روس پاک تعلقات کی ترقی کے امکانات روشن


تحریر: ارینا ماکسی مینکو
(ماسکو ریڈیو اور ریڈیو صدائے روس کے شعبہ اردو کی سابق مرتجم اور سابق سربراہ)

مئی کے آخر میں ماسکو میں روس کی سائنسی اکادمی کے تحت علم شرقیات کے انسٹی ٹیوٹ میں روس پاک تعلقات کی ترقی سے منسوب ایک علمی کانفرنس ہوئی جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے روس میں پاکستان کے سفیر جناب قاضی خلیل اللہ صاحب موجود تھے۔ اپنی افتتاحی تقریر میں انہوں نے اس بات پر خصوصی توجہ دلائی کہ حالانکہ ہمارے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات مختلف ادوار سے گزرے، آج کل وہ بے شک فروغ پا رہے ہیں اور پاتے رہیں گے۔

پھر حاضرین سے روس کی وزارت خارجہ کے نمائندے گانیچ صاحب نے خطاب کیا۔ موصوف نے نمایاں سرگرمیوں کے لیے ماسکو میں پاکستان کے سفارت خانہ کا شکریہ ادا کر کے اور پاکستان سے عزت و احترام کا اظہار کر کے کہا کہ ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت برسر اقتدار کیوں نہ آئے یا مخلوط حکومت بھی ہو، کوئی شک و شبہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے مابین روابط مستقل ترقی کرتے رہیں گے۔ اپنی تقریر میں پاکستان کے مطالعہ کے شعبہ کے انچارج سرگئی کامینیو نے روس (جو اس وقت سوویت یونین ہی تھا) اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام (جو یکم مئی سن 1948 کو ہوا تھا) کے بعد گزرے ہوئے دور میں ان تعلقات کی ترقی کی ساری تاریخ کا جائزہ لے کر کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم ہے اور اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

پھر کئی پاکستانی نمائندوں، سائنسی امور کے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن کا حاضرین نے خاص طور پر پرتپاک استقبال کیا۔ یہ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر سرفراز خان صاحب اور لاہور یونیورسٹی کے پروفیسر ولید اقبال تھے جو مولانہ اقبال کے پوتے ہیں۔ اپنی تقریر میں سرفراز خان صاحب نے اس بات پر خصوصی توجہ دلائی کہ حالانکہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اتار چڑھاؤ سے گزرے، پھر بھی شکر الحمدللہ کھبی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اور ثابت ہوا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین نہ صرف سمجھوتے طئےکیے جا سکتے ہیں بلکہ وہ پورے بھی کیے جاتے ہیں۔ ولید اقبال صاحب کی تقریر میں یہ اہم خیال ظاہر کر دیا گیا کہ حالانکہ دونوں ملکوں کی نظریات میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے اور کبھی کبھار قومی مفادات کا تضاد بھی ہوتا ہے پھر بھی ثابت ہوا کہ وہ خوب تعاون کر سکتے ہیں۔

کانفرنس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سنیئر نائب صدر سید مظہر علی ناصر صاحب نے بھی شرکت فرمائی۔ حیساکہ موصوف نے بتایا، آج کے دور میں چھوٹے اور درمیانی کاروبار کے نمائندوں سے تعاون اور رشتہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے بارے میں۔ بقول ان کے افسوس کہ پاکستان میں روس کے متعلق بہت کم معلوم ہے اور حالات کو قطعی بدلنا چاہیے۔ صرف اس صورت میں باہمی اعتماد بڑھے گا اور یہ کاروبار کے فروغ کے لیے بہت ضروری بات ہے۔

روس کی طرف سے کئی نامور محققین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں مذکورہ بالا علم شرقیات کے انسٹی ٹیوٹ میں مشرق بعید اور مشرق وسطی کے مطالعہ کے شعبہ کے انچارج، پروفیسر بیلوکرینیتسکی، لودمیلا واسیلئیوا، آنا سووورووا اور ایرانا سیرینکو بھی تھے۔ ان کا بنیادی موضوع دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان تہذیبی مکالمے کی ضرورت سے وابستہ تھا۔ لودمیلا واسیلئیوا نے ادب کے میدان میں تہذیبی مکالمے پر خصوصی زور دیا، تو آنا سووورووا نے مصوری کے میدان میں۔ لیکن دونوں کا مشترکہ خیال یہ تھا کہ تہذیبی مکالمہ نہ صرف ضروری ہے بلکہ ممکن بھی اور اس کی ترقی کی راہ پر اہم اقدامکیے گئے ہیں جن کی دونوں نے بہت دلچسپ مثالیں پیش کیں، خود اپنے علمی کام اور زندگی سے منسلک۔ ایرینا سیرینکو نے خاص توجہ اس بات پر مبذول کرائی کہ سرکاری سفارتی تعلقات کے علاوہ عوامی رشتوں کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ اس راہ پر بہت کچھ کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر روس میں پاکستانی جماعتوں کی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں جو روس کے سماجی حلقوں کے نمائندوں سے رشتے موثر بنانے کے لیے مقصود ہیں۔ لیکن سب کے سب کا مشترکہ خیال، جو اس کانفرنس میں ظاہر کر دیا گیا اور جو درحقیقت اس کا لب و لباب بھی تھا، یہ وہ کہ ایک دوسرے سے واقفیت بڑھانے اور ایک دوسرے کے بارے میں مختلف میدانوں میں ہی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اس کی بدولت باہمی اعتماد بڑھتا جائے گا جو کامیاب اور موثر تعاون کا ضامن ہے۔
روس میں پاکستان کے سفیر جناب قاضی خلیل اللہ صاحب نے حاضرین سے خطاب کیا۔

ارینا ماکسی مینکو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارینا ماکسی مینکو

ارینا ماکسی مینکو روسی اردو دان، مترجم اور صحافی ہیں۔ وہ برسوں ماسکو ریڈیو، پھر صدائے روس اور بعد میں سپتنک ایجنسی کے شعبہ اردو میں کام کرتی رییں۔ اپنے کام کے دوران انہوں نے ریڈیو پروگراموں کی میزبان کی حیثیت سےبرصغیر کی بہت سی نمایاں شخصیات کے انٹرویو کیے۔ انہوں نے کئی مشہور اردو مصنفین کے افسانوں کا روسی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ آج کل وہ روس کے متعلق اردو زبان میں فیس بک 'جانیے روس کے بارے میں' پیج کی مدیر ہیں

irina-maximenko has 8 posts and counting.See all posts by irina-maximenko