بھوک کے خلاف صف آراء ’’کھانا گھر‘‘ کی منتظمہ پروین سعید سے گفتگو


’’کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی جادوئی چھڑی ہو کہ جس کی مدد سے کوئی غریب بھوک سے نہ مرے کہ اس بھوک میں بہت درد ہے اور اس میں کراہت، بدکرداری اور بداعتمادی بھی ہے‘‘۔یہ بناوٹ سے پاک نرم آواز مگر تلخ لہجہ میں اپنے شدید دکھ کا اظہار کرنے والی پروین سعید ہیں جو گزشتہ 14 سال سے ’’کھانا گھر‘‘ جیسا فلاحی ادارہ چلا کر محنت کش غریبوں کی بھوک مٹانے کا فریضہ بہت محنت اور دلسوزی سے عبادت کی طرح انجام دے رہی ہیں۔ میک اپ سے یکسر پاک چہرہ، معمولی سوتی کپڑے پہنے اور غریبوں کی بستی میں گھل مل کر رہنے والی پروین کی زندگی کا مقصد غریبوں کو انتہائی ارزاہ قیمت (3 روپے) میں پیٹ بھر کھانا فراہم کرنا ہے۔ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں اتنی کم قیمت میں پیٹ کی آگ بجھانا معمولی کارنامہ نہیں لیکن منکسر المزاج پروین سعید بمشکل ہی اس بات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں کہ انہوں نے کوئی اہم اور قابل تحسین فریضہ انجام دیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل کو خدا کی جانب سے سونپی ذمہ داری سمجھ کر ادا کررہی ہیں کہ ’’یہ تو اﷲ ہی چلا رہا ہے‘‘:
نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا ملک ہے۔ حالیہ یعنی 2015ء کے گوشوارے کے مطابق اسکی آبادی 18 کروڑ سے تجاوز (188,144,040) کرچکی ہے۔ گنجان آبادی کے اس خطہ کو کثرتِ آبادی کے علاوہ جہالت، چور بازاری، حکمرانوں کی بدعنوانی کے باعث بھوک کے عفریت کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے یہ وہ پاک سرزمین ہے کہ جہاں بھوک کے ہاتھوں پسپا ہونیوالے والدین کبھی اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہیں تو کبھی یہ بھی نوبت آجاتی ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے ان کا گلا گھونٹ کے موت کی چادر اوڑھا رہے ہیں تاکہ ان کے پیاروں کو ہمیشہ کیلئے بھوک سے نجات مل جائے۔ یقیناً یہ صورتحال شرمناک اور انتہائی افسوسناک ہے۔ اس شدید بے حسی اور انسانیت کی پامالی کے دور میں پروین جیسے باضمیر اور حساس افراد انسانیت کیلئے تحفہ نہیں تو اور کیا ہیں؟ پروین کی محنت اور عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کی ادنیٰ سی سعی یہ انٹرویو ہے جو امریکہ سے پاکستان ٹیلیفون کی مدد سے انجام پایا۔

س :۔ پروین سب سے پہلے تو میں آپ کا ازحد شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے اپنی اتنی مصروفیت کے باوجود انٹرویو کیلئے وقت نکالا۔ آپ کا ’’کھانا گھر‘‘ کا قیام ایک قابل داد کام ہے، اسکی مبارکباد قبول کریں۔ اس کام کی تفصیل میں جانے سے پہلے اپنے خاندانی پس منظر کے متعلق کچھ عرض کریں؟
ج:۔ میرے والد محمد سعید ٹی اینڈ ٹی میں ڈائریکٹر تھے جبکہ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ میرے والدین بہت اچھے انسان تھے۔ ہم نے اگر اپنے والد کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتے دیکھا تو دوسری جانب ہماری والدہ کی بھی دوستیاں اور محلہ داریاں بہت تھیں۔ ہمارے گھر میں بچھے تخت اور اسکے اطراف کرسیاں تھیں کہ جہاں آنے جانے والوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ امی سب کی خاطرداریاں کرتیں، پان کھلاتیں، چائے پلائی جاتی اور باتیں ہوتی رہتیں۔ میرے والدین ہمیشہ ہی دوسروں کی خبرگیری اور دلجوئی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عادات اور طور طریقوں کا اثر ان کی اولادوں میں بھی آیا۔ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔

س :۔ کچھ اپنے تعلیمی کوائف بتائیں؟
ج:۔ میں نے پی ای سی ایچ اسکول اور بعد میں اسی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ گریجوایشن کے بعد کراچی یونیورسٹی سے 1982ء میں جرنلزم میں ایم اے کیا۔ گو باقاعدہ جرنلزم (صحافت) پریکٹس کرنے کی نوبت نہیں آسکی کیونکہ جلد ہی شادی ہوگئی تاہم میں نے جنگ، جسارت اور ایکسپریس جیسے اخبارات کیلئے کچھ کالمز ضرور لکھے۔ میرے شوہر کا نام خالد سعید ہے۔ اس طرح میں ان خواتین میں شمار ہوتی ہوں کہ جن کا نام کبھی نہیں بدلا۔ شادی سے پہلے والد کے نام کا حصہ بھی سعید تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے شوہر خالد سعید کی میرے ہر کام میں سپورٹ شاملِ حال رہی ہے۔ شادی کے بعد میں فیڈرل بی ایریا کے علاقہ میں منتقل ہوگئی جہاں میری پہلی بیٹی ہوئی لیکن جانے کیوں میں شہر سے دور علاقہ میں رہنے پر مُصر تھی جبکہ عموماً لوگ پسماندہ علاقوں، جہاں غربت اور جہالت ہو، میں منتقل ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ اس طرح ہم سُرجانی ٹاؤن میں بس گئے جو معاشی طور پر پسماندہ تھا کہ جہاں غربت اور جہالت ہے۔ 27 سال یہاں رہنے کی وجہ سے ہم وہاں رچ بس گئے اور اسکی وجہ سے مجھے یہاں کے افراد کے مسائل کا اچھی طرح اندازہ ہوا۔ آج میں جب پلٹ کر دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اگر وہاں بسنے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو مجھے بہت سی باتوں کا علم ہی نہ ہو پاتا۔ غالباً قدرت مجھے بعد میں انجام دئیے جانے والے رفاہی کاموں کیلئے تیار کررہی تھی۔ یہیں سرجانی ٹاؤن میں میری دوسری بیٹی بھی پیدا ہوئی۔ اس طرح میری دو بیٹیاں جویریا سعید اور سمیرا سعید ہیں۔ ایک بیٹی کی گریجوایشن کے بعد شادی ہوگئی جبکہ دوسری نے ایم بی اے کیا ہے اور ابھی غیرشادی شدہ ہے۔ یہ دونوں ہی بیٹیاں میری مدد کرنے کی بہت کوشش کرتی ہیں۔

س :۔ ’’کھانا گھر‘‘ کے قیام کا کیا محرک تھا؟
ج:۔ یہ تقریباً 14 سال قبل 2002ء کا واقعہ ہے کہ جب سرجانی ٹاؤن میں رہنے والی ایک عورت نے اپنے دو بچوں جن کی عمریں 4 اور 8 سال کی تھیں، ان کے منہ پر تکیہ رکھ کے مار دیا۔ میں اسی علاقے (سرجانی ٹاؤن، کراچی) میں رہتی تھی۔ جب میں اسکے گھر گئی اور اس سے سوال پوچھا ’’تم نے بچوں کو کیوں مار دیا؟‘‘ تو پہلے تو اس نے جواب نہیں دیا، پھر دوبارہ سوال دہرایا تو اس نے جواب میں صرف ایک جملہ کہا ’’جب تمہارے بچے بھوکے ہونگے اور وہ بلبلائیں گے تو تم بھی انہیں ایسے ہی مار دو گی‘‘۔ اس واقعہ نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ مجھے احساس ہوا کہ بھوک کتنی خطرناک شے ہے جو ماں کی محبت کو مار دیتی ہے، بچوں کو ختم کرسکتی ہے۔ اس وقت میں نے اور میرے میاں نے سوچا کہ ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ یہی وہ موڑ تھا کہ ہماری زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی، حالانکہ اس واقعہ سے پہلے بھی میں گھر میں روزانہ بہت زیادہ کھانا پکا کر لوگوں کو بلا کر کھلاتی رہتی تھی۔ میرے شوہر کی آدھی تنخواہ کھانے پر صرف ہوجاتی۔ میں یہ احساس دلائے بغیر کہ میں ان کی مدد کررہی ہوں انہیں بلاناغہ کھانا کھلاتی تھی لیکن اس واقعہ کے بعد ہم نے ’’کھانا گھر‘‘ شروع کرنے کی ٹھان لی۔

س:۔ ابتدا میں سرمایہ کاری کیسے کی؟
ج:۔ ہم نے سرجانی ٹاؤن میں ہی اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت بہن بھائیوں، خاندان والوں اور دوستوں کے عطیہ (تقریباً 10 ہزار روپے) سے اس ’’کھانا گھر‘‘ کا آغاز کیا۔ کچھ لوگوں نے چیزیں بھی فراہم کیں۔ ایک سال تک ہم اسی علاقے میں کام کرتے رہے پھر کام بڑھا تو سرجانی ٹاؤن سے کچھ فاصلہ پر واقع ’’خدا کی بستی‘‘ کے علاقہ تاثیر ٹاؤن میں ایک ڈھابے (جھونپڑی نما ہوٹل) کا آغاز کیا۔ اس غریب مزدور بستی میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور ’’کھانا گھر‘‘ سے کھانا خرید کر کھاتے۔ اس وقت ایک پلیٹ سالن اور ایک روٹی کی قیمت ڈیڑھ روپے تھی۔ ایک روٹی کے بعد سالن جتنی بار بھی لیں مفت ہوتا ہے لیکن اب اس کھانے کی قیمت بڑھ کر 3 روپے ہوگئی ہے۔

س:۔ یہ ابھی بھی خاصا سستا ہے، اتنے کم پیسے میں کیا کچھ فراہم کرتی ہیں؟
ج:۔یہ کھانا غذائی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے پکایا جاتا ہے مثلاً دال، سبزی، کابلی چنے کا سالن، کڑھی، گوشت کا سالن اور ان کے ساتھ ایک عدد روٹی، ابتدا میں کھانا میں پکاتی تھی، بعد میں ایک خاتون کو اس کام پر مامور کیا ہے جبکہ تین مرد حضرات تنور پر روٹی بناتے ہیں۔ اب ہمارے دو ’’کھانا گھر‘‘ ہیں، خدا کی بستی اور اسکے علاوہ اورنگی ٹاؤن میں، کھانے کی مقدار علاقہ کی ضروریات کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔ سینٹرز بنانے کیلئے پیسہ درکار ہوتا ہے لہٰذا ہم نے پک اپ پوائنٹ بنالئے ہیں جہاں لوگوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ کھانا آئے گا لہٰذا ضرورتمندوں کی قطاریں منتظر رہتی ہیں۔ اس وقت 12 افراد پر مشتمل عملہ دونوں ’’کھانا گھر‘‘ کے انتظام پر مامور ہے جو تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔

س:۔ پروین گو تین روپے دام بہت کم ہیں مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر مدد کرنا ہی ٹھہرا تو بالکل مفت ہی کیوں نہیں جیسے یہاں لنگر لگتے ہیں؟
ج:۔ قیمت مقرر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ محنت کریں اور خرید کر کھائیں۔ اس سے انہیں اچھا محسوس ہوگا اورانکی عزتِ نفس بھی مجروح نہیں ہوگی کہ وہ خیرات میں دیا کھانا کھا رہے ہیں تاہم جو بالکل دینے سے قاصر ہیں ہم ان کو مفت کھانا دیتے ہیں۔

س:۔ تقریباً کتنے افراد ’’کھانا گھر‘‘ سے مستفید ہو رہے ہیں؟
ج:۔ یہ تعداد تقریباً 3 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے اور چونکہ حکومت کی طرف سے کوئی انتظامات نہیں اور مہنگائی اور بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے اس لئے تعداد بڑھتی ہی جائے گی۔

