چالیس برس بعد پھر گینگ ریپ۔۔۔


خالد کھرل ایک نامی گرامی سیاستدان گزرا ہے پاکستان میں۔ لاڑکانہ پلان جس نے 1977 کے انتخابات کی لٹیا ڈبو دی، خالد کھرل ہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل نے وزیراعظم کے مدمقابل امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اس وقت تک اغوا کئے رکھا جب تک کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا وقت نہ گزر گیا۔ نتیجہ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بلامقابلہ کامیابی نے پورے انتخاب پر پانی پھیر دیا۔ خالد کھرل بے نظیر بھٹو کے دور میں وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہے۔ یہ وہ دور تھا جب صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں اُن کے بھتیجے عمران کھرل کو شوق چڑھا کہ وہ ٹی وی پر خبریں پڑھیں۔ خالد کھرل نے اپنے بھتیجے سے کہا بیٹا یہ اچھی بات نہیں۔ بہتر ہو گا کہ ہم کنجر نہ ہی بنیں۔ یہ بیان ایک نجی ملاقات میں دوران گفتگو عمران ہی کی زبانی میں نے سنا۔

ایک اور واقعہ سنیں۔ ایک مشہور شاعر ہیں جناب اسلم انصاری جن کی انہی غزلوں کو دوام حاصل ہوا جنہیں ملک کے معروف گلوکاروں نے گایا۔ ان نے بیٹے نے خوش گلو ہونے کے بنا پر بھری محفل میں خواہش ظاہر کی کہ وہ گانا گانا چاہتے ہیں۔ اکثر گھر میں غزل گائیگی کی محافل ہوا کرتی تھیں۔ جب حضرت شاعر نے اپنے دوستوں کو بچے کی اس خواہش پر کندھا تھپتھپاتے دیکھا تو بھری محفل میں دوستوں سے کہا کہ اللہ نہ کرے کہ میرا بیٹا گانے بجانے والا بنے۔

یہ ہے ہمارے ہاں فنکار کی عزت ہم اُن سے اور اُن کے فن سے محظوظ ہوتے ہوئے فن پرستی کا اعلیٰ نمونہ بن جاتے ہیں مگر فنکار رہا دو ٹکے کا فرد۔

دو دن پہلے ایک غیر ملکی سابق پاکستانی اداکارہ نے پاکستانی سیاست کو آلودہ ہونے سے بچا لیا۔ ملک بچا لیا۔ اُس حادثے نے جو 70ء کی دہائی میں پیش آیا تھا، اُسے عوام بھی بھول چکے تھے اور نئی نسل واقف تک نہ تھی۔ اس اداکارہ کو وہ حادثہ بھولا نہ ہوگا مگر وہ ایک ہمت والی خاتون ہیں۔ اُس حادثے کے بعد بھی وہ کام کرتی رہیں ۔ پاکستان نے اُن کو بے شمار انعامات اور ایوارڈ سے نوازا۔ مگر اُس بنگالی اداکارہ کو یہ ایوارڈ کبھی نہ بھولے گا جو آج پاکستانی سیاستدانوں اور میڈیا نے انہیں دیا ہے۔ اُن کی بے آبروئی کو Sensationalخبر بنا کر فاروق بندیال کو پی ٹی آئی سے رخصت کروا دیا گیا۔ کیا محض کرپٹ اور ریپیسٹ لفظ کافی نہ تھا کہ اُن بزرگ خاتون کو بچوں اور بچوں کے بچوں کے سامنے شرمندہ کیا گیا؟

اُن کے بیٹے نے اس داغ کو سینے میں کہیں دفن رکھا ہوا ہو گا مگر آج وہ بھی ادھیڑ عمر ہے۔ اس کے بچوں نے کیسا ردعمل دیا ہو گا کہ دادی تو پاکستان کی سب سے بڑی بے داغ فن کارہ تھیں۔ کیا دادی کے ساتھ اتنا سب کچھ ہوا اور وہ اب بھی پاکستان کی گن گاتی ہیں۔ کیا وہ خاتون برصغیر کی عوم کی فرسودہ سوچوں سے ماورا کسی خطے میں رہتی ہیں؟ کیا اُن کا نام جگہ جگہ آنا اور باربار آنا پاکستان کی بقا کیلئے جزوِ لاینفک تھا۔ تو پھر راہ ِ خدا اُن کو نشان حیدر دیں کہ وہ بھی سرحد پاکستان پر ہی کھڑی کر کے ایک بار پھر شہید کر دی گئی ہیں۔

میں سخت مذمت کرتی ہوں اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی جس میں تین خواتین کے نام اچھالے گئے۔ سوچیں اگر وہ آپ کی ماں ہوتی تو آپ نام لاتے اُن کا آج۔ ٹھہری جھیل میں پتھر پھینک کر اچھا نہیں کیا۔ خاتون کا نام لئے بغیر بھی فاروق بندیال کو صرف 70ء کی دہائی کا غنڈہ کہا جا سکتا تھا ۔ جن کے ہاتھوں میں سیاست کی باگ ڈور ہے وہ سب جانتے ہی تھے۔ عوام کی عدالت پہلے کبھی لگی اور کسی سیاسی جماعت نے کوئی فیصلہ عوام سے پوچھ کر کیا کہ عوامی سطح پر اس واقعے کو اچھا گیا۔ کیا ہمارے لیڈر ایک اداکارہ ماں کے نام پر سیاست کریں گے تو بتائیں وہ دھرتی کے ناموس کی حفاظت کیا کریں گے؟

اور میڈیا سے بھی التماس ہے کہ اب اُن تینوں خواتین کا نام اچھالنا بند کریں۔ جانے وہ کیسے ذہنی کرب میں دوبارہ گزر رہی ہوں گی ۔ خدارا انہیں سیاست سے الگ رکھیں اور میڈیا اپنا کام کرے بجائے کسی کی عزت اچھالے۔ اخبارات میں اکثر آتا ہے کہ فلاں شخص نے الف کے ساتھ زیادتی کی ۔ یہ اصطلاح بھی استعمال کی جاسکتی تھی ۔ آپ کی خبر کسی کی روح کا زہر بن گئی ہے۔ مجھے شکایت اوریا مقبول جان سے بھی ہے۔ ان کا بھی کوئی تابڑ توڑ بیان نہیں آیا کہ یہ خبر کیوں چل رہی ہے؟ آپ کی بیٹی کیا ٹی وی دیکھنا چھوڑ گئی ہے کہ آپ اس ماضی کی فنکارہ کی توہین پر چپ ہیں؟ میشا شفیع کی دہائی پر تو آپ بہت بھڑکے تھے میڈیا پر اور ایسے واقعات کے بیان کو کھلی بے حیائی کہا تھا ۔ خوب گویا سیاست کے نام پر آپ کو بھی یہ سب منظور ہے یا کہیں آپ کو یہ بات سچ ہوتی تو نظر نہیں آرہی کہ آنے والا وقت صرف فنکاروں کا ہے اور انسانیت کی بقا فنکاروں ہی کے ذریعے ہو گی ۔ آپ جیسے منافقوں اور چرب زبان تقویٰ فروشوں سے انسانیت کی بھلائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).