کچھ ذکر قلم مزدوروں کا۔۔۔ نیز یہ کہ بادشاہ ننگا ہے


شجاع صاحب، یقین جانئے اس سے زیادہ برا وقت نہیں آ سکتا، آج کے بعد ہمارے دن بدل جائیں گے۔۔۔۔ میرے بہت ہی پیارے دوست اور ساتھی نے یہ بات کہی تو میں نے مینہ برساتے آسمان کی طرف دیکھتے ہوِئے پھیکی سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھال دی۔۔۔۔ واقعہ لگ بھگ 25 سال پرانا ہے۔ ہم دونوں ایک ہفت روزہ جریدے کے ملازم تھے۔۔۔ میرے پاس دو ٹانگوں کے سوا دوسری کوئی سواری نہیں تھی۔ دوست کی موٹرسائیکل کے دونوں پہیئے توانا تھے جو ہم دونوں کا بوجھ سہارتے۔ البتہ انجن سمیت باقی کے کل پرزوں کی حالت پتلی تھی۔ میں بیٹھنے سے پہلے دھکا لگاتا اور پھر چلتی سائیکل موٹر پر سواری کے لئے چھلانگ مارتا۔۔۔ سائیکل موٹر اس لئے کہا کہ وہ موٹر کم اور سائیکل کے خواص کی حامل زیادہ تھی۔۔۔ اس کے باوجود دوست مہربان رہا اور بڑی خندہ پیشانی سے میرے گھر سے دفتر اور پھر واپس گھر لانے لے جانے کے لئے دوستی کی لاج نبھاتا رہا۔۔۔ ایک شام مال روڈ دفتر سے گھر کی جانب چلے تو موسم خاصا ابر آلود تھا اچھرہ پہنچے تو بارش تیز ہو گئی۔ اجمیری ہوٹل کے چھجے کے نیچے کھڑے میں نے سگریٹ پینے کا سوچا اور اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔۔ پینٹ شرٹ کی پانچ جیبوں میں سے صرف ایک چونی ہاتھ لگی۔ اس وقت گولڈ لیف کا سگریٹ 50 پیسے یعنی اٹھنی کا ایک تھا۔۔۔ میری ہتھیلی پر بے وقعت سکہ دیکھ کر ساتھی نے اپنی جیبیں ٹٹولنا شروع کیں تو 10/10 پیسے کے دو اور 5 پیسے کا ایک سکہ ہاتھ آیا۔۔۔ 50 پیسے پورے ہو گئے۔۔ میں نے فاتحانہ انداز میں آٹھ آنے دکاندار کی طرف بڑھائے اور ایک سگریٹ خرید لیا۔۔۔ سگریٹ کا پہلا اور آخری کش ہی مزے کا ہوتا ہے۔۔ باقی تو

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

سگریٹ پینے کے آداب یہ ہیں کہ سلگانے والا دو کش لے کر باری آگے بڑھا دیتا ہے۔۔ اس نے اپنی باری کا پہلا کش لیتے ہی اچھا وقت آنے کی نوید سنا ڈالی۔ اپنی بات کی دلیل میں بزرگوں کی روایت بھی سنائی کہ مفلسی اپنی آخری حد کو چھونے لگے تو سمجھو قسمت جلد یاوری کرے گی۔ اسے قسمت کالکھا سمجھئے یا پھر دعائے دل غریب کہ سائیکل موٹر، موٹر سائیکل میں بدل گئی اور موٹر سائیکل، موٹر کار میں۔۔۔۔

آج کے نوجوان صحافیوں کے لئے یہ واقعہ شاید الف لیلی کی قصہ گوئی کا شاہکار ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ 80 اور 90 کی دہائی کے ہر صحافی کے شب و روز کم و بیش دھکا مانگنے والی موٹرسائیکل اور ایک سگریٹ کی باری کے انتظار میں ہی گزرے ہیں۔۔۔۔

بھلے نسیان ایک نعمت ہے لیکن کئی بار لاشعور میں چھپی کوئی تلخ یاد یکدم دماغ کی پردہ سکرین پر آ دھمکتی ہے۔۔۔ لاکھ نظریں گھماو ، دھیان کسی اور لگاو۔۔۔ یہ جا کے نہیں دیتی۔۔۔ ہار مان جاو ، آنکھیں موند لو تو پھر بچپن سے پچپن کی فلم چلتی ہے۔۔۔ عالمی یوم صحافت آیا، خیریت سے گزر گیا۔۔۔خیریت سے گزرتا بھی کیوں نہ کہ یہ دن کارکن صحافیوں کے بجائے سرمایہ دار کے لئے جمع تفریق لیکر آتا ہے جہاں جمع ہی جمع ہے، تفریق نہیں۔ اس لئے خاموشی اختیار کی کہ افسر کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی دونوں ہی خطرے کی علامت ہیں۔ مگر دو چار دن بعد ہی ظالم 13 مئی آگیا۔۔۔۔ صحافیوں پر کوڑے برسانے کا دن۔۔۔۔ ننگی پیٹھ پر برسنے والے کوڑے جسم کو نہیں روح کو گھائل کرتے ہیں۔۔۔ مارشلائی کوڑا قلم کی حرمت نہیں مانتا۔۔۔ اٹین شن اور اباوٹ ٹرن کی زبان جانتا ہے۔۔۔۔

جنرل ضیا کے مارشل لا نے ایک طرف زندہ معاشرے کو مردہ کیا تو دوسری طرف سچ لکھنے سے باز نہ آنے والے قلم کاروں کے لئے ٹکٹکی کو رواج دیا۔۔۔ یہ ٹکٹکی آج بھی کسی نہ کسی صورت موجود ضرور ہے لیکن ویسی دل فگار ہر گز نہیں۔۔۔۔ جنرل ضیا کے سیاہ دور میں غلط کو غلط کہنے والوں کی تعداد اگرچہ سینکڑوں میں تھی لیکن انگریزی راج میں آزادی کا نعرہ بلند کرنے کا حوصلہ رکھنے والے شہید بھگت سنگھ کے بعد پنجاب کی دھرتی نے چار ایسے سپوت پیدا کئے جنہوں نے جنرل ضیا کی آمریت کو للکارا ، آزادی اظہار کا حق مانگا اور کوڑے کھانے کی سزا مول لی۔۔۔ ہر فرعون را موسی۔۔۔۔ مسعوداللہ خان , اقبال جعفری ، ناصر زیدی اور خاور نعیم ہاشمی۔۔۔ گرفتار ہوئے، حوالات کاٹی، فوجی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے، زباں بندی پر رہائی کی پیشکش ٹھکرائی تو ننگی پیٹھ پر کوڑوں کے حقدار ٹھہرے۔ خاور نعیم ہاشمی صاحب سے مل کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی جہد کامیاب ٹھہری اور ضیائی مارشل لا ہار گیا۔۔۔ان کے قلم کی کاٹ نے سنگین کی نوک توڑ دی۔۔ چرخ کہن نے ان کے حرف زندہ رکھے اور مارشل لا کی روسیاہی جنرل ضیا کے ساتھ ہی راکھ بن کر بکھر گئی۔۔۔

قلم کی مزدوری کچھ آسان نہیں۔۔۔ اخبارات اور جرائد میں کام کرنے والے بہت سے احباب آج بھی زندہ ہیں جو زمین پر بچھی چٹائی کی سختی، لکڑی کی کرسیوں میں چھپے کھٹملوں کی چٹکیاں نہیں بھولے اور سخت گرمی کے دنوں میں فقط بنیان اور نیکر پہن کر قلم کی حلال کمائی کو اپنا ذریعہ معاش بنانے پر نازاں ہیں۔ آج صحافت ایک نفع بخش کاروباربننے کے باوجود بہت سے میڈیا ہاوسز کے قلم مزدور صرف لفظوں کی حرمت کے لئے رات دن ایک کرتے ہیں لیکن تنخواہ نصیب نہیں ہوتی۔ ایک ٹفن کھلتا ہے چار ہاتھ نوالہ اٹھاتے ہیں۔۔

آہ۔۔۔۔ یادیں ، تلخ یادیں۔۔۔۔ 20 ایک برس پہلے ، اسی لاہور شہر میں ایک ساتھی قلم مزدور کی والدہ انتقال کر گئیں۔۔۔ شام میں اطلاع آئی۔۔۔ اس کے پاس لاہور سے قصور تک کا کرایہ نہیں تھا۔۔۔ رات اتری اور مفلس بیٹے کے آنسووں میں بھیگتی رہی۔۔۔۔۔۔ تنخواہ تو پچھلے دو مہینوں سے کسی کو نہیں ملی تھی۔۔۔۔ ہر چند کہ وہ خیرات کا مستحق نہیں تھا۔۔۔ پھر بھی۔۔۔۔ ایک ساتھی اٹھا اور سب کے آگے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے۔۔۔۔ 10 ، 20 ، 50 روپے کا چندہ اکٹھا کیا اور پورے 500 روپے، کرب و بلا کے مارے اس قلم مزدور کی جیب میں ڈال دیئے۔ اس نے کرایہ بھرا یا ماں کا کفن خریدا یہ اللہ کی ذات جانتی ہے۔۔۔ آج برسہا برس بعد اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ ماں مرنے پر ، میت اٹھنے سے پہلے تنخواہ مل جاتی ہے۔۔۔۔۔لیکن قلم مزدور کی ایکتا کو سلام۔۔۔ تنخواہ سے پہلے چندہ آج بھی مل جاتا ہے۔۔۔۔ تو کیا تنخواہ سے محروم ہر قلم مزدور کو اپنی ماں کے مرنے کا انتظار کرنا ہو گا؟ ترقی معکوس کی طرف بڑھتی صحافتی دنیا میں اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔۔۔۔۔

اپنے خیالات و نظریات کو قرطاس ابیض کی پہچان بنانے، عام عوام کے اذہان و قلوب پر نت نئے فلسفے کی چھاپ ڈالنے، حرف اول کو حرف آخر میں ڈھالنے کی جادوگری کرنے والے کسی قلم مزدور کے کچن میں کوئی نہیں جھانکتا، بچوں کی فیس ادا کرنے یا عید شب برات پر نئے کپڑوں کی فرمائش پوری نہ کر سکنے کی بیچارگی دیکھی ہے کسی نے۔۔۔۔؟ وزیر، مشیر سے تعلق ، افسروں کی صحبت اور اپنے قلم کی طاقت سے حکومتوں کے تختے الٹ دینے کے زعم میں مبتلا اس مزدور کو توپ چیز نہ سمجھیں۔۔۔۔

ایک بچے نے اناالحق کا نعرہ قلم مزدور کے لئے ہی لگایا تھا۔۔۔۔کہ۔۔۔۔ بادشاہ ننگا ہے۔۔۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).