کچھ ذکر خان صاحب کا….
موصوف نے زندگی میں پہلی مرتبہ پچاس پیسے کا زر کثیر پاتے ہی سب سے پہلی خریداری ایک کتاب کی کی۔ اور پانچویں کلاس تک گھر میں موجود خلاصہ التواریخ اور اخبار الطوال جیسی کئی ہزار صفحات کی بھاری بھرکم کتب کو بھی چاٹ کر ہند، ایران و توران کے حالات سے واقف ہوئے۔ پھر نوجوانی میں ہی سات سمندر کا سفر کیا اور دیس دیس کے لوگوں کا نظارہ کیا۔ متواتر چالیس برس تک وہ مطالعہ افراد و کتب میں مشغول رہے لیکن اپنے پاک و صاف ذہن کو ان میں موجود علوم سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ عمر کے اکتالیوسویں برس میں فیس بک پر جلوہ افروز ہوئے۔
ذات کے پٹھان ہیں۔ اور ان کی صحبت میں کچھ دیر تک بیٹھنے کے بعد آپ کو یہ صفت پوچھے بغیر ہی معلوم ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر کوئی ان کو تنگ کرے یا بلاوجہ بحث کرے تو اسے اس بات کا کامل یقین دلا دیتے ہیں۔ بحث میں سقراطی طرز فکر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر فیس بک پر پائے جانے والے افلاطونوں کی کلاس لیتے پائے جاتے ہیں۔ فریق مخالف سے سادہ سے سوالات پوچھتے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ فریق مخالف کو اپنے موقف کے تحت ان کا جواب نہیں ملتا ہے اور کوئی راہ نہ پا کر وہ شدید خفگی کا شکار نظر آنے لگتا ہے لیکن خان صاحب اپنا دماغ ٹھنڈا ہی رکھتے ہیں۔
خان صاحب خاص طور پر ان لوگوں سے مذاکرات کرنا پسند کرتے ہیں جو دوسروں کی زندگی کو اپنے اصولوں کے تحت بسر کروانا چاہتے ہیں۔ اچھے مزاح نگار ہیں، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ شدید غم و غصے کا شکار ہو کر فریق مخالف ان کے ملفوظات کو پڑھنے کے بعد جواب دینے کی بجائے بلاک کرنا بہتر سمجھتا ہے۔ بنیادی طور پر نوری نت کی فکر سے شدید متاثر ہیں اور اسی کی مانند کوئی مقابل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ شکر ہے کہ ان کی ملاقات ابھی تک مولا جٹ سے نہیں ہوئی ہے۔
انہیں کوئی برا بھلا کہے تو اس پر مزاحیہ فقرے چسپاں کرتے ہیں۔ کوئی تند خود مخالف فرد زیادہ ہی لڑائی جھگڑے کی کوشش کرے تو اس پر سالم خاکہ لکھ دیتے ہیں۔ ایک خالص العقل پٹھان ہونے کی وجہ سے عقل کا استعمال ہر جگہ موزوں نہیں سمجھتے ہیں۔ جہاں ہتھوڑے سے ہی کام چل جاتا ہو، وہاں پیچیدہ انجینری لگانے کی کوشش کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ بلکہ جہاں پیچیدہ انجینری سے ہی کام چل سکتا ہو، وہاں بھی ہتھوڑے سے ہی کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی پر کام کر کے ہر دوجے تیجے دن اپنے انگوٹھے پر اپنے ہی ہتھوڑے کی ضرب کھا بیٹھتے ہیں۔
عمر کے معاملے میں کافی حساس ہیں۔ ہر ایک کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی عمر چھپن برس کی ہے۔ اس کا سبب اپنی دوراندیشی کو بتاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اول تو مرد کی ایک زبان ہونی چاہیے، ایک بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ دوسرا سبب یہ بتاتے ہیں کہ اب جلد ہی چھپن کو پار کرنے والا ہوں، اگلے بیس تیس برس بعد تک بھی اپنی عمر چھپن ہی بتاتا رہا تو کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا، کہ سب اسی عمر کے عادی ہو چکے ہوں گے۔ ویسے بھی چھپن برس کی عمر کے بعد کئی عارضے لاحق ہو جاتے ہیں، بہتر ہے کہ اس سے زیادہ عمر نہ ہونے دی جائے۔
