عدلیہ کا امتحان اب شروع ہوا ہے


قومی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی انتخابات کے التوا کا معاملہ محض قیاس آرائیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یکے بعد دیگرے ایسے عملی اقدامات اور عدالتی فیصلے دیکھنے میں آئے ہیں جن کی بنیاد پر انتخابات کو ملتوی کرنے کا عذر پیش کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور سے بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے بعض حلقہ بندیوں کو مسترد کرنے کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے نامزدگی فارم کو از سر نو آئینی شقات 62 اور 63 کے مطابق ترتیب دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ نگران وزیر اعظم ناصر الملک کے علاوہ الیکشن کمیشن اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ کے حکم کے مطابق الیکشن کمیشن نے اگرچہ نامزدگی فارم کو انتخابی ایکٹ 2017 کے مطابق ترتیب دیا ہے لیکن اس میں آئین کی شقات 62 اور 63 کا خیال نہیں رکھا گیا۔ عدالت کا خیال ہے کہ کوئی بھی قانون آئینی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس طرح لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ کی رائے میں جس حقیقت کو قومی اسمبلی کی اکثریت اور اس قانون پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا سہ رکنی بنچ نوٹس کرنے میں ناکام رہا تھا، اب لاہور ہائی کورٹ کی ایک فاضل جج نے اس کو تلاش کرکے آئین کے تقاضے پورے کرنے کا حکم دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے اس حوالے سے اپیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ یہ اپیل لاہور ہائی کورٹ میں دسمبر 2017 میں دائر ہوئی تھی لیکن اس پر فیصلہ قومی اسمبلی کی تحلیل اور انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ اگرچہ ایاز صادق نے یہ کہنے سے گریز کیا ہے کہ اس قسم کے حکم سے عدالتی نظام کے بعض عناصر کی بد نیتی واضح ہوتی ہے اور بعض خفیہ ہاتھ عدالتوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی باتوں اور سامنے آنے والی حقیقتوں کی روشنی میں اس قسم کے شبہات کو مسترد کرنا آسان نہیں ہو گا۔

اس وقت ملک کے نگران وزیر اعظم سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں، الیکشن کمشنر کے عہدہ پر بھی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج متمکن ہیں اور ملک کے چیف جسٹس متعدد بار آئین کے تقاضوں کو پورا کرنے اور جمہوری نظام کے تسلسل کی یقین دہانیاں کروا چکے ہیں۔ اس کے باوجود لاہور ہائی کورٹ ، بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام ہائی کورٹ کے بعض فیصلے اور بعض سیاسی عناصر کا رویہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے حقیقی خطرہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بلوچستا ن اسمبلی نے گرمی اور حج کا عذر تراش کر انتخابات ملتوی کرنے کی بات کی ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد کی وجہ سے انتخابات میں التوا کو ضروری خیال کرتے ہیں جبکہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے انتخابات میں کسی قسم کی تاخیر کے خلاف مؤقف اختیار کیا ہے۔ نگران وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ وہ انتخابات کو بروقت اور شفاف طریقے سے منعقد کروانے کے متمنی ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے خاص طور سے جو صورت حال رونما ہوئی ہے، اس کی روشنی میں اگر الیکشن کمیشن کو نامزدگی فارم تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو انتخابات کا بروقت انعقاد خطرے میں پڑے گا اور جسٹس (ر) ناصر الملک اپنی خواہش کے باوجود اس حوالے سے کوئی حکم دینے یا اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ایک بار کسی بھی بہانے سے التوا کا فیصلہ کیا گیا تو یہ کہنا مشکل ہو گا کہ یہ التوا کتنا طویل ہو گا۔ ملک میں طویل المدت عبوری حکومت کی باتیں ابھی تک تازہ ہیں اور ہر طرف سے اس بارے میں سوال موجود ہیں لیکن ان سوالوں کا شافی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

2018  کے انتخابات کے حوالے سے اس وقت دکھائی دینے والی صورت حال غیر متوقع نہیں ہے۔ اس بارے میں طویل عرصے سے پیش گوئیاں ، قیاس آرائیں اور اندازے قائم کئے جارہے تھے۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد اپنی نااہلی کے بعد خود پر قائم ہونے والے بد عنوانی کے مقدمات کو سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ اس طرح انہوں نے بالواسطہ ہی سہی ملک کی فوج اور سپریم کورٹ کو اس صورت حال میں ملوث قرار دیا ہے۔ فوج کی طرف سے ان الزامات پر تبصرہ سے گریز کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ بیانات جاری کئے ہیں کہ وہ آئین کی عملداری کو یقینی بنائیں گے اور جوڈیشل مارشل لا کی باتیں درست نہیں ہیں کیوں کہ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے باوجود معمولی سیاسی بیانات پر وزیروں اور پارٹی لیڈروں کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کرنے اور یہ اعلان کرنے کے باوجود کہ کسی کو ملک کی عدالتوں پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اور وقت آنے پر نواز شریف کے خلاف بھی توہین عدالت کا اقدام ہو سکتا ہے، چیف جسٹس عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کو طلب کرنے اور ان سے یہ پوچھنے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ ملکی سیاست میں جی ایج کیو کے کردار اور عدالتی مارشل لا کی باتیں کس بنیاد پر کرتے ہیں۔ کیا ایک آئینی نظام میں ایسی افواہ سازی اداروں اور عدالتوں پر عوام کا اعتماد کمزور کرنے اور اس طرح توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتی۔ خواہ توہین عدالت کا نوٹس جاری نہ کیا جاتا لیکن اس بارے میں عدالت عظمیٰ کا ایک انتباہ صورت حال کو واضح کرنے اور سیاسی افواہ سازی کرنے والے سیاست دانوں کو لگام دینے کے لئے اہم ہو سکتا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کے لئے ایک خصوصی عدالت قائم کی تھی۔ سپریم کورٹ کے ایک حکم کی آڑ میں نواز شریف ہی کی حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پرویز مشرف کو ملک سے جانے کی اجازت دی تھی حالانکہ پورا ملک جانتا تھا کہ ایک بار ملک سے باہر نکلنے کے بعد وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ پرویز مشرف چونکہ انٹرویو دینے اور لائم لائٹ میں رہنے کے شوقین ہیں اس لئے وہ بڑے فخر سے یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ان کی ملک سے روانگی اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی بدولت ممکن ہوئی تھی۔ پرویز مشرف اور راحیل شریف کے تعلقات کے بارے میں متعدد معلومات بھی سامنے آچکی ہیں اور یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے تین سالہ دور میں جمہوری حکومت کو دبانے اور اپنی مرضی نافذ کرنے کی کوشش کی۔ اسی مزاج اور رویہ کا نتیجہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ فوجی منصب پر فائز رہنے کے بعد راحیل شریف نے سعودی عرب میں اسلامی فوج کی سربراہی کرنے کی خصوصی اجازت حاصل کی۔ ریٹائرمنٹ  کے فوری بعد یہ اجازت سعودی عرب اور فوج کے دباؤ کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی تھی۔ ورنہ نواز شریف خود اس قسم کی کلئیرنس دینے پر آمادہ نہ ہوتے۔

سپریم کورٹ نے پرویز مشرف پر مقدمہ کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے باوجود اور ان اعلانات کے باوصف کہ ملک میں آئین و قانون سب کے لئے مساوی ہے، پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ اس سال مارچ میں اس خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اس حکم پر شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے اپنی مدت پوری ہونے کے آخری روز عمل کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ مارچ میں خصوصی عدالت کے اس حکم کے بعد اس کے نگران جسٹس یحیٰ آفریدی نے اس حیثیت میں کام کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ اس طرح پرویز مشرف پر فرد جرم عائد ہو جانے کے باوجود یہ خصوصی عدالت تحلیل ہو گئی اور بغاوت کا مقدمہ کسی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئین کی بالا دستی کے دعوؤں اور سابق وزیر اعظم کے خلاف عدالتی فیصلہ کو اس بنیاد پر درست قرار دینے کے باوجود کہ کوئی بھی شخص قانون سے ماورا نہیں ہے، پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کو متحرک کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ حالانکہ ان پر آئین شکنی کا سنگین الزام عائد ہے۔ او اب نواز شریف اسی مقدمہ کو اپنے خلاف فیصلوں کی وجہ بھی بتا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں تو چیف جسٹس پر واجب تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کو متحرک کرتے۔ اور یہ یقینی بناتے کہ آئین کے تقدس اور احترام کے بارے میں ان کی تقریریں اور وعدے محض رومانویت پسندی نہیں ہے بلکہ وہ دل و جان سے اس پر یقین رکھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اصغر خان کیس میں ایک بار پھر سرگرمی دکھانا شروع کی ہے۔ اب اس کیس میں ملوث متعدد فوجی افسروں اور سیاست دانوں کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے حکومت کی طرف سے 2012 میں عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی مایوسی ظاہر کی ہے اور اب ان کے اقدام سے لگتا ہے کہ وہ ملک کے آئینی جمہوری انتظام کو متاثر کرنے والے بعض عناصر کو سزا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دو دہائی پرانے مقدمہ پر تشویش اپنی جگہ بجا ہو سکتی ہے لیکن اگر چیف جسٹس اور سپریم کورٹ ملک میں قومی انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے اور اس سلسلہ میں حائل ہر قسم کی عدالتی، انتظامی اور قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو صرف ماضی میں جمہوریت دشمن عناصر کے خلاف کارروائی سے نیک نامی کمانا مشکل ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali