ہاسٹل کی زندگی


1996 ء میں ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد میرا داخلہ یو ای ٹی کے الیکٹریکل انجنیرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ہوا۔ ستمبر 1996ء میں باقاعدہ کلاس کا آغاز ہونا تھا اور میں نے یو ای ٹی کے ہاسٹل میں رہائش اختیار کرنی تھی۔ نقل مکانی کی تیاری شروع ہوئی اومیں ضرورت کا سامان اکٹھا کرنے لگا۔ گھر میں والد صاحب کا ملکیتی ایک عدد بستر بند پڑا تھاجو ان کی جوانی کی یادگار تھا۔ اگرچہ بستر بند کی حالت مخدوش تھی لیکن وہ قابل استعمال حالت میں تھا۔ ابو نے شفقتِ پدرانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ قدیم بستر بند مجھے عنایت کیا۔ میں نے بصدِاحترام اس بستر بند میں اپنا بستر باندھا۔ بقیہ اشیائے ضرورت کو ایک سفری تھیلے میں ترتیب دیا۔ ابونے کچھ زادِراہ بھی عطا کیا۔

روانگی کا دن آ پہنچا اور میں سامان لے کر ڈیرہ نواب صاحب (ضلع بہاولپور) ریلوے اسٹیشن جا پہنچا۔ اس زمانے میں ریل گاڑی کا سفرنسبتاً آرام دہ تھا۔ خیبر میل کے ارزاں ترین (اکانومی کلاس)میں سوار ہوا اور لاہور کی راہ لی۔ دس گھنٹوں کے سفر کے بعد لاہورپہنچا۔ ریلوے اسٹیشن کے باہر ویگنوں کا اڈا تھا۔ وہاں سے 12 نمبر ویگن پر سوار ہوا جو گڑھی شاہوسے براستہ جی ٹی روڈ واہگہ تک جاتی تھی۔ یونیورسٹی سٹاپ پرویگن سے ا ترگیا۔ یونیورسٹی کے گیٹ نمبر6 کے ساتھ واقع عمر ہال میں میری الاٹمنٹ تھی۔

ہاسٹل پہنچا تو یہ ہاسٹل جائے رہائش سے زیادہ ازمنہ وسطیٰ کا کوئی عقوبت خانہ محسوس ہوتا تھا۔ خوش قسمتی سے میرے لئے جو کمرہ مختص کیا گیا وہ دو نشستی یعنی بائی سیٹر(Bi-seater)تھا۔ میں کمرے میں پہنچا تو وہاں دو آہنی چارپائیاں دھری تھیں۔ اولین مسئلہ یہ در پیش ہوا کہ ان چارپائیوں کی نوار کثرتِ استعمال کی وجہ سے کافی ڈھیلی تھی اور چارپائیاں سونے کی بجائے صرف جھولنے کے کام آسکتی تھیں۔ چارپائی کی مرمت ازحد ضروری تھی کیونکہ نشست و برخاست کے لئے کمرے میں صرف ایک عدد آ ہنی کرسی تھی لیکن اس پر بیٹھنے سے سرین کے مجروح ہونے کا خطرہ تھا۔

چارپائی کسنے کے لئے میری نگاہ انتخاب ہاسٹل کے خدمتگار پر پڑی لیکن مجھے اس کو اپنا مدعا سمجھانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاستی ہونے کی وجہ سے میری پنجابی گلابی تھی اور اس غریب کی اردو۔ وہ بیچارہ چارپائی کالفظ سمجھنے سے قاصر تھا۔ میں نے چارپائی کے لئے سرائیکی میں مستعمل لفظ۔ کھٹ استعمال کیا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ آخرکار میں نے چارپائی کی طرف اشارہ کر کے اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ صاحب اسے منجی کہتے ہیں۔ آغاز میں اور بھی بہت سے الفاظ سمجھنے میں مغالطہ ہوا جیسے پنجابی کا لفظ گال۔ پنجابی کی گال بمعنی گالی اور سرائیکی کے لفظ گالھ میں کافی صوتی مماثلت تو ہے لیکن معنوی بُعد ہے۔

ہاسٹل میں میرے ہم حجرہ ڈیرہ غازی خان کے ایک لغاری صاحب تھے۔ اس وقت صدرِ مملکت بھی ایک لغاری یعنی فاروق لغاری تھے۔ وہ موجودہ صدر کے برعکس ایک دبنگ صدر تھے جن کے پاس آٹھویں آئینی ترمیم کی صورت میں مجلسِ شوریٰ کی تحلیل کا صوابدیدی اختیار بھی تھا۔ اکژملازمین ہمارے لغاری صاحب کو صدر لغاری کا قریبی عزیز سمجھتے تھے اور ان سے خصوصی برتاؤ کرتے تھے اور لغاری صاحب بھی اس غلط تاثر کو زائل کرنے کی چنداں کوشش نہیں کرتے تھے۔ مجھے اس امتیازی سلوک کا قلق تو تھالیکن اپنا حسب نسب منتخب کرنے میں میں قطعی بے بس تھا۔

ہاسٹل میں کئی طلباء کو چوبیس گھنٹے جینز چڑھائے دیکھا حتیٰ کہ سوئے ہوئے بھی۔ اگرچہ اس تنگ و تاریک لباس سے میں بھی آشنا تھا لیکن خال خال ہی پہنتا تھا کیونکہ اس کے پہننے سے نچلا دھڑ قید با مشقت میں جکڑا جاتا ہے اور جلد از جلد باعزت رہائی کی تمنا کرتا ہے۔

میں گھرسے دیسی ناشتے کا عادی تھا۔ کبھی کبھار امی ڈبل روٹی کو شہد اور ملائی لگا کر سینڈوچ کی صورت میں دے دیتی تھیں۔ یہاں آکرسینڈوچ کی ایک نئی ہیئیت سے پالا پڑا جس میں باہر ڈبل روٹی تو وہی تھی لیکن اندر ایک سفید چکنا آمیزہ بھرا ہے جسے مایونیز کہتے ہیں۔ لیکن اس فرنگی غذا سے میرا دل تو آج تک صنم آشنا نہیں ہو سکا۔

اب ذرا میس یعنی طعام گاہ کا بھی حال سن لیں جہاں تناول ما حضر کا انتظام تھا۔ میس میں حا ضری سسٹم تھا۔ عموماً ظہرانے میں حیوانی غذائیں پکتی تھیں جیسا کہ بہت بڑے گوشت کی کڑاہی اورنو عمر مرغیوں کا قورمہ وغیرہ اور ننھی سی رکابی (پلیٹ) میں پیش کی جاتی تھیں۔ اضافی بھوک کی صورت میں دال رقیق بمثل آب تناول کی جا سکتی تھی۔ عشائیے میں نباتاتی غذاوں کا انتظام ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر دال مونگ، دال مسر، دال ماش، دال چنا، دال کدو، دال ٹینڈے، دال چاول اور دال دلیہ وغیرہ۔ مختصر یہ کہ دال کا دور دورہ تھا۔ میس میں ماہانہ بنیاد پر ایک سرپرائز ڈش یعنی عجب طعام کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ اس دن ہاسٹل کے باسیوں کی تواضع باسی برگر اور گرم بوتل سے کی جاتی۔ ساتھ چپس یعنی آلو کے تلے ہوے قتلے پیش کیے جاتے۔ سرما میں تلی ہوئی مچھلی بھی ہوتی لیکن اس ماہی بے آب کا ظہور شاذرو ناذر ہی ہوتا تھا۔

ہاسٹلوں کے قریب ہی ایک بہت بڑی کینٹین تھی جیے بھولا کینٹین ( پنجابی میں پولا کینٹین ) یا مختصراً پی سی بھی کہا جاتا تھا۔ یہاں سے صبح کا ناشتہ یعنی انڈا پراٹھا ملتا تھا۔ ایگ فرائی یعنی تلے ہوئے انڈے کی کئی قسمیں مہیا تھیں جیسے پورا تلا ہوا ( فل فرائی)، آدھا تلا ہوا (ہاف فرائی) اور پونا تلا ہوا یعنی پونا فرائی۔ اس کینٹین کی خاص بات یہ تھی کہ صرف سالن کی قیمت ادا کرنی ہوتی تھی اور روٹیاں جتنی مرضی کھائیں۔ مرغی کے سالن کی قیمت اور چائینزرائس کی قیمت بیس روپے تھی اور سبزی یا دال کی قیمت صرف دس روپے۔ اضافی سالن یعنی سپلی منگوانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ کینٹین کی ایک خاص سوغات سپئیرپارٹس یعنی اضافی اعضا کا سالن تھا جس کی قیمت پندرہ روپے تھی۔ چکن کی گردن، جگر، گردے اور پوٹے یعنی معدے پر مشتمل یہ سالن بھی کافی مقبول تھا۔

اس وقت پنجاب فوڈ اتھارٹی جیسا ادارہ معرض ِوجود میں نہیں آیا تھا اس لئے ہاسٹل کے کھانوں کی صفائی کا معیار کافی برا تھا۔ جیسے ایک دفعہ میرے چاولوں کی رکاب میں سے جھینگربرآمد ہوا شاید یہ کسی ناہنجار باورچی نے چاولوں میں پروٹین یعنی لحمیات کی کمی پوری کرنے کے لئے ڈالا تھا۔ ایک اور موقع پر میرے آلو پالک کی تھالی میں سے بلیڈ نمودار ہوا شاید یہ فولاد کی کمی دور کرنے کے لئے کسی نے ڈالا تھا۔ ہاسٹل میں ہمارا پہلا ہی سال تھا۔ اور بمشکل دو ماہ پڑھائی ہوئی ہوگی کہ رضائی چھٹیوں کا غلغلہ مچ گیا۔ ہاسٹل کے چند تیز طرار لٹرکوں نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے رضائیاں لینے کے لئے گھروں کو جانے کا فیصلہ کیا اور دو ہفتے کے لئے چھٹی کروالی۔

اس وقت یونیورسٹی کے حالات دگر گوں تھے۔ چار سال کی ڈگری کی چھ سالوں میں تکمیل ہوتی تھی۔ متحارب طلبہ تنظیموں مثلاً ایم ایس ایف اور اسلامی جمعیت طلباء کے باہمی جھگڑے بھی عروج پہ تھے اور کئی کئی ہفتے یونیورسٹی متشدد ہنگاموں کی وجہ سے بندرہتی۔ ان حالات سے تنگ آکر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ایک ریٹائرڈ جنرل کا بطور وائس چانسلر یونیورسٹی میں تقرر کیا۔ جنرل صاحب نے یونیورسٹی میں نظم و ضبط کو پروان چڑھایا اور خود سر عناصر کی حوصلہ شکنی کی۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے ہمارا ہی پہلاسیشن تھا جس نے چار سال میں ڈگری مکمل کی۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2