کیا روزہ رکھ کر ریحام کی کتاب پڑھی جا سکتی ہے؟


حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستانی خاوندوں میں ایک نئی قسم کے فوبیا نے جنم لیا ہے، جس کا نام ہے “کتاب”۔ آج کل پاکستانی خا وند اپنی شریک حیات کی ہر بات بلا چوں چرا کے مان رہے ہیں اور جیسے ہی بیگم کے ہاتھ میں کسی بچے کی پرانی کاپی بھی دیکھ لیں تو دل سوکھے پتے کی طرح کانپ جاتا ہے کہ کہیں کچھ لکھنا تو شروع نہیں کر دیا۔ میں نے تو سنا ہے کہ رشتے والی آنٹیوں کو بھی تاکید کی جا رہی ہے کہ دیکھ بھال کر لیں کہیں لڑکی کوئی کتاب تو نہیں لکھ چکی۔ لڑکیوں نے اپنے گریجویشن کے تھیسس بھی کہیں پیٹی میں بند کر کے رکھ چھوڑے ہیں مبادا کوئی حاسد یہ نہ اڑا دے کہ لڑکی کی کتاب چھپ چکی ہے۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ نکاح نامے پر بھی لگے ہاتھوں نظرثانی کر لی جائے ایک شق کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ خدا نخوا ستہ علیحدگی کی صورت میں کتاب نہیں لکھی جائے گی ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاوند حضرات مہر کی جگہ کتاب معاف کروانے کو زیادہ بڑی بچت گردانیں۔

ویسے تو دل کے جلے پھپھولے پھوڑنے کو کتاب داغنا شائد سکون دیتا ہو لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر بندہ مولانا خادم حسین رضوی کا ملک گیر شہرت کا حامل لفظ چیخ کر کہہ دے تو دلی اضطراب کی کیفیت میں فوری سکون آنے کا گمان غالب ہے۔ پنجابی زبان بڑے ہی معرکتہ الآرا الفاظ سے مالا مال ہے ان میں سے کوئی بھی لفظ بدل بدل کر استعمال کیا جا سکتا ہے انشا اللہ طبیعت میں بہتری آئے گی۔ ویسے تو میں بھی کچھ لفظ تجویز کر سکتی ہوں لیکن اکثر لفظ ناقابل اشاعت ہیں لہٰذا کچھ ہلکی پوٹینسی کے لفظ تجویز کر دیتی ہوں مثال کے طور پر پراں مر، دفع دور اور در پھٹے منہ۔ یہاں خیال رکھنا ہے کہ یہ لفظ بالکل درست تاثرات کے ساتھ ادا کرنے ہیں۔ تاثرات میں کمال پیدا کرنے کے لئے پنجابی سٹیج ڈراموں کی وڈیو سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ویسے کتاب لکھنے سے بہتر ہے کہ جس نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہو اسے اسی وقت ٹیلی فون ڈائرکٹری کی کتاب دے ماریں، دل کو فوری قرار نصیب ہو جائے گا۔

امسال رمضان کی ریحام ٹرانسمیشن نے ماحول بنائے رکھا۔  چونکہ کچھ احترام رمضان کی وجہ سے صرف وہی مواد دیکھا اور پڑھا جا سکتا تھا جس کے لئے بچوں کی عدم موجودگی کا یقینی بنانا ضروری نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی مذکورہ نشریات نے دل بہلا ئے رکھا۔  ویسے بھی ہم اس ڈیجیٹل دور میں زندہ ہیں جہاں خبریں اگائی جاتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے پودے سوشل میڈیا کے سہارےخار دار جھاڑیوں میں تبدیل کر دئیے جاتے ہیں۔

 کسی نے سوشل میڈیا پر پوچھا کہ کیا روزہ رکھ کے ریحا م کی کتاب پڑھ سکتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ اگر اپنے تصور کی آنکھ کو مضبوطی سے بھینچ کر پڑھیں تو شاید پڑھ سکتے ہوں۔

مستنصر حسین تارڑ صاحب نے لکھا ہے کہ قوموں کو ان کے خواص کی بنیاد پر نام دئیے جاتے ہیں اور اگر تارڑ صاحب پاکستانی قوم پر کتاب لکھتے تو اس کا ٹائٹل ہوتا “واویلا کرنے والی قوم”۔ ٹھیک تو کہا انہوں نے ہمیں صرف واویلا نہیں”قبل از وقت واویلا” کرنے کی عادت ہے۔

بہت پہلے ایک افسانہ پڑھا تھا جس میں میا ں بیوی کے درمیان اپنے اس بچے کا نام رکھنے پر اتنی شدید تکرار ہوتی ہے کہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے جس نے ابھی اس دنیا میں آنکھ بھی نہیں کھولی۔ بھلے لوگو اس بچے کو دنیا میں آنے کا تو انتظار کر لو پھر نام رکھنے پر بھی لڑ لینا، ہو سکتا ہے لڑنے کا کوئی اور بہانہ بھی مل جائے۔

جیسا کہ نظر آ رہا ہے جس کتاب پر گھمسان کی جنگ چھڑ ی ہے اس کی اشاعت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ لگ تو یہی رہا ہے کہ جس مقصد کے لئے کتاب لکھی گئی تھی وہ حاصل کیا جا چکا ہے۔ کہاوت ہے کہ جتنی دیر میں سچ جوتے پہنتا ہے جھوٹ آدھی دنیا کا سفر طے کر کے واپس آ جاتا ہے۔

پہلے ہم پیپر آؤٹ کرواتے تھے اب کتاب آؤٹ کروانے میں لگے ہیں لیکن یہ کتاب قبض کی صورت باعث آزار بنی ہوئی ہے۔  جتنی الزامات کی فہرست آؤٹ ہوئی ہے اس سے تو یہ حقائق سے زیادہ کنسوئیاں لگ رہی ہے بہتر یہی ہو گا کہ اس کتاب کا نام “کنسوئیاں” رکھا جائے۔ گھر کے ملازموں اور ڈرائیوروں سے تو بندہ کنسوئیاں ہی لے سکتا ہے۔ ہر کتاب میں لکھے گئے مواد کے حوالہ جات اور ریفرنس لکھنا لازمی ہوتا ہے۔ مذکورہ کتاب کے حوالہ جات اور ریفرنس میں گھریلو ملازمین کے نام درج ہوں گے۔

چونکہ کتاب لگتا تو نہیں کہ اشاعتی ضوابط پر پوری اترتی ہے لہٰذا الزام تراشی جتنی مرضی کر لی جائے اور اس میں دنیا سے گزر گئے لوگوں کو بھی نہ بخشا جائے۔  قانونی نوٹس کی کوئی تک نہیں بنتی کیوں کہ قانون لاگو ہو گا جب کتاب مارکیٹ میں آ ئے گی، اب کنسو ئیوں پر تو قانون نہیں لاگو ہوتا ناں۔

چلیں جب تک صورتحال واضح نہیں ہوتی خا وند حضرات تہجد کے وقت اپنے فون کی حفاظت یقینی بنائیں۔ عوام ووٹ دینے کی تیاری کریں ویسے بھی صرف ایک عدد اہلیہ رکھنے والے غریب عوام ووٹ دے سکتے ہیں، لے نہیں سکتے۔ اس کی تلافی ایک دوسرے سے یہ پوچھ کر کرتے ہیں کہ کیا روزہ رکھ کر ریحام کی کتاب پڑھی جا سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).