قصہ میرے ایکٹر بننے کا


یہ پچھلی صدی کا قصہ ہے۔ میرے ایک دوست بین الاقوامی شناخت رکھنے والے پینٹر اور مجسمہ ساز جمال شاہ کے آرٹ اسکول ”ہنر کدہ“ میں فوٹو گرافی پڑھایا کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ”ہنر کدہ“ کا ”تھیٹر گروپ“ بھی ہے۔ رُکن بننے کی معمولی سی فیس تھی، یوں میں تھیٹر گروپ کا رُکن بن گیا۔ یہاں یہ بات صاف کر دوں کہ تھیٹر ایکٹر کا میڈیم ہوتا ہے، اور ایکٹنگ میری مراد نہ تھی۔ مقصد یہ تھا، کہ کسی طرح شوبز کی دُنیا میں قدم رکھ دوں۔ ٹیلے ویژن پروگرام پروڈکشن سے کچھ سیکھ کے فلم کا رُخ کروں۔ وزیر آغا کے زبان میں، ”چنا ہم نے پہاڑی راستہ۔“

ان دنوں یہ آرٹ اسکول ”ہنر کدہ“ اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس تھری کے ایک بنگلے میں قائم تھا۔ گھر سے آنے جانے کا کرایہ لے کے جی پی او صدر راول پنڈی سے وین میں سوار ہونا، لال مسجد اسلام آباد کے ویگن اسٹاپ پر اُتر کے مسجد کے عقب کی گلیوں سے ہوتے ”ہنر کدہ“ پہنچنا، اور بنگلے کے ٹیرس پہ اکٹھے ہو کے ریہرسل کرنا، ان دنوں کا معمول تھا۔ جمال شاہ نے ”کل“ کے عنوان سے ایک ڈراما سیریل بنانا شروع کی، تو میں ان کے پاس چلا گیا۔
”سر، مجھے پروڈکشن میں آنا ہے۔“
جمال شاہ نے حیرت سے دیکھا، اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا، ”ایکٹنگ کرو، یار۔“
”نہیں سر، مجھے پروڈکشن میں آنا ہے، ایکٹنگ نہیں کرنی۔“
”پروڈکشن مشکل کام ہے، ایکٹنگ کرو۔“ انھوں نے دُہرایا۔
”نہیں! مجھے پروڈکشن کا کام سیکھنا ہے۔“
”اچھا؟ ٹھیک ہے۔“

بس اتنی سی تکرار میں کام بن گیا۔

”کل“ کی پہلی ہیروئن آمنہ حق تھیں، لیکن دو قسطیں رِکارڈ کرنے کے بعد، ان کی جگہ ماڈل ونیزہ احمد عبد الرحیم کو کاسٹ کر لیا گیا۔ شو بِز میں ’وِنی‘ کے نام سے جانی جانے والی ونیزہ احمد کی یہ پہلی ڈراما سیرئیل تھی۔ وِنی کا ذکر آیا، تو مجھے قلعہ روہتاس میں رکارڈنگ کے لیے جاتے وہ منظر نہیں بھولتا، جب پروڈکشن کریو صبح سویرے ہنر کدہ کی ہائے ایس وین میں‌ اسلام آباد سے روانہ ہوا تھا۔ نیند سے بے حال ہوتی ونیزہ احمد نے وین کے فولادی فرش پر سکڑے سمٹے، سوتے میں یہ سفر طے کیا۔ آج کل تو بہت سہولت ہوگئی ہے، معاوضے بھی بہت ہیں۔ اس وقت یہ کام محض شوقیہ افراد کے ہاتھ میں تھا، نخرے وہ نہ تھے، جو آج ہیں۔ معاوضہ مت پوچھیے گا، کہ کچھ تو بھرم رہنے دیں۔

ہم اسلام آباد کی ایک لوکیشن پر این سی اے لاہور کو ”چِیٹ“ کر رہے تھے۔ مرکزی کرداروں کے علاوہ کالج میں آتے جاتے اسٹوڈنٹس دکھانا تھے۔ شوٹنگ کی افراتفری میں، میں جمال شاہ کے سامنے سے گزرا تو انھوں نے مجھے آواز دے کر روک لیا۔ کہا کہ یہ سچوایشن ہے، یہ تمھارے مکالمے ہیں، اور چلو جا کے ایکٹنگ کرو۔ میں بوکھلا گیا، کہ یہ کام مجھ سے نہ ہوگا۔ لیکن سوچنے کی یا انکار کی مہلت ہی کب دی گئی تھی۔ میرے سامنے دائیں ہاتھ پر اداکار حمید شیخ، بائیں ہاتھ پر اداکار شقیق بلوچ اور۔۔۔۔۔۔۔ کیمرے کے پیچھے بے فکری سے کھڑی ہمیں تکتی ہوئی ونیزہ احمد عبد الرحیم، جو کہ اس منظر کا حصہ نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔ لو اب کہلوا لو، مجھ سے ڈائلاگ۔
پتا نہیں کتنی ری ٹیکس کے بعد جو ٹیک ”او کے“ ہوئی، وہ بھی بس ڈائریکٹر کا کمپرو مائز کرنا ہی سمجھیں۔

”ونیزہ احمد کی مسکراہٹ بہت دل کش ہے، اور ڈِفرینٹ بھی۔“ رِکارڈنگ کے دنوں‌ میں جب یہ بات، میں نے اداکار حمید شیخ سے کہی، تو حمید نے اصرار کر کے پوچھا، اس کی ہنسی کو ڈیفائن کرو، کیا خاص ہے اس میں؟
”اس کی مسکان کی دو منزلیں ہیں۔ وہ پہلے ہلکا سا مسکراتی ہے، لگتا ہے کلی چٹخی ہے، اور دیکھنے والا ابھی حیرت میں ہوتا ہے، کہ اس کی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے، جیسے پھول کھل گیا ہو۔“