زندگی میں دو رنگی کے قائل ہیں۔ کبھی آپ کو عمران خان کے کسی عمل کی حمایت کرتے نظر آئیں گے اور کبھی نواز شریف کی تعریف میں مشغول دکھائی دیں گے۔ کبھی ایک فکاہیہ لکھتے ہوں گے تو اگلے لمحے ایک اداس کر دینے والی تحریر سپرد قلم کر رہے ہوں گے۔ کبھی امریکہ کی حمایت کر رہے ہوں گے تو کبھی چین کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ حتی کہ طبیعت کی یہ دو رنگی اب ان کے چہرے پر بھی نظر آنے لگی ہے۔
فیس بک پر کسی بھی گروپ میں شامل ہو کر سب سے کھڑپینچ اور دماغی طور پر ہلے ہوئے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں۔ جہاں کوئی مل جائے، جھٹ اسے اپنے قریبی دوستوں کی فہرست میں ڈال لیتے ہیں۔ غضب کے نکتہ چیں ہیں۔ رائی کا پہاڑ بنا سکتے ہیں، اور کمال یہ ہے کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو رائی کے اس پہاڑ پر کوہ پیمائی کرنے پر بہ آسانی آمادہ کر لیتے ہیں۔ سکوت کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ محفل میں ہر دم ہنگامہ آرائی کے قائل ہیں۔ اور بعد میں اگلے دن ان کے ساتھی یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا گیا ہے۔
نہایت ٹھنڈے دماغ کا ہونے کا دعوی کرنے والوں کا بلڈ پریشر بھی ہائی کروا چکے ہیں اور ہائی والوں کا نارمل کیا، لو کرانے میں بھی ان کو مشکل پیش نہیں آتی ہے۔ ہر دو چار ہفتے بعد کسی ہنگامے میں ملوث پائے جاتے ہیں جو کہ اتنا بے قابو ہوا ہوتا ہے کہ اس کو ختم کرانے کے لیے بھی انہی کی خدمات لی جاتی ہیں۔
انسانوں کی نسبت کمپیوٹروں سے معاملات طے کرنا آسان سمجھتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ کمپیوٹر جذباتی نہیں ہوتے ہیں۔ دھوکہ بھی نہیں دیتے ہیں۔ اور ادھار بھی نہیں مانگتے ہیں۔ ادب میں ان کی توجہ فکاہیہ ادب لکھنے پڑھنے پر ہے۔ فرماتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے، ہنس بول کر جینا بہتر ہے۔ شاعری پسند کرتے ہیں لیکن اس کے قواعد ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
کوئی اچھا شخص نظر آئے تو اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں بخل سے کام نہیں لیتے ہیں۔ اسے محض اتفاق کہیے کہ آئینہ دیکھنے کے شوقین ہیں اور اکثر اوقات اس میں موجود اچھا شخص دیکھ کر اس کی تعریفیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اچھی تحریر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اچھی تحریر پڑھ کر اس کی بے تحاشا تعریف کرتے ہیں اور سب کو اس کے محاسن سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسی سبب سے ان کے جاننے والے ان کی تحاریر کے محاسن سے مسلسل آگاہ ہوتے رہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ وہ خان صاحب ہیں۔
- ڈاکٹر ذاکر نائیک کی شامت کیوں آئی ہوئی ہے؟ - 07/10/2024
- دبئی پاکستانیوں کو ویزے کیوں نہیں دے رہا؟ - 22/05/2024
- ایک من گندم سستی اور لارج پزا مہنگا - 10/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).