ہاسٹل کی زندگی


ہاسٹل کی یادوں میں اور بھی کئی قابل ذکر باتیں ہیں۔ مثلاً راتوں کو دیر سے سونا، اونچی آواز سے موسیقی سننا۔ یونیورسٹی کی بسوں پر خریداری کے بہانے انارکلی اور لبرٹی جانا، نوٹس دینے کے بہانے پریوں کے مسکن یعنی صنف نازک کے ہاسٹل جانا، ٹی وی ہال میں واحد چینل پی ٹی وی پر پاک بھارت میچ دیکھنا اور وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ ہونا۔ کینٹین پر چائے کے بہانے کافی دیر بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہنا۔ ہاسٹل میں ٹیبل ٹینس اور کرکٹ کھیلنا۔ امتحانوں کے دنوں میں پڑھنا اور صرف پڑھنا، کرائے پر وی سی آر لانا اور بھارتی فلمیں دیکھنا۔ پی سی او سے فون کرنا۔ برش اور صابن لے کر اجتماعی غسل خانوں میں جانا وغیرہ۔

یوں ہنستے کھیلتے اور پڑھتے پڑھاتے ڈگری کا چار سالہ دورانیہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ دورانِ تعلیم ہم سب کو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے اور عملی زندگی میں دخول کی بہت عجلت تھی؛ حتیٰ کہ ایک صاحب یونیورسٹی سے جاتے ہوئے اپنے کمرے کے دروازے پر لکھ گئے۔ ، کھیڈ مک گئی اے یعنی کھیل ختم ہو گیا ہے۔ حالانکہ بادی النظر میں دیکھا جائے تو کھیل کا ابھی آغاز ہوا تھا کیونکہ عملی زندگی کی مشکلات اور مسائل کے مقابلے میں تو یونیورسٹی اور ہاسٹل کی زندگی تو محض کھیل تماشا ہے۔

یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ایک دفعہ میرا ہاسٹل جا نے کا اتفاق ہوا۔ ہر چیز ویسے کی ویسے تھی لیکن پھر بھی اپنائیت کا احساس مفقود تھا۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ مکان کی اہمیت تو مکین سے ہے۔ اب نہ تو وہ شنا سا چہرے ہیں اور نہ ہی قریبی دوست اور بے تکلف ہم جماعت۔ وہ خوش کن سمے بیت گئے ہیں۔ وقت آگے بڑھ چکا ہے اوراب صرف بے جان در و دیوار میرا منہ تک رہے ہیں۔ اس لئے ایک بے نام الجھن سی ہے جو اداس دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔

مختصر یہ کہ ہا سٹل کی زندگی ایک بہترین معلم ہے جو بیش بہا اسباق دیتی ہے اور آپ کو خام آدمی سے پختہ انسان بناتی ہے۔ اس لئے موقع ملے تو بچوں کو ضرور ہاسٹل بھیجنا چاہیے تاکہ انھیں عملی زندگی کی تربیت حاصل ہواور وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2