سکیچ بناتے وقت سر سے نیچے کا دھڑکیونکہ ٹھیک طور سے کبھی بھی نہ بنا پائی تھی۔

کچھ مہینے ہسپتال میں کوششِ ناتمام کے بعد اُسے گھر لایا گیا۔ آپی اُس کی دیکھنے، سننے، سوچنے اور بولنے والی، سانس لیتی لاش کے سرہانے بیٹھ گئی۔ اور پھر اسی طرح دیوار پر چسپاں کیلنڈر پر کیلنڈر بدلتے چلے گئے۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2