سند باد جہازی کا پہلا سفر – دبئی کا جہاز اور فرنگی حسینہ


خدا خدا کر کے جہاز کے دروازے بند ہوئے اور اس نے حرکت شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی اچانک ان فرنگی حسیناؤں کا غول کا غول اٹھا اور عین راستے کے بیچ کھڑے ہو کر اس نے عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیں۔ پہلے اچانک ایک کاغذ لہرا کر سب مسافروں کو دکھایا، پھر شاید ان پر جذبات کی شدت غالب آئی اور منہ پر ایک دھونکنی سی چڑھا کر اس سے سانس لینے لگیں لیکن بے حیائی کی حد تو اس وقت پار ہو گئی جب وہ ایک بیلٹ باندھ کر سب مسافروں کو اپنی کمر کا ماپ دکھانے لگیں۔ جہاز میں چار سو مسافر سوار تھا لیکن کوئی غیرت والا نہ تھا جو انہیں اس بے حیائی سے روکتا۔ ہم دم سادھے بیٹھے انہیں دیکھتے رہے۔

اس کے بعد ہماری لائن میں موجود حسینہ آگے بڑھی اور اس نے ہر مسافر کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ہمارے پاس پہنچ کر اس نے بزبان فرنگی کچھ کہا۔ حالانکہ ہم ہفت زبان ہیں اور اردو پنجابی سندھی فارسی عربی بلوچی انگریزی سب بول لیتے ہیں مگر وہ نہ جانے کس لہجے میں بات کر رہی تھی کہ ایک لفظ پلے نہ پڑا۔ لیکن جب اس نے بار بار اپنے ہاتھ اپنی کمر سے لا کر پیٹ پر پھیرنے شروع کیے تو ہم سمجھ گئے کہ اس کی نیت بد ہے۔ ہم نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں اور وظائف کا ورد شروع کر دیا۔ اچانک ہمارے نتھنوں میں خوشبو کے جھونکے گئے تو ہم نے پریشان ہو کر آنکھیں کھولیں۔ وہ کم بخت ہمارے اوپر جھکی ہوئی تھی۔

ہمیں یہ تو بخوبی علم تھا کہ فرنگنوں کے کردار میں کجی ہوتی ہے اور وہ چوبیس گھنٹے عریانی و فحاشی میں مشغول رہتی ہیں مگر ہمیں یہ شائبہ تک نہ تھا کہ ہمیں اس طرح شکار کیا جائے گا کہ چار سو مسافر بیٹھے یہ بے حیائی کا کھیل دیکھ رہے ہوں گے۔ قریب تھا کہ ہم اپنا گوہر عصمت بچانے کو کھڑے ہو کر چھلانگیں مارتے ہوئے اپنے آگے کی سیٹیں پھلانگ کر کسی محفوظ جگہ پر پہنچتے کہ ہمارے ساتھ والے نوجوان نے دوبارہ اس حسینہ کو کچھ کہا اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ خدا نے اس فرشتے کو اس نوجوان کی صورت ہماری مدد کو بھیجا ورنہ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ فرنگن دور ہر کر کھڑی ہوئی تو نوجوان نے ہمارے پہلو سے ایک بیلٹ برآمد کی اور ہمیں اس میں جکڑ دیا۔ ہمیں کچھ اندیشہ ہوا تو اس نے بتایا کہ یہ دم کی ہوئی بیلٹ ہے اور جب تک ہم اسے باندھے رہیں گے وہ فرنگن ہم سے دور رہے گی۔ دیس دیس کا رواج ہے صاحب۔ ازار بند مضبوطی سے باندھے رکھنے کی تو ہمیں استادوں نے تاکید کی تھی مگر ملک فرنگ میں شاید اس مقصد کے لئے بیلٹ استعمال ہوتی ہے۔

جہاز چلتے چلتے ایک جگہ رکا، پھر اس کے انجنوں کا شور بلند ہوا اور یکلخت وہ نہایت تیزی سے آگے بڑھا۔ ہم اپنی سیٹ میں دھنس گئے اور دافع بلیات وظائف کا ورد کرنے لگے۔ اچانک جہاز کے پہیوں نے زمین چھوڑ دی اور ہوا میں بلند ہو گیا۔ لیکن ایک سکون کی بات یہ تھی کہ وہ کافر فرنگیں کہیں غائب ہو گئی تھیں اور اب سرزمینِ یورپ پہنچنے تک ہماری عزت محفوظ تھی۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ہماری خام خیالی ہے۔ ابھی یورپ آنے تک بار بار ہمیں آزمائش سے دوچار ہونا پڑے گا۔

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےسند باد جہازی اور دبئی کی مقدس سرزمین کے ٹھگ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar