عمران خان، ریحام خان، جناح اور وائسرائے ہند کی بیٹی!


عمران خان کے خلاف لکھنا آسان نہیں اس کیلئے ریحام خان یا عائشہ گلالئی بننا پڑتا ہے۔ ایک بات البتہ دہرائے دیتا ہوں کہ خان صاحب کی پاکستانی سیاست میں موجودگی غنیمت ہے گو کہ خان صاحب ہر گز کوئی مثالی لیڈر نہیں۔

ایک آدمی ہوا کرتے تھے؛ جناح ! بعد میں قوم کی محبت نے قائداعظم بنا دیا۔ سنا ہے اُس کی کردارکشی کی بہت کوشش ہوئی تھی۔ لیکن ہر دفعہ سرخرو ہوئے اور آج تک عزم اور ہمت، عظمت، شرافت اور دیانت کے لہکتے ہوئے استعارے کے طور ہر پیش کئے جا رہے ہیں۔ سالوں پہلے کہیں سنا تھا کہ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیٹی نے جناح کے ہاتھوں اپنے والد اور کانگرس رہنماؤں کی بنی درگت دیکھی تو فیصلہ کیا کہ وہ اس کا کچھ کرتی ہے۔ جنگ اور محبت میں تو انگریزوں کے ہاں ویسے بھی سب کچھ جائز ہوتا ہے لہذا منصوبے پر عمل شروع ہوا۔ خوبرو دوشیزہ چھ مہینے تک جناح کے پیچھے پڑی رہی۔ تھک ہار کر آخر کہنے پر مجبور ہوئی کہ یہ شخص ایک چٹان کی مانند ہے جس کے سینے میں بھی اتر کر مجھے کچھ نہیں ملا۔

دوسری جانب ہمارے خان صاحب ہیں کہ گلالئی نامی ایک موقع پرست خاتون کی ایک پریس کانفرنس سے اُن کا فشارِ خون گر جاتا ہے۔ دوڑ کر پہنچتے ہیں پنکی صاحبہ کے پاس اور مزاروں میں عافیت اور سکون تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اب اچھا ہے کہ پنکی صاحبہ خیر سے شریک حیات بن چکی تو خان صاحب کو اُن کے پیچھے میلوں نہیں بھاگنا پڑ رہا۔

پریس کانفرنس سے تو بچ گئے کہ ہم جیسوں نے گلالئی کی وہ خبر لی کہ خان صاحب کو خود کچھ بھی نہیں کرنا پڑا۔ اب تازہ حملہ ریحام خان کی کتاب کی صورت ہوا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک کتاب ہے لیکن خان صاحب کیلئے کسی میزائل سے کم نہیں۔ میزائل جو ابھی پوری طرح فائر بھی نہیں ہوا لیکن اپنے ہدف پر تباہی کی شروعات کر چکا۔ پی ٹی آئی کے دوستوں کی حالت دیدنی ہے، سامنے کچھ ہے ہی نہیں اور فائرنگ کھول دی ہے حالانکہ ان کے تو شہ خانے میں زیادہ کچھ ہے بھی نہیں؛ انہیں سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے لیکن کیا کریں، ٹھنڈا کرکے کھانے کی تو ان کی تربیت ہی نہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ کتاب میں کیا ہے لیکن جو بھی ہے بدنیتی پر مبنی ہے ، گمراہ کن ہے، بازاری ہے، کردارکش ہے، مجرمانہ ہے، غیر اخلاقی ہے، ضرر رساں ہے، ہتک آمیز ہے، بہتان طرازی ہے، تہمت تراشی ہے، توہین آمیز ہے۔ پھر یہ اتنا واویلا کیوں، یہ اتنی بھاگ دوڑ کیسے؟ کیا محل پر کوئی آسماں ٹوٹنے والا ہے؟ یہ شوروغوغا یہ دھکم پھیل یہ گالم گلوچ! کیوں؟

دراصل ہمیں ماننا پڑے گا کہ خان صاحب بھلے ایک کرشماتی شخصیت ہوں ایک مثالی لیڈر ہر گز نہیں۔ ورنہ انہیں اپنی خلوت اور جلوت کے متعلق اتنا فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ خان صاحب ضرورت سے زیادہ بولتے بھی ہیں اور ‘کرتے’ بھی ہیں اور اسی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہیں۔ بہرحال ہم نے ہر بیلو دَ بیلٹ وار پر خان صاحب کا دفاع کرنا ہے کہ جب تک ہم پر کرم نہیں ہوتا اور کوئی ڈھنگ کا لیڈر ہمیں ارزاں نہیں ہوتا، ہمیں کسی طرح خان صاحب سے ہی کام چلانا ہے ورنہ یہ دولت کے بھوکے بھیڑیے ہمیں بھوکا مار دیں گے

 ***    ***

مدیر کا نوٹ: عامر گمریانی نوشہرہ (خیبر پختونخوا) سے تعلق رکھتے ہیں، بنیادی طور پر استاد ہیں۔ پشاور یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔ امریکہ سے سکالرشپ پر building  Peace اور Conflict Transformation میں ٹریننگ بھی کی ہے۔ کئی سرکاری اور غیر سرکاری ایوارڈ ز بھی حاصل کئے ہیں۔ روزنامہ مشرق پشاور میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ پشتو شاعری کی ایک کتاب شائع ہو چکی ہے۔ اردو نثر سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

یہ عامر گمریانی کی ہم سب کے لئے پہلی تحریر ہے۔ اختلاف رائے کی آزادی کے اصول کے تحت من و عن شائع کی جا رہی ہے۔ تاہم محترم عامر گمریانی سے درخواست ہے کہ حوالہ دیے بغیر تاریخی واقعات کے بیان سے تحریر اپنا وزن کھو بیٹھتی ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک کی پیدایش 1924ء اور دوسری کی 1929 کی تھی۔ دونوں بچیاں قائد اعظم سے بالترتیب 48 اور 52 برس چھوٹی تھیں۔ دونوں لڑکیوں کی ماں ایڈوینا بھی جناح صاحب سے 25 برس چھوٹی تھی۔ مارچ 1947ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے بن کر ہندوستان پہنچے تو قائد اعظم کی عمر 71 برس تھی۔ آپ نے اپنا تاریخی حوالہ کہاں سے لیا ہے؟ عمران خان صاحب سے وابستگی اور عقیدت آپ کا جمہوری حق ہے۔ سیاسی رائے میں اگر جوش و خروش کو دلیل اور شواہد سے توازن نہ دیا جائے تو اس سے افراط و تفریط پیدا ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).