ظاہر ہے ونیزہ کو تو اس گفت گو کی خبر نہ تھی، اللہ جانے حمید شیخ کو یہ بات یاد ہے یا نہیں۔ حالاں کہ اس وقت حمید نے اس طرح سے ڈیفائن کرنے پر مجھے داد دی تھی۔

جمال شاہ اور فریال گوہر نے حمید شیخ کو اس کی کم سنی سے اپنے بچوں کی طرح توجہ دی تھی۔ میں جس دور کا ذکر کر رہا ہوں، فریال گوہر اور جمال شاہ کے بیچ میں علاحدگی ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ فریال لاہور میں تھیں۔ ایسے میں حمید شیخ کا فریال اور جمال دونوں سے رابطہ رہا، کہ دونوں اس کے والدین کی طرح تھے۔ حمید شیخ بڑا جنونی فن کار ہے۔ اس نے ”کل“ میں جو کردار ادا کیا، وہ عام دنوں میں بھی اسی گیٹ اپ میں رہتا تھا، تا کہ ہر وقت اس کردار میں ڈوبا رہے۔ حمید کا کردار مجسمہ سازی کے ہونہار طالب علم کا تھا، جو اپنے باغی مزاج کی وجہ سے مشکلات میں گھرا رہتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ ڈرامے کے اس کردار کو جمال شاہ نے اپنی اسٹوڈنٹ لائف کے کردار سے اخذ کیا ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں ان کی ایک ٹیچر سلیمہ ہاشمی تھیں، ”کل“ میں یہ کردار فریال گوہر کی بہن مدیحہ گوہر (مرحوم) نے ادا کیا ہے۔

ایک صبح ہم این سی اے لاہور میں رِکارڈنگ کے لیے جا پہنچے۔

یہ اسکلپچر اسٹوڈیو کا منظر ہے۔ طلوع ہوتے سورج کی کرنیں روشن دان سے چھن کر چوبی تختے پر پڑتی ہیں، جہاں غریب مجسمہ ساز (حمید شیخ) رات بھر کام کرنے کے بعد سویا ہوا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے، ہیروئن (ونیزہ احمد) ہاتھ میں لنچ باکس لیے ہال میں داخل ہوتی ہے۔ پیار بھری سرزنش کرتی ہے، کہ اپنا خیال رکھا کرو۔

چوں کہ میں یہ مان کر چلا ہوں کہ حمید شیخ، جمال شاہ کے کالج دور کا کردار ادا کر رہا ہے، اور ونیزہ، فریال گوہر ہیں، جو ”کل“ جمال شاہ کی کلاس فیلو تھیں، تو میں اپنے سامنے رکارڈ ہونے والے اس منظر کو اور طرح سے دیکھ رہا ہوں۔ چلیں آپ اس کو رہنے دیں، منظر کیا ہے وہ دیکھیے۔

ہیروئن ان مکالموں میں ایک جگہ انگریزی لہجے میں ”میکال اینجلو“ کہتی ہے، تو جواب میں ہیرو ”مائکل اینجلو“ پکارتا ہے۔ وہ استفسارانہ نگاہوں سے دیکھتی ہے، تو مجسمہ ساز وضاحت کرتاہے، کہ تمھارے اور میرے بیچ میں یہ (لہجے کا) فرق ہے۔ تم جس (اشرافیہ) طبقے سے ہو، انھیں یہ (متوسط طبقے کا نوجوان جو دیسی لہجے میں انگریزی بولتا ہے) قبول نہ ہوگا۔ ظاہر ہے ہیروئن ہیرو پر مرتی ہے، تو وہ اس تنبیہہ کو مسکراتے ہوئے نظر انداز کرتی ہے اور اسے ناشتا دیتی ہے، جو ہیرو کے لیے وہ اپنے گھر سے لائی ہے۔
ہیرو: (مسکراتے ہوئے) تھینکس۔
ہیروئن: (اچمبھا) تھینکس فار وٹ؟
ہیرو: (مسکان؛ توقف) تھینکس فار دی کنسرن۔
(یہ تین جملے میں نے اپنے ہر ڈرامے میں کہیں نہ کہیں ضرور شامل کیے ہیں)

ونیزہ احمد کو ”کل“ کے دو یا تین سال بعد جاوید فاضل (مرحوم) نے ایک ڈراما سیریئل میں کاسٹ کیا، جو اسے لائم لائٹ میں لے آیا۔ ونیزہ نے انٹرویو دیتے ”کل“ کا ذکر تک نہ کیا اور جاوید فاضل کی اس سیریئل کو اپنا پہلا سیریئل بتایا۔ اس لیے کہ ”کل“ ایک کم زور ڈراما سیریئل ثابت ہوئی۔ بہت سے کرداروں، بہت سے ٹریکس کو آپس میں یک جان نہ کرسکنے کے باعث ”کل“ کوئی یادگار سیرئیل نہ بن سکی، لیکن اس ”کل“ سے میری زندگی کی ڈھیروں نہ بھلائی جانے والی یادیں وابستہ ہیں۔

پس نوشت: استاذ من جمال شاہ کا خاکہ لکھنے بیٹھا تھا، لیکن بہک کر کہیں سے کہیں جا نکلا۔ اس میں زیادہ قصور میرا نہیں، ونیزہ احمد کا ہے۔ استاد محترم کا خاکہ مجھ پر اُدھار رہا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran