بنجر ہوتا پاکستان


 

وطن عزیز پانی اور بجلی کے جن سنگین بحران سے گزر رہا ہے اس سے ہمارے زرعی اور صنعتی معیشت  بری طرح متاثر ہوتی جا رہی ہے۔ بلکہ قوم کا ایک ایک فرد اور پورا معاشرہ اس عذاب سے دوچار ہونے جا رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کالا باغ  ڈیم کے پانی کو ذخیرہ کر کے ہم اپنی بجلی کی پیدوار اور زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔ پاکستان  پچھلے چند سالوں سےلوڈشیڈنگ کے بحران میں گھراہوا ہے۔ ہمارے پاس کھپت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایک تو بڑھتی ہوئی آبادی ہے، اور دوسرا انڈیا سے جو دریا گزر کر آتے ہیں ان پر انڈیا  کاڈیم بناناہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں پر پانی کے حوالے سے معاہدہ ہوا تھا۔ راوی ، ستلج، اور بیاس  ان دریاؤں پر انڈیا کا حق زیادہ ہو گا۔ مقبوضہ جموں کشمیر سے نکلنے والے دریا جہلم، سندھ اور چناب کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ جن دریاؤں کا پانی پاکستان نے استعمال کرنا تھا اس پر بھی انڈیا نے ڈیم بنانا شروع کر دیے۔ اس وقت انڈیا 15 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے۔ 45 سے 61 ڈیم بنانے کی تیاری میں مصروف ہے۔ ہم درخواست ہاتھ میں لیے ورلڈ بنک کی منتیں کر رہے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت چونکہ آپ ثالث ہیں اس لیے ہماری بات تو سنیے۔

انڈیا نے  دریائے نیلم پر بننے والے  کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کر دیا۔انڈیا کے ساتھ پانی کے حوالے سے ہمارا معاہد ہ ہے ۔ لیکن اپنے دوسرے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ ہمارا کسی قسم کا معاہدہ تک نہیں ہے۔ افغانستان نے دریائے کابل پر ڈیم بنانا شروع کر دیے ہیں۔ اب تک 3 ڈیم بنا چکا ہے۔اس مشترکہ دریاؤں  پر افغانستان 12ڈیم بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔  جو کہ ایک ڈیم انڈیا اسے تحفتا بنا کر دے گا ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سات دریا مشترکہ  ہیں لیکن ان دریاؤں کے پانیوں کے بارے میں کسی قسم کا معاہدہ تک نہیں ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے  اور افغانستان کے ساتھ معاہدہ کر لینا چاہیے۔ افغانستان میں بننے والے ڈیموں پر انڈیا ،اسرئیل، امریکہ سرمایہ لگائیں گے ان کا مقصد پاکستان کو بنجر کرنا ہے۔  جب بھی پاکستان میں کالا باغ ڈیم بننے کی بات ہوتی ہے تو میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں  ۔ کہتے ہیں ہماری لاشوں پر کالا باغ ڈیم بنے کا  حکومت کو چاہیے ان کی لاشوں پر کالا باغ ڈیم بنائیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب پورا ملک لاش بن کر رہ جائے گا۔ انہی لوگوں پر  انڈیا سالانہ 15 ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعت و زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی درکار ہے۔ کالا باغ ڈیم ان ضروریات کو نا صرف پورا کر سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ ثابت ہو گا۔  ہمار االمیہ یہ ہے کہ ہم ملک کو نہیں دیکھتے اپنے صوبے کو دیکھتے ہوئے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں۔ بحرہ عرب کا دریائے سندھ میں شامل ہونا دراصل پانی کے ذخیرے کا ضائع ہو جانا ہے۔ یہ پانی ملک میں ان زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔کالا باغ ڈیم میں جمع ہونے والا پانی صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد کی زرعی زمینوں کو سیراب کرے گا جب کہ یہی پانی صوبہ سندھ کی زرعی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم منصوبے سے حاصل ہونے والے فوائد بجلی کی پیدوار3600 ،میگا واٹ ،بجلی فی یونٹ 2.5روپے، 180 ارب روپے کی سالانہ بچت، 6.1 ملین ایکٹر فٹ  پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ، سندھ کو 40 لاکھ ایکٹر فٹ اضافی پانی کی فراہمی، پنجاب کو 22 لاکھ ایکٹر فٹ اضافی پانی کی فراہمی، خیبر پختونخوا کو 20 لاکھ ایکٹر فٹ اضافی پانی کی فراہمی ، بلوچستان کو 15 لاکھ ایکٹر فٹ اضافی پانی کی فراہمی، 6 سال کی مدت میں تعمیر ہونے والا ڈیم  پانی کے اس بڑھتے مسائل کو حل کر سکتا ہے تو ہمیں یہ ڈیم ضرور بنانا پڑے گا۔

اس منصوبہ کے مخالفین اس سے حاصل ہونے والے فوائد  کی نسبت اس کے نقصانات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایک صوبہ پنجاب ہی  کالا باغ ڈیم کے حق میں ہے۔ اگر وقت پر پاکستان میں بڑھتی پانی کی قلت کے لیے اقدامات نہیں کیے گے تو وہ دن دور نہیں جب پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہو گا۔  کالا باغ ڈیم کے مخالفت کرنے والے وہ چند لوگ جن کا اس میں ذاتی مفاد ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کچھ وڈیروں ، سیاست دانوں نے  دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقے کی زمنیوں پر انہوں نے ناجائز قبضے کر رکھے ہیں اور دریائے سندھ کی اس زرخیز پٹی سے مفت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم بننے سے دریائے سندھ کا پانی حکومت کے کنٹرول میں آجائے گا نہری نظام بنے گا پانی حساب کتاب کے ذریعے مہیا کیا جائے گا۔ اس سے ان وڈیروں، سیاست دانوں کا نقصان ہو گا۔ یہی صورت حال باقی صوبوں کی ہے۔ صوبوں کے نمائندگان کو چاہیے کہ ایک بنچ پر بیٹھ کر کالا باغ ڈیم کے اختلافات کو حل کریں ۔

 ہر ڈوبتا سورج ہمارے لیے نئے نئے مسائل لے کر طلوع ہو رہا ہے۔ کسی حکومت نے اس بنیادی  مسئلے کی طرف توجہ  ہی نہیں دی اور نا ہی کسی پارٹی کے منشور میں پانی کا ذکر ہے ۔ حکمرانوں کی نظر صرف پانچ سال کے لیے  ملنے والے اقتدار پر ہوتی ہے جہاں بیٹھ کر ملکی خزانے کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھریں پھر لوٹی رقم کو باہر کے ملکوں میں سرمایہ کے طور پر لگائیں ۔ ملک پر بیرونی قرضے دن بدن بڑھتے چلے جا رہےہیں۔  اگر یہ قرضے ملک کے  معاشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیے ہوتے تو آج پانی کی سنگینی کا جو مسئلہ ہے وہ کبھی نا ہوتا۔ حکمران ملکی خزانے کا پیسہ ایسے پروجیکٹ پر لگا رہے ہیں جہاں آسانی سے اپنی تجوریاں بھر سکیں۔پانی کے بڑھتے مسائل کی وجہ سے کسان مایوس ہو کر اپنی زرعی زمین لینڈ مافیا کو بیچ رہے ہیں۔

اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو جہاں چند سال پہلے جہاں کھیت کھیلان تھے اب وہاں ہاؤسنگ سکیمیں نظر آتی ہیں۔  زراعی زمینوں کے ختم ہونے سے ہماری معیشت پر بھی اثر پڑے گا۔ بجلی کا بحران تو اپنی جگہ قحط سالی اور خشک سالی ہمارا مقدر ہو گی۔ اب وقت آگیا ہے ہمیں ہر اس شخص سے کنارہ کشی کرنی ہو گی جو ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالے، ملکی بقاء میں ہی ہماری بقاء ہے۔ہماری آنے والی حکومت سے گزارش ہے  اس سنگین  مسئلے کی طرف  اپنی توجہ دیں پاکستان کو زرعی صعنتی اور معاشی لحاظ  سے ایک مضبوط ملک بنائیں۔ اس دفعہ ملکی سرمایہ میٹرو، اوریج ٹرین، بس سروس پر لگانے کی بجائے ڈیم بنانے میں لگائیں، اگر ایسانہیں کیا گیا تو وہ  دن دور نہیں جب پاکستان، صومالیہ، افریقہ، جیسے ملکوں کی طرح قحط سالی خشک سالی کا شکار ہو گا۔ خدارا ہمیں پٹھان، بلوچ، سندھی، پنجابی سے ہٹ کر ایک پاکستانی بننا پڑے گا اگر ملک کی بقاء چاہتے ہیں تو کالا باغ ڈیم بنانا پڑے گا ۔ کالا باغ ڈیم تو اللہ تعالی کی طرف سے ایک تحفہ ہے جو قدرتی طور پر بنا ہوا ہے جہاں ہمارا زیادہ  سرمایہ  صرف نہیں ہو گا۔یہ ملک ہمارے آباؤاجداد نے بہت قربانیوں کے ساتھ حاصل کیا تھا ۔ تاکہ ہم آزاد ی کے ساتھ زندگی گزاریں سکیں۔  لیکن ہم خودغلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).