س:۔ اس بڑھتی بھوک کا ہمارے ملکی حالات سے کس قدر تعلق ہے؟
ج:۔ ہمارے ملک میں غربت جس تیزی سے بڑھی ہے اس میں ہر کردار منفی ہوگیا ہے۔ یہ پہلو ہی ختم ہوگیا ہے کہ عام آدمی کو کوئی ریلیف (سکون) ملے۔ بھوک جرائم کو جنم دیتی جو خودکشی، چور بازاری، منشیات اور اسٹریٹ کرائمز کو بڑھا رہی ہے۔ میں نے اس بھوک کی خاطر اپنی آنکھوں سے شریف لوگوں کو غلط کاموں کی طرف جاتے دیکھا ہے۔ لڑکیاں جسم فروخت کررہی ہیں اور لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے سیاسی کرداروں کے ایک ایک نہیں کئی کئی گھر ہیں کہ جن کے اندر زمین میں پیسے دفن ہیں لیکن کیا ہو کہ دل تو ان کے سخت ہوچکے ہیں۔

س:۔ اس بھوک کے خاتمہ کیلئے کیاکرنا ہوگا؟
ج:۔ سوچ میں تبدیلی معاشرہ میں رہنے والے عام آدمی سے لیکر ایوانِ بالا تک۔ آخر آئی ایم ایف کا قرضہ اور ورلڈ بینک کا پیسہ جو ملکی ترقی کیلئے لیا جاتا ہے، کہاں جاتا ہے؟ اربوں کھربوں کی زکوٰۃ سے غریب بستیوں میں فیکٹریاں کیوں نہیں لگائی جاسکتیں؟ اس طرح نوکریاں نکلیں گی، آخر کیا ہو جب نوکریاں نہیں، کھانا پینا اور ٹرانسپورٹ اس قدر مہنگا ہوجائے، تصور کریں دال، آل اور سبزیاں کے دام، محض پیاز ہی 50 روپے کلو اور ٹماٹر 80 روپے کلو بک رہے ہیں۔ حکومت کے اختیار میں ہے کہ پیسہ باہر بھیجنے کے بجائے پہلے ملکی ضروریات کو پورا کرے۔ دو ہزار روپے کی آٹے کی بوری ہے۔ لنڈا بازار میں کہ جہاں پرانے کپڑے ملتے ہیں سو فیصد دام بڑھا دئیے گئے ہیں۔ سمسٹر کی فیسیں اتنی ہیں کہ ہم ذہین بچوں کی کفالت نہیں کرسکتے اور ادھر یہ حکمران ان کا بس چلے تو سانسیں بھی کھینچ لیں۔ کسی کسی دن میں نماز میں رو پڑھتی ہوں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی جادوئی چھڑی ہو کہ جس کی مدد سے کوئی غریب بھوک سے نہ مرے کہ اس بھوک میں بہت درد ہے اور اس میں کراہت، بدکرداری اور بداعتمادی بھی ہے۔ میں ان سیاستدانوں سے پوچھتی ہوں کہ کیا انہوں نے کبھی بھوک کے درد کو محسوس کیا ہے۔ اگر اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھیں تو کیسا محسوس ہوتا؟ حکومت بڑے منصوبوں کے خواب تو دکھاتی ہے مگر عملی قدم نہیں اٹھاتی۔

س:۔ اس ہوشربا مہنگائی کا اثر آپکے ادارہ پر بھی تو پڑتا ہوگا؟
ج:۔ جی ہاں جبھی تو ڈیڑھ روپے سے شروع ہونے والے کھانے کے دام اب تین روپے ہے۔ آٹے کا کرائسس ہے، شروع کیا تو آٹے کی (80 کلو گرام) بوری 450 روپے کی تھی اب دام 2 ہزار سے تجاوز کرچکے ہیں۔ (50 کلوگرام 2100 روپے میں) ضرورت زیادہ اور وسائل کم ہیں۔ کھانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن خدا کی مہربانی سے گزشتہ 14 سال سے سلسلہ جاری ہے۔

