فلم ’’مالک‘‘ کے حقیقی مالک


\"ibarhimفلم ‘مالک‘ کے چرچے گلی گلی اور شہر شہر ہیں. جس طرح حکومت مخالف اور اس کے حامی صف آرا ہو چکے ہیں اسی طرح اس ‘مالک‘ فلم کے حامی اور مخالفیں بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔

مجھے ‘مالک‘ فلم بڑی اسکرین کی عام فلم سے زیادہ کسی خاص ایجنڈا کاحصہ لگتی ہے، اس فلم پر پابندی کیا لگی،  تحریک انصاف سے لے کر سیاست دانوں کو دنیا کی بدترین مخلوق سمجھنے والے ہمارے ”محب وطن“ اینکر پرسنز تک سب بپھر گئے۔

پہلے سندھ حکومت نے اور اب وفاقی حکومت نے اس فلم پر پابندی عائد کردی ہے، جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی لیکن کہا جا رہا ہے کہ سیاست دانوں کے خلاف نفرت، انتہاپسندی اور لسانیت کا تاثر ملنے کی بنیاد پر یہ پابندی لگائی گئی ہے، پر یہ پابندی عارضی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ فلم کا ڈاریکٹربڑا تگڑا ہے۔

اعتراضات اطمینان، پابندی، اجازت، رلیز اور پھر پابندی کے کئی مراحل سے گذرتی اس فلم کو دیکھنے سے پہلے ہی اس کا ایسا چرچا ہوا ہے کہ سب لوگ اس فلم سے استفادہ کر کے سیاست کے خلاف اپنا ایمانی جذبہ گرمانا چاھتے ہیں۔ اور سب لوگ اس فلم کے بن دیکھے شوقین کیسے نہ بنیں، کیونکہ ایک ایک سے اینکر اس فلم کو کامیاب بنانے لئے اور اس پر سے پابندی ہٹانے کے لئے چھوٹی اسکرین کا سہارا لے کر اپنی اپنی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

\"maalik\"فلم بننے کے بعداس کی چھان بین کرنے والے سندھ کے سنسر بورڈ نے فلم کے ایک دو جملوں پر اعتراض کیا، بورڈ کو یقین دھانی کروا دی گئی کہ فلم سے وہ ڈائیلاگ حذف کرلئے جائیں گے۔ لیکن کمال کی جرات تھی، فلم میکرز نے نہ تو سنسر بورڈ کی پرواہ کی اور نہ ہی صوبائی حکومت کی، اور فلم ان تمام قابل اعتراض ڈائیلاگ کے ساتھ چلا دی گئی۔

جس پر سندھ حکومت نے رلیز ہونے کے بعد فلم پر پابندی عائد کردی لیکن فلم میکرز کسی بھی صورت میں ان ہی ڈائیلاگ کے ساتھ فلم دکھانے کے موڈ میں تھے، اس لئے سندھ حکومت کی ان کے آگے ایک بھی نہیں چل سکی، اور ان کے پرزور اصرار پر پھر فلم ریلیز کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس ایک فلم رکوانے جتنے اختیار بھی نہیں۔ سندھ سے پابندی اٹھی تو وفاق نے پابندی لگا دی ہے، لیکن فلم بنانے والے بھی وسیع تر قومی مفادات میں ہر حال میں یہ فلم رلیز کرانے کے موڈ میں ہیں۔

ان دنوں دھشتگردی سے زیادہ کرپشن کے خلاف جنگ پر نظر ہے۔ اور فوج ہر صورت میں یہ جنگ بھی جیتنا چاہتی ہے۔ اس لئے تو احتساب سب کا ہونے کے بیان سے لے کر پرانی تاریخوں میں برطرف کئے گئے فوجی افسروں کی خبر ابھی ابھی چلاوائی گئی ہے تاکہ ان خبروں کا پاناما لیکس کے متاثریں اور دوسرے ”کرپٹ سیاست دانوں“ پرخاصا اثر پڑے، یہ فلم بھی سیاست دانوں کی کرپشن کے خلاف ایک اہم پیغام پر مبنی ہے اس لئے روشن امکانات یہ ہی ہیں کہ فلم ایک دو دن کے اندر بڑی اسکرین کی زینت بن ہی جائے۔

\"Maalik-New-Upcrising-Viewers\"حالی ہی میں فوت ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل ظفر عباسی غازی کی زندگی پر بننے والا پی ٹی وی کا مشھور ڈرامہ الفا براوو چارلی تھا، جس کی پراڈکشن آئی ایس پی آر کی تھی۔ مئی 1998ءمیں وہ ڈرامہ پی ٹی وی سے چلا تھا اور پورے ملک میں مشھور ہوا تھا اس ڈرامے کا مرکزی کردار کیپٹن عبداللہ نے ادا کیا تھا۔ اس کے بعد عاشر عظیم  کا ڈرامہ \”دھواں\” دیکھنے کو ملا، یہی عاشر عظیم اس فلم ‘مالک‘ کے ڈائریکٹر ہیں اور فلم کی پیشکش وہ ہی پرانی الفا براوو  چارلی والی ہے۔

‘مالک‘ فلم میں کیا ہے؟ بس ا یک بدعنوان اور جاگیردار بندہ دکھایا گیا ہے جو وزیراعلیٰ بن گیا ہے، وہ بھی سندھ کا وزیراعلیٰ ہے جس کی سندھ سے وابستگی دکھانے کے لئے ” سائیں“ کا لفظ اس فلم کی خصوصی پیشکش ہے۔ ”سائیں“ کے لفظ کی معنیٰ ہر جگہ پنجابی زبان والے سائیں کی لئے جاتے ہیں حالانکہ سندھ میں اللہ پاک کو بھی سائیں کہا جاتا ہے اور زندگی میں پہلا درس دینا والا استاد بھی سائیں ہی کہلاتا ہے، جسے پنجابی سائیں کے معنیٰ دیکھنا ہوں وہ بھلے ڈکشنری کھول کے دیکھ لے۔ اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی نفیسہ شاھ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ” بدنیتی سے یہ فلم بنائی گئی ہے“۔ اور اس میں شک کی گنجائش نہیں۔

اس فلم کا ڈائریکٹر اور پیشکار دونوں سیاست دانوں سے نفرت میں کافی حد تک آگے نکل گئے ہیں، اورفلم میں دکھایا گیا ہے کہ طالبان ٹائپ ایک شخص منتخب وزیراعلیٰ کو قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی طالبان ہیں جو سیاسی نظام، جمھوریت، پارلیمنٹ، ملکی آئین و قانون کو کسی صورت میں ماننے کے لئے تیار نہیں، دوسری طرف ان ہی طالبان دھشتگردوں اور انتہا پسندوں کے ہاتھ سیاست دانوں اور ان کے خاندان کے لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، دوسری طرف ایسی فلمیں \"maalik-P20\"بنا کر منخب نمائندوں تک ایسے کرداروں کو رسائی دے کر کیا یہ پیغام نہیں دیا جا رہا کہ سیاست دان کے خلاف اس طرح کا کوئی بھی عمل ٹھیک ہی ہوتا ہے۔

اس سے بھی خطرناک منظر تو وہ جس میں وزیراعلیٰ کو اس کا سیکیورٹی گارڈ ہی قتل کردیتا ہے۔ باڈی گارڈ کے ہاتھوں وزیراعلیٰ کی موت سلمان تاثیر کے موت کی یاد دلاتی ہے۔ کیا ڈائریکٹر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ممتاز قادری نے جو کیا وہ جائز ہے؟ فلم میں ایک طرف تو ملک کا ‘مالک‘ عام شھری ہونے کا تاثر دیا گیا ہے لیکن اسی عوام کو اکسایا جاتا ہئے کہ اگر چاہو تو آپ کسی بھی منخب نمائندہ کو قتل کردنے میں حق بجانب ہو۔

سیاست سے نفر ت کے تاثرات کے باوجود اس فلم میں وکھر ی ٹائپ کے سیاسی عزائم واضع طور پر جھلکتے ہیں، اور اس فلم کے حامیوں کی صف بندی پہلے ہی ہو چکی ہے، سیدھی بات ہے جو جمہوری حکومتوں کو عمران خان کے فارمولہ کے مطابق گھر بھیجنے کے حامی ہیں یا جن کی یہ خواہش ہے ان کے لئے یہ فلم من پسند اور دل پسند فلم ہے۔

\"Maalik-1\"اس لئے تو اس فلم کو بڑے اسکرین پر چلانے کے مطالبات سیاسی تنظیموں کی طرف سے ہو رہے ھیں۔

میں نے اس فلم کا آخری گیت ” سب اپنے نظرئے پاس رکھو ہم اپنا نظریہ رکھتے ہیں،، مصطفی کمال کے جلسے میں بھی سنا تھا، اب مصطفیٰ کمال کا نظریہ، اس فلم میکرز کا نظریہ، اس فلم کی حمایت کرنے والوں کا نظریہ، کیا کہیں؟ بات سمجھ میں آتی بھی ہے اور نہیں بھی آتی۔

اس میں کوئی بھید نہیں کہ اس ملک میں سیاست دانوں سے وہی کچھ  برسوں بلکہ عشروں سے ہوتا آیا ہے جو ‘مالک‘ فلم میں دکھایا گیا ہے، اس ملک کے ایوان صدر میں بیٹھے کسی بھی سویلین صدر کو کوئی بھی جب اور جہاں چاہئیے، بدعنوان، چور، ڈاکو، لٹیرا، نااہل، نالائق، چالاک، مجرم اور اس سے بھی گرے ہوئے لفظوں میں یاد کرنے کی مکمل آزادی ہے، بھرے جلسے میں، کسی ٹی وی چینل پر کسی کالم یا مضمون میں۔

