حامد ڈار شیرینی بانٹنے والا رخصت ہوا


بوڑھ کے پرانے درختوں جیسا جھریوں زدہ مفکرسا ایک چہرہ جس کو اکثر میں نے گورنمنٹ کالج کے اندر یا تو بخاری آڈیٹوریم کی طرف جانے والی راہداری یا انٹر کیفے سے مین گیٹ کی جانب جانے والے راستے پر سفاری سوٹ پہنے، ہاتھ پیچھے باندھے خراماں خراماں چلتے یا کبھی سکالرز گارڈن کے برابر رستے پر کھڑے مخلتف اسٹوڈینٹس کے ساتھ ہنستے دیکھا تھا۔

 زندگی سے بھر پور چہرے والے اس پروفیسر کا نام حامد ڈارتھا۔ اور حماد ڈار صاحب سے میری پہلی ملاقات گورنمنٹ کالج کے پروفیسرز روم نمبرتین میں ہوئی تھی جب  اپریل کی ایک گرم دوپہر،  انارکلی بازار میں موجود پرانی کتابوں کی ایک دکان: احمد بک شاپ سے دوسری کتابوں کی خریداری کے دوران میری نظر رابٹ فراسٹ کی شاعری کے ایک بہت پرانے نسخے پر پڑی جسکی اعشاعت کی تاریخ تو مجھے یاد نہیں مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ پاکٹ سائز اس نسخے کی جلد سرخ رنگ کی تھی اور بہت پرانی اور بوسیدہ ہونے کے وجہ سے کہیں کہیں سے ادھڑی ہوئی تھی اور اس پر لکھے سنہری رنگ کا کولیکشن آف پوئمز بھی مٹتا مٹاتا کالے رنگ کا ہو چکا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر محبت کی چند سظریں قلم سے تحریر تھیں جنکے نیچے درج تاریخ سن 1927 کے کسی مہینے کی تھی۔ وہ کتاب دیکھ کر نجانے کیوں میرے زہن اکنامکس کے پروفیسر کا وہ جھریوں زدہ چہرہ آیا جس پر ہمیشہ میں نے زندگی سے اٹھکھیلیاں کرتی مسکراہٹ دیکھی تھی۔

حامد ڈار صاحب کو پہلی ملاقات میں کتاب کا تحفہ دینے کے ارادے سے میں نے وہ کتاب خرید لی اور سیدھی پروفیسرز روم نمبر تین میں برائے نام  سی دستک دے کر اندر ہو لی جہاں حامد ڈار صاحب اپنے ڈیسک کے پیچھے کرسی پر بیٹھے ڈان نیوز کے لٹریری صفحے بُکس اینڈ آتھرز کا مطالعہ کر رہے تھے، میں بنا کسی تمہید کے ہی کرسی پر بیٹھ کر انہیں کہنے لگی کیا آپ انتظار حسین کی تحریر پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ نہیں مرزا اطہربیگ کے نئے ناول کے حوالے سے انکا ایک انٹرویو چھپا ہے، وہ پڑھ رہا ہوں، اخبار سے  نظریں اٹھائے بنا ہی انہوں نے سوال کِیا، پڑھا ہے آپ نے مرزا صاحب کو؟ میں نے اپنے سکارف کے ساتھ منہ سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا جی سر غالبا” آپ عرفان اسلم کا مرزا صاحب سے  “حسن کی صورتِ حال۔۔۔ خالی جگہیں پُر کرو” کے بارے میں لیا گیا انٹرویو پڑھ رہے ہیں۔

یہ پہلا لمحہ  تھا جب حامد ڈار صاحب نے توجہ سے میری جانب دیکھا۔ کہنے لگے آپ جی سی میں پڑھتی ہیں اگر ہاں تو کس  مضمون میں؟ میں نے بتایا جی سرمیرا نام کومل راجہ ہے اور میں پچھلے پانچھ سال سے جی سی میں/کی نفسیات پڑھ رہی ہوں، جس پر وہ اور میں دونوں ہی ہنس دیے۔

 میں نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بیگ سے سرخ کتاب نکالی اور پر جوش انداز میں سر کی میز کی ظرف بڑھا دی: دیکھیں سر جی میں آپ کیلیے ایک تحفہ لائی ہوں، نجانے کیوں اس کتاب کو دیکھ کر مجھے لگا یہ آپ کے پاس ہونی چاہیے، اور دیکھیں تو سر یہ کتنی پرانی ہے آج سے بہت پہلے 1927 میں یہ کسی شخص نے اپنی دوست کے لئے خریدی تھی، کتاب کے پہلے صفحے پر قلم سے لکھی تحریر اور تاریخ پڑھ کر سر کہیں کھو سے گئے اور لان کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہنے لگے 1927 تو میرا سن ِ پیدائش ہے مگر میں یہ لٹریچر وغیرہ کی چیزیں زیادہ شوق سے نہیں پڑھتا میرا ایک بھائی ہے جسکو جنون ہے پڑھنے کا، یہ کتاب اس کے لیے زیادہ موزوں تحفہ ہے، خیر مجھے کیا معلوم حامد ڈار صاحب کے بھائی کون ہیں جو جنونی ریڈر ہیں، میں نے اصرار کیا نہیں سر میں یہ آپ کے لیے ہی لائی ہوں سو یہ آپکو ہی رکھنا ہو گی۔

اس ساری بِلا تکلف  گفتگو کے بعد کمرے میں ہلکا پنکھا چلنے کی آواز اور اسکی ہوا سے اڑنے والے کچھ پیپرز کی آواز ھم دونوں سنتے رہے۔

پھر میں نے خاموشی توڑی اور سر کو بتایا کہ سر میں آپکی ایک اسٹوڈینٹ کی سِسٹر ہوں، آپ گیس کریں کون سی اسٹوڈینٹ اور آپ کی آسانی کے لیے ہںٹ کے طور پر میں اپنا پورا نام دہرا دیتی ہوں۔ سر کچھ دیر زیرِ لب مسکراہٹ لیے سوچتے رہے پھر ایک دم سے کہتے آپ عنزیٰ راجہ کی سِسٹر ہیں کیا؟

میرے قدرے اونچے قہقہے سے کچھ لمحوں کے لیے اڑتے کاغز اور بنبناتے پنکھے کی آواز گم ہو گئی۔ ایک بار پھر پروفیسرز روم نمبر تین حامد ڈارصاحب اور میری ہنسی  سے جَڑتی خوشکن یادیں سمیٹنے لگا۔

“او عنزیٰ تو میری بہت پیاری اسٹوڈینٹ ہے،  بڑی سمجھداراور گھر بسانے والی لڑکی ہے،  تم اسکی بہن نہیں لگتی ہو، کدھر ہوتی ہے وہ آج کل؟”

“جی سر  بالکل صحیح کہا آپ نے، میری سمجھدار بہن نے اپنا گھر بسا بھی لیا ہے اور آج کل وہ نیدرز لینڈ اُسی گھر میں ہوتی ہے۔ “

“اچھا ویری گڈ، ویری گڈ!

اور تمہارا گھر بسانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ایم ائی رائٹ؟”

میں ہنستے ہوئے، سر پہلے یہ تو بتایئں کہ میں عنزیٰ کی بہن کیوں نہیں لگتی؟

“کیوں کہ تم تھوڑی پاگل ہو اور ہر گھر میں ایک بچہ تم جیسا ہوتا ہے جو باقیوں سے مختلف اور تھوڑا پاگل ہوتا ہے جیسا میرا وہ بھائی بھی تھوڑا پاگل  ہے۔”

بات بدلنے کی غرض سے میں نے پوچھا سر کیا آپ نے انتظار حسین کی کہانیاں، افسانے پڑھے ہیں؟ میں ہر اتوار کو اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ نیرنگ آرٹ گیلری میں چند بزرگ ادبی لوگوں کی بیٹھک میں بیٹھتی ہوں ، ان میں انتظار صاحب بھی ہوتے ہیں اور انکے  ایک دوست زاہد ڈار بھی جو ان لوگوں میں میرے پسندیدہ ترین اور سب سے اچھے دوست ہیں۔

حامد صاحب پر اسرار مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگے، “اچھا؟ چلیں پھر آپ کے لیے بھی میرے پاس ایک کویز کوسچن ہے اور ہنٹ کے طور پر میں اپنا پورا نام دہرا دیتا ہوں۔”

میں نے فورا” ہی حیرت کی دوسری، تیسری منزل کو چھوتے ہوئے قدرے اونچی اور تیز آواز میں کہا، کیا زاہد ڈار آپ کے وہ بھائی ہیں جنکا زکر ایک دو مرتبہ آپ کر چکے ہیں؟

سر نے ہنستے ہوئے کہا، آپکو کبھی خود سے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ ھم دونوں کے سر نیمز “ڈار” ہیں۔

پتہ نہیں کیوں میں اس بات پر کافی دیر حیرانی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ سوچتی رہی اور بولی کہ مگر سر انہوں نے کبھی زکر نہیں کِیا کہ میرا بھائی جی سی میں اکنامکس کا سب سے پرانا پروفیسر ہے۔

مزاح کے سے انداز میں کہنے لگے “وہ مجھے بھائی تسلیم ہی نہیں کرتا تو زکر کیوں کر کرتا۔” جس پہ سر کا یہ جملہ پھر سے میرے زہن میں گھوم گیا : ‘ جو باقیوں سے مختلف اور تھوڑا پاگل ہوتا ہے’

خیر حیرانی در حیرانی، انسیڈینٹ در اسنیڈینٹ اور ڈاٹ در ڈاٹ کے کونیکٹ ہونے والی یہ مختصر سی میتھیکل ملاقات حامد ڈار کے اس مانوس سے جملے پر ختم ہوئی جو مجھے  اسلم اظہر، زاہد ڈار اور طارق فارانی جیسے من کے سچے آرٹسٹوں سے سنسے کو مل چکا تھا کہ اچھا اب میں تھک گیا ہوں اب جاؤ۔

 دروازے سے نکلتے ہوئے حامد ڈار صاحب نے مجھے آواز دی اور ایک منٹ رکو کہہ کر اپنے میز کی دراز میں کچھ تلاشنے لگے۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد ایک چاکلیٹ انکے ہاتھ میں تھی جو مجھے دیتے ہوئے وہ کہنے لگے یہ میں نے رکھی ہوتی ہیں چیدہ چیدہ  اسٹوڈینٹس کے لیے جو میرے آفس میں آنے والے ہر اسٹوڈینٹ کو نہیں ملتیں۔ ۔ ۔

حامد ڈار صاحب سے ایک یادگار ملاقات کے اُس شیریں سے اختتامیے کا زائقہ میں آج بھی محسوس کر سکتی ہوں اور کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ انکے تمام اسٹوڈینٹس جنکو انکے دراز میں رکھی معتبر چاکلیٹس کھانے کا اتفاق ہوا ہو گا ہمیشہ اس شیرینی کو محسوس کر سکیں گے جو حامد ڈار صاحب سالہہ سال شفقت، حوصلہ افزائی اور انعام کے طور پر بانٹتے رہے۔ ۔ اللہ انکے درجات بلند فرمائے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).