س:۔ مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے دور میں یہ سب کس طرح جاری ہے؟
ج:۔ ہم مذہب کی تفریق کے چکروں میں نہیں الجھتے، ضرورتمند کیئے ’’کھانا گھر‘‘ کھلا ہوا ہے۔ بھوک ہر مذہب و مسلک کے لوگوں کا مسئلہ ہے صرف مسلمانوں کا نہیں، کبھی ہمارے معاشرے میں اسلامی اقدار کی بنیاد پر انسانیت تھی لیکن اب جتنی خرابیاں ایک معاشرے میں ہوسکتی ہیں وہ ہم میں موجود ہیں۔ ہم ذلت و پستی کا شکار ہیں اور برائیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا مذہب انسانیت کا ہے، جن معاشروں نے انسانیت کو اپنایا وہ قومیں ترقی کررہی ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ زندگی میں تو رُلتے ہیں ہی مرنے کے بعد بھی جسم پر کفن پہنانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ غریب مر جائے تو قبر خریدنے تک کے پیسے نہیں۔ نیوکراچی میں قبر چھ، سات ہزار میں بنتی ہے تو سخی حسن کے علاقہ میں 50 ہزار کی۔ ان سب باتوں میں کرب ہے اور بلا کا دکھ، اسکو سمجھنے کیلئے ایک حساس دل چاہئے لیکن ہم تو یہ بھی نہیں سوچتے کہ پڑوسی بھوکا ہے یا نہیں، پیسہ جائز ہے یا ناجائز…… حکومت کا یہ حال کہ بجلی مہنگی ہوتی جا رہی ہے پھر بھی 24 گھنٹے اسکی آنکھ مچولی چل رہی ہوتی ہے۔

س:۔ رمضان میں آپ کی کارکردگی کیا ہوتی ہے؟
ج:۔ رمضاں میں ہم خاندانوں کو راشن فراہم کرتے ہیں۔ جس کا سامان گھر میں لاکر پیک کرتے ہیں۔ طریقہ کار اس طرح ہے کہ رمضان سے دو ماہ پہلے سے شناختی کارڈ کی بنیاد پر ’’کھانا گھر‘‘ راشن کارڈ بنتا ہے اور اس طرح رمضان سے دوماہ پہلے ’’کھانا گھر‘‘ کا یہ کارڈ ہزار خاندانوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ ہم شلوار قمیض کے جوڑے بھی بانٹتے ہیں۔ اس موقع پر کپڑوں کیلئے بہت جنگ ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ایک سے دوسرا جوڑا نہیں ہوتا، خصوصاً بچوں کے چہرے قابل دید ہوتے ہیں۔ ہمارے اس کام میں لوگ معاونت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے میں سمجھتی ہوں کہ انسانیت زندہ ہے۔ گو ہم نے ابتدائی کئی سال بہت جدوجہد کے گزارے ہیں لیکن اب خدا کا شکر ہے، ہم اکیلے تو کچھ نہیں کرسکتے تھے۔

س:۔ پروین یہ آپ کا کام ہے جس کیوجہ سے لوگوں کا اعتماد آپ پر بڑھا۔ عطیات کا حساب کتاب کس طرح شفاف چل رہا ہے؟
ج:۔ ہم چیمہ اور سیلانی کی طرح بڑے پیمانے پر کام نہیں کررہے۔ ہمارا ادارہ چھوٹا سا ہے جس میں تنظیم کار میرے بچوں کی طرح ہیں۔ ہمارے پاس جتنے بھی عطیات آتے ہیں انکا ریکارڈ موجود ہے۔ شروع میں ہم اپنے ڈونرز کو ایک سامان کی رسید دکھاتے تھے، بعد میں ان لوگوں کا ہم پر اعتماد قائم ہوگیا ہے۔ ہم اپنا ہر چیز کا ریکارڈ شفاف رکھتے ہیں اور کوئی کسی قسم کی بھی رسید چیک کرسکتا ہے۔

س:۔ پروین آپ کا یہ مشن خاصا مشکل ہے اور شاید کبھی نہ ختم ہونے والا بھی، یہ بتائیں آپکی طاقت کا ذریعہ کیا ہے اور آپکی تفریح یا شوق کیا ہیں؟
ج:۔ میری طاقت خدا پر یقین ہے، جو کام ہے اﷲ کیلئے ہے، اسکے علاوہ انبیاء، اولیاء اور صحابہ اکرامؓ کی زندگیوں سے روشنی ملتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ سب سے بڑا مذہب انسانیت کا ہے۔ میں ہمیشہ سے کتابوں کی شوقین تھی، ناول مثلاً اداس نسلیں، آگ کا دریا وغیرہ تو شروع کالج کے دنوں میں پڑھ لی تھیں۔ شاعری میں احمد فراز بہت پسند ہیں لیکن سچ پوچھئے اب وقت ہی نہیں ملتا۔ اب تو سب سے بڑی تفریح یہ ہے کہ محلے میں لوگوں کے درمیان بیٹھ کر خوش ہوتی ہوں۔ ان سے باتیں کرکے، ہلہ گلہ کرکے، یہ لوگ جب آپ کو قریب سمجھتے ہیں تو دل کی بات بھی کرتے ہیں، انکی باتوں کو سننے کیلئے مجھے ان جیسا ہی بننا ہوتا ہے۔ میری دوست مذاق بھی اڑاتی ہیں کہ میں پڑھی لکھی نہیں لگتی، زمین پر سب کے درمیان بیٹھ کر لوگوں میں گھل مل بھی جاتی ہوں مگر مجھے اسکی پرواہ نہیں۔ میں لان اور کاٹن کے معمولی کپڑے پہن کر شادی میں جاتی ہوں، اگر کسی جگہ کسی کو میرے کپڑے پسند آجاتے ہیں تو میں اسے دوسری دفعہ نہیں پہنتی وہ کسی کو مل جاتے ہیں۔ میں سادہ زبان بولتی ہوں اور میک اپ وغیرہ نہیں کرتی۔

س:۔ ان مضافاتی بستیوں میں بھوک کے علاوہ بھی مسائل ہیں مثلاً تعلیم، صحت وغیرہ؟
ج:۔ جی ہاں اسکو محسوس کرتے ہوئے ہم نے 2003ء میں کلینک کھولی تھی، سعید میڈیکل سینٹر کے نام سے جس کے دوا گھر میں 10 روپے میں طبی سہولیات مہیا ہیں۔ ہم نے علاقہ میں ہسپتال بھی بنایا مگر کھول نہ سکے، وجوہات کا ذکر کیا کیا جائے، خاموشی بہتر ہے، گو اس میں دکھ اور احتجاج ہے۔

س:۔ بھوک مٹانے کے مشن کے سلسلے میں کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
ج:۔ بھوک کو شکست دینے کیلئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بھوک ہی سارے جرائم کو جنم دیتی ہے۔ چاہے چھوٹی سی رقم یا ایک مٹھی آٹا ہی سہی اس بھوک کو مٹانے میں دے سکتے ہیں تو دیں۔ ایک بڑی رقم ایک دفعہ کے بجائے کم لیکن مستقل رقم زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ مستقل ہوگی۔ پاکستان ہماری پہچان ہے، جب تک حکومت اور مختلف ادارے اور عوام ایک دوسرے کے قریب نہیں آئیں گے اس وقت تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ متحد ہوں تاکہ ملک ترقی کرے۔

س:۔ پروین آپ کا کہا ہوا جملہ بہت متاثر کن اور درست ہے کہ ’’اگر پاکستان کا ہر خاندان ایک مٹھی آٹا خیرات کردے تو کسی کو فاقہ کی نوبت نہیں آئے گی‘‘ لیکن اگر کسی کو آپکی غیرمنافع بخش آرگنائزیشن ’’کھانا گھر‘‘ جو حسن سعید ویلفیئر ٹرسٹ کا ایک منصوبہ ہے، کی مدد کرنا ہو تو اسکا کیا طریقہ ہے؟
ج:۔ ہمارا فون نمبر ہے +923009212136 ہمارا ویب پتہ ہے
http://www.khanaghar.com اسکے علاوہ ہمارے فیس بک پیج پر بھی آپ ادارہ کی مدد کرسکتے ہیں۔
……٭……٭……


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).