 اسی طرح قائد ایوان یعنی حکومتی سربراہ پر جب چاہیں کوئی بھر الزام لگا دیں، کسی بھی لقب القاب سے نواز دو، پارلیمنٹ میں بیٹھے عام ممبر سے لے کر حکومتی سربراہ تک کوئی بھی مقدس گائے نہیں، اور ہونا بھی نہیں چاہیئے، لیکن جناب پھر کسی کو بھی مقدس گائے نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ آزمائی روایتں اب چھوڑنا ہوں گی کہ کسی حکومتی سربراہ پر الزام لگاو، پہلے اسے گھر بھیج دو پھر الزمات ثابت کرنے کے لئے ملک کے خزانے لٹا دو، سالہا سال مقدمات کی پیروی کرو، اگر نتیجہ فوری چاہیئے تو پھر کسی کو جھوٹے مقدمہ میں پھانسی پر چڑھا دو یا کسی کو عمر قید کی سزا دلوا دو۔

\"Theatrical-Trailer-Of-Upcoming-Pakistani-Movie-Maalik-Must-Watch\"پاناما لیکس اور اس کے بعد وزیراعظم کو اخلاقیات کا درس دے کر استعیفیٰ طلب کرنا، فوجی افسران کی برطرفی کی خبرکا لیک ہونا، حکومت مخالف سیاسی صف بندیاں، رائے ونڈ کے گھیرے کی دھمکیاں محض اتفاقیہ نہیں۔ یہ جو آج کل اخلاقی جواز، اخلاقی جرات، اخلاقی مظاہرہ، اخلاقی دباؤ اور ان جیسے کئی ہم معنیٰ لفظوں کا سبق پڑھایا جانے لگا ہے اس کے پیچھے بھی تو کوئی مقصد ہی کارفرما ہے، اس لئے تو  گلی کے نکڑ سے لے کر بڑے بڑے اسٹیج تک، ریڈیو پر مارننگ شو الے میزبانوں سے لے کر شام کو سٹلائٹ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے مختلف پروگراموں میں اینکر پرسن سیاست دانوں کا کچا چٹھا کھول کر یہی گواہی دے رہے ہیں کہ سیاست دانوں سے بری مخلوق نہ پیدا ہوئی نہ ھوگی۔

یہ نوٹ کرنے کی بات ہے کہ یہ اخلاقیات کے تمام اسباق ہمارے سیاست دانوں، سویلین حکمرانوں، وزیروں، مشیروں اور وزیراعظموں کے لئے ہیں، اس ملک میں آمروں، ان کے حمایتی، ان کے وفاداروں اور ان کی آمرانہ سوچ رکھنے والوں نے جو کچھ کیا ان پر اس قسم کی اخلاقیات سے بھرپور کوئی تھیوری فٹ ہی نہیں ہوتی اور سب کے سب طاقتور اس سے مبرا سمجھے جاتے ہیں۔ اور بس کسی فلم سے لے کر کسی تقریر پر نشانے پر بڑے ایوانوں میں بیٹھے کمزور سیاست دان ہی ہوتے ہیں، بیشک ان کی کمزوریوں میں ان کے اعمال کا بڑا حصہ ہوتا ہے پر ان کو لٹکانے والوں کا دامن کتنا داغدار ہے اس کو دکھانا بھی تو ضروری ہے۔

\"malik1\"اچھا ہوا کہ ‘مالک‘ فلم بنی، جس میں سیاست دانوں کو خوب نشانہ بناکر ان کو آئینہ بنایا گیا ہے، چلو اب امیدیں لگائیں کہ اس ملک میں بدترین سانحات پر بھی فلمیں بنیں گی اور ان فلموں کے بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا۔ ان فلموں کے لئے موضوعات کی کوئی کمی نہیں، بس سچ دکھانے کے لئے تھوڑی ہمت اور جرئت چاہیئے۔ کیا جمھوریت کی بساط لپیٹنے کے کئی واقعات، بنگال سانحہ، حمود رحمان کمیشن، ذوالفقار بھٹو کی پھانسی، فرقہ واریت اور انتہا پنسدی کی سرکاری آبیاری، مدارس کا جال بچھانا اورپھر ان سے طالبا ن کی افزائش و پیدائش، دھشت گردی کے خلاف پرائی جنگ میں خود کو دھکیلنا، اور اپنے ہوائی اڈوں کو بیچ کر کھا جانا، ملک میں ججوں کو گرفتار کرنا، ججوں کی طالع آزماؤں کے آگے جھکنے کی روایات اور غیر سیاسی اداروں کی سیاست میں اور حکومت میں مداخلت کے موضوعات فلم بنانے کے لئے موزوں نہیں؟ اگر فلم بنانے کا مقصد عوام کو آگہی دینا ہی ہے تو پورے سچ سے آگہی ملنی چاہئیے۔

 

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
15 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments