پوسٹ کلونیل ادب کی کیا اہمیت ہے؟


پاکستان سے کینیڈا لوٹتے وقت جب میرے مارکسٹ دوست سید عظیم مجھ سے ملنے آئے تو میرے لیے جو کتاب تحفے کے طور پر لائے وہ JUSTIN EDWARDS کی کتاب POSTCOLONIAL LITERATURE تھی جسے PALGRAVE MACMILLAN PUBLISHERS نے 2008 میں چھاپا تھا۔ اس کتاب نے پچھلی چند دہائیوں کے تخلیق کردہ ادب کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کے لیے میرے ذہن میں ایک نئی کھڑکی کھولی۔ اس کتاب کو پڑھ کر ادب اور نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے جو باتیں میں نے سیکھی اور سمجھی ہیں میں ان کو اس مضمون میں رقم کرنے کی کوشش کروں گا۔

  اس کتاب کے مصنف جسٹن ایڈورڈز بیسویں صدی کے ادب کو ایک خاص نقطہِ نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے POSTCOLONIAL LITERATURE  کا نام دیتے ہیں۔ ایسے ادب کی تفہیم کے لیے وہ ہمارا استعماریت سے تعارف کرواتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلی چند صدیوں میں یورپ کی چند متمول اور طاقتور قوموں نے استعماری طاقتیں بن کر ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک کو محکوم بنا لیا تھا۔ ان استعماری قوموں میں فرانس‘ سپین‘ پرتگال اور انگلستان شامل تھے۔ ان قوموں نے ایشیا اور افریقہ کی قوموں کو اپنی کالونیز بنایا اور ان کے وسائل پر قبضہ کیا۔اس طرح استعماری قومیں حاکم اور مقامی قومیں محکوم بن گئیں۔ ایسا حاکم و محکوم کا رشتہ آہستہ آہستہ ظالم و مظلوم اور جابر و مجبور کا رشتہ بن گیا۔یہ حاکمیت کئی ممالک میں کئی صدیوں تک قائم رہی۔

Justin D. Edwards

جسٹن ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ کلونیلزم کے ظلم اور جبر نے محکوموں اور مظلوموں کی معیشت ہی نہیں بدلی ان کی نفسیات بھی بدل ڈالی۔ محکوم اپنی عزتِ نفس کھو بیٹھے اور اپنے آپ کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے لگے۔ ایسی سوچ نے محکوم قوموں کی نسلوں کی مجموعی شخصیت کو متاثر کیا۔

بیسویں صدی میں جب ساری دنیا کے سماجی ‘معاشی اور سیاسی حالات بدلے اور دو عالمی جنگیں ہوئیں تو ان محکوم قوموں اور مجبور ریاستوں نے کلونیل پاورز سے آزادی حاصل کی اور ساری دنیا میں نئی ریاستیں قائم ہوئیں جن میں ہندوستان‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش ‘ افریقہ کے کئی ممالک اور کریبین کے کئی جزیرے شامل ہیں۔ان ممالک کے ادیبوں نے آزادی حاصل کرنے کے بعد جو ادب تخلیق کیا ہے اسے جسٹن ایڈورڈز پوسٹ کلونیل لٹریچر کا نام دیتے ہیں۔

پوسٹ کلونیل ادب کو سمجھنے کے لیے ہمارے لیے حاکم و محکوم‘ جابر و مجبور اور ظالم و مظلوم کے رشتے کی نفسیات کی تفہیم ضروری ہے۔ اس مخصوص نفسیات کو سمجھنے کے لیے فرانز فینن FRANZ FANNON کی کتاب THE WRETCHED OF THE EARTH بہت مقبول ہوئی اور اس کتاب کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہوئے۔وہ آہستہ آہستہ انقلابیوں کی بائبل بن گئی۔ فینن ایک ماہرِ نفسیات تھے اور فرانس میں نفسیاتی معالج کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ الجیریا کے فریڈم فائٹرز اور گوریلا فوجیوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ نفسیاتی علاج چھوڑ کر انقلاب کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے انقلاب کا یہ نظریہ پیش کیا کہ جو تشدد ظالم اور حاکم مظلوموں اور محکوموں پر کرتے ہیں وہ ان کے سماجی لاشعور میں جمع ہوتا رہتا ہے اور جب محکوم‘مجبور اور مظلوم آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ حاکموں اور جابروں کو اسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جس تشدد کا وہ کئی دہائیوں اور کئی صدیوں تک نشانہ بنتے رہے تھے۔ فینن کی نگاہ میںDECOLONIALIZATION IS ALWAYS A VIOLENT PHENOMENON

Franz Fanon

فینن کا موقف تھا کہ کلونیلزم سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مارکس کا نظریہ ناکافی ہے۔ مارکس صرف CLASS STRUGGLE پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں لیکن یہاں مسئلہ رنگ و نسل کا بھی ہے۔اس انقلاب میں CLASS AND RACE دونوں شامل ہیں۔بیسویں صدی کے بہت سے محکوم و مظلوم مزدور بھی ہیں اور کالے بھی۔ وہ دو محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہیں۔اور وہ مزدور جو عورتیں بھی ہیں وہ تین محاذوں پر اور جو گے اور لیسبین بھی ہیں وہ چار محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہیں۔

  جسٹن ایڈوردز ہمیں بتاتے ہیں کہ جہاں فینن آزادی حاصل کرنے کے لیے تشدد کو ناگزیر سمجھتے ہیں وہیں جنوبی افریقہ کے کالوں کی سیاسی آزادی ایک ایسی مثال ہے جہاں انقلاب کی صبح جمہوریت کی راہ سے ہو کر طلوع ہوئی اور کالوں نے الیکشن سے اکثریت حکومت حاصل کی۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی ان کے لیڈر نیلسن منڈیلا اور ڈزمنڈ ٹوٹو نے نہ تو گوروں کو قتل کیا اور نہ ہی انہیں سمندر میں پھینکا بلکہ کالوں اور گوروں کے تضادات کے حل کے لیے ایک TRUTH AND RECONCILIATION COMMISSION (TRC) قائم کیا جس مین ظالم و مظلوم‘ جابر و مجبور کو یکجا کیا تاکہ دونوں اپنی اپنی کہانی ایک دوسرے کو سنا سکیں‘ ظالم معافی مانگ سکیں اور مظلوم انہیں معاف کر سکیں۔اس طرح ان کے زخم مندمل ہوئے اور انہوں نے پرتشدد ماضی کو خیر باد کہہ کر ایک پرامن مستقبل کو گلے لگایا۔۔

جسٹن ایڈوردز کی کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ جہاں انہوں نے پوسٹ کلونیل لٹریچر کے تصور کے حق میں دلائل دیے ہیں وہیں اس نقطہِ نظر پر جو تنقید ہوئی ہے اسے بھی رقم کیا ہے۔

آزادی کے بعد کے ادب کا ایک متنازعہ مسئلہ زبان ہے۔ بعض انقلابی ادیبوں کا موقف ہے کہ محکوم ریاستوں کے ادیبوں کو صرف اپنی مادری زبان میں لکھنا چاہیے کیونکہ اگر وہ حاکموں کی زبان میں لکھیں گے تو اپنی جدوجہد سے انصاف نہیں کر پائیں گے۔اس کی ایکی مثال کالوں کی جدوجہد ہے۔ اگر کالے ادیب انگریزی زبان میں احتجاج کریں گے تو وہ احتجاج انگریزی زبان کے تعصب سے متاثر ہوگا ۔ انگریزی زبان کے الفاظ BLACK SHEEP, BLACK LIST AND BLACK MARKET انگریزی زبان کے تعصب کے آئینہ دار ہیں۔

بعض ادیب اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کی نگاہ میں عالمی زبانیں اب کسی ایک قوم یا ملک یا خطے کی زبانیں نہیں رہیں۔ اگر محکوم چاہتے ہیں کہ ساری دنیا ان کے مسائل کو سمجھے تو انہیں عالمی زبانوں میں لکھنا چاہیے چاہے وہ ایک زمانے میں حامکوں کی زبان ہی کیوں نہ رہ چکی ہوں ورنہ ان کا ادب صرف ان کی اپنی قوم تک محدود ہو جائے گا۔

بعض ادیبوں کا خیال ہے کہ ہر قوم کے ادیب مختلف ادبی‘ سماجی‘ نفسیاتی‘ مذہبی اور نظریاتی حالات سے متاثر ہو کر ادب تخلیق کرتے ہیں اس لیے ہندوستان کیوبا اور جنوبی افریقی کے ادب کو پوسٹ کلونیل ادب کی ایک ہی عینک سے دیکھنا انہیں محدود کرنا ہے۔

بعض ادیبوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پوسٹ کلونیل ادب کا نظریہ ایک سیاسی نظریہ ہے جسے ادب پر لاگو کیا جا رہا ہے۔ ان قوموں اور زبانوں کے ادب کی تاریخ کلونیلزم کے دور سے بہت پہلے تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے ادب کے سیاسی حوالے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ ادب کو صرف ادبی معیار پر پرکھنا چاہیے کسی مذہبی‘سیاسی یا نظریاتی معیار پر نہیں اور پوسٹ کلونیل ادب کا حوالہ سیاسی حوالہ ہے ادبی حوالہ نہیں۔

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ یہ سمجھنا کہ کلونیل طاقتیں رخصت ہو گئی ہیں اور ان محکوم قوموں نے مکمل طور پر آزادی حاصل کر لی ہے خام خیالی ہے۔ یہ قومیں سیاسی طور پر تو آزاد ہو گئی ہیں لیکن معاشی اور نفسیاتی طور پر آج بھی محکوم ہیں۔ وہ آج بھی حاکموں کے انداز سے سوچتی ہیں اور اپنے آپ کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہیں۔ میری ایک مختصر سی نظم ہے

کلونیلزم

ہم نے اپنے آقائوں سے نفرت کی ہے

لیکن ان کے نقشِ قدم پر سر بھی جھکایا

ان کے منہ پر تھوکا لیکن

ان کے عمل کو دل سے لگایا

ہم بھی کتنے سادہ دل ہیں

اس صدی کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے محکوموں‘ غلاموں اور مظلوموں نے اپنے حاکموں اور آقائوں کے خیالات اور نظریات کو INTERNALIZE کر لیا ہے اب وہ ان کی شخصیت اور نفسیات کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ مزدور ہیں‘ کالے ہیں‘ عورت ہیں اور مادری زبان بولتے ہیں اس لیے وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔نفسیاتی طور پر آزاد ہونا سیاسی طور پر آزاد ہونے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔پوسٹ کلونیل ادب سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی اور نفسیاتی آزادی کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ پوسٹ کلونیل دانشوروں میں سے چند ادیب ایسے ہیں جو ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی کارکن بھی ہیں۔ وہ معاشی‘ سیاسی اور نظریاتی استبداد اور خاص طور پر گلوبلائزیشن کے مخالف ہیں۔ میں اپنے اس مضمون کو ارن دتی رائے کے اس احتجاجی جملے پر ختم کرنا چاہتا ہوں

THE ONLY THING WORTH GLOBALIZING IS DISSENT

جسٹن ایڈورڈز کی کتاب ہمیں بیسویں صدی کے ادب کو ایک نئے نقطہِ نظر سے پڑھنے کی دعوت دیتی ہے۔ ایڈوردز نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے جن سو کتابوں اور ناولوں کا حوالہ دیا ہے میں نے اپنے ایسے شاعر‘ ادیب اور دانشور دوستوں کے لیے جو استعماریت ‘ادب اور سیات کے پراسرار رشتوں پر غور کرتے رہتے ہیں مندرجہ ذیل بیس کتابوں کا چنائو کیا ہے

20 BOOKS ABOUT LITERARY AND POLITICAL THEORIES

  1. THE WRETCHED OF THE EARTH BY FRANTZ FANON 1961
  2. ORIENTALISM BY EDWARD SAID 1978

3.WRITING AND DIFFERENCE BY JACQUE DERRIDA 1978

4.THE LOCATION OF CULTURE BY HOMI BHABHA 1994

  1. OF GRAMMATOLOGY BY GAYATRI SPIVICK 1976

6.THE EMPIRE WRITES BACK BY ASHCROFT, GRIFFITHS AND TIFFIN 1989         

  1. IMAGINED COMMUNITIES BY BENEDICT ANDERSON 1983

8.IN THEORY: CLASSES, NATIONS, LITERATURES BY AIJAZ AHMED 1992

  1. RHETORIC OF EMPIRE BY DAVID SPURR 1993

10/ IMPERIAL LEATHER BY ANN MCCLINTOCK 1995 

NOVELS            

  1. REMEMBERIN BABYLON BY DAVID MALOUF
  2. DO ANDROIDS DREAM OF ELECTRIC SHEEP BY PHILIP DICK
  3. SOZABOY: ANOVEL IN ROTTEN ENGLISH BY KEN SARO WIWA 1985
  4. MIDNIGHT’S CHILDREN BY SALMAN RUSHDIE 1981
  5. IN AN ANTIQUE LAND BY AMITAV GHOSH
  6. BELOVED BY TONI MORRISON 1987

17.ANIL’S GHOST BY MICHAEL ONDAANTJE  

18.THE BLACK ALBUM BY HANIF KUREISHI 1995

  1. FUNNY BOY BY SHAYAM SELVADURAI 1994
  2. THE GOD OF SMALL THINGS BY ARUNDHATI ROY 1997
ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail