جب ریحام کی کتاب پڑھتے ہوئے ابلیس پکڑا گیا ۔۔۔۔


ہر طرف ریحام کی کتاب کی گونج ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف کے متوالے ریحام کو طرح طرح کے القابات سے نواز رہے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کے مخالفین اس کتاب کا سہارا لیتے ہوئے عمران خان کو برا بھلا کہتے ہوئے نہیں تھک رہے اور ان کے لیے سوڈا مائیٹ اور ڈائنا مائیٹ جیسے ناموں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ کسی کی زبان پر حمزہ عباسی ہے تو کسی کی زبان پر مراد سعید کے نام کا چرچا ہے۔ کوئی وسیم اکرم کا نام آنے پر خفا نظر آتا ہے تو کوئی اندھیرے میں گھڑی کی لائٹ جلانے کی مشقیں کر رہا ہے۔ کسی کو خان صاحب کے کتے سے ہمدردی ہے تو کوئی جمائمہ خان کی دوستی پر رشک کر رہا ہے۔ ہمارے نوجوان ووٹ دینے سے زیادہ ریحام کی کتاب میں دلچسپی لیتے نظر آ رہے ہیں۔ ریحام خان کو عمران خان سے شادی کرنے پر وہ شہرت نصیب نہ ہوئی جو اس کتاب سے مل رہی ہے۔ سیاست سے لیکر سیاحت تک بس ریحام خان کا ٹرینڈ چل پڑا ہے۔ ٹاک شو ہو یا پھر نجی محفلیں ہوں ہا پھر دفتروں کی سرگوشیاں، ریحام کی کتاب کے بغیر سب کچھ ادھورا سمجھا جا رہا ہے۔ کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولوی اور قاضی صاحبان بھی یہ کتاب ڈاؤن لوڈ کر کے اسے رات کو پڑھ رہے ہیں۔

باقی علم و ادب کا ذوق و شوق رکھنے والے افراد چاہے وہ صحافی ہوں یا دانشور یا پھر نوکری پیشہ افراد وہ اس کتاب کو ایک تحقیقی مقالہ سمجھ کر اس کی غلطیاں درست کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں جنس اور عمر کی کوئی قید نہیں اگر انہوں نے اس کتاب کو دیکھا اور پڑھا نہیں ہے تو یہ ضرور پتہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ آخر اس کتاب میں ہے کیا ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جو لکھا ہے کیا وہ سچ ہے؟ جب یہ اطلاعات آئیں کہ ابلیس پابند سلاسل ہونے کے باوجود ریحام خان کی کتاب پڑھتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو مفتی عبدالقوی جیسے متقی افراد بھی ریحام خان سے ملاقات اور انٹرویو کرنے کے لیے بے تاب نظر آئے۔

ریحام خان کی کتاب پر مختلف اقسام کے لطیفے پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ کہیں کوئی پڑھی لکھی بیوی کتاب نہ لکھ ڈالے، تو کوئی زرداری صاحب سے مفید مشورے لینے کے لئے خان صاحب کو نت نئی ترکیبیں بتا رہا ہے۔ ماہ رمضان کے عین بیچ ریحام خان کی اس کتاب کا چرچا عام ہے۔ روزہ دار بھی کتاب کا ذکر کرتا نظر آتا ہے تو کھوجا دار بھی۔ اگر ماہ رمضان نہ ہوتا تو ریحام خان کی کتاب کا پورا کریڈٹ ابلیس کو جاتا مگر کوئی بات نہیں اس کے چیلے تو کھلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں گناہ گار اور قصور وار تو ریحام خان ہی نظر آتی ہے جنہوں نے یہ کتاب لکھی اور ماہ رمضان میں اسے وائرل کیا۔ کچھ لوگ تو ریحام کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن والوں کو بھی اس گناہ میں برابر کا شریک سمجھ رہے ہیں جنہوں نے ریحام خان کو کتاب کیسے لکھتے اور لکھواتے ہیں والی ترکیب سکھائی۔ کچھ لوگ تو حسین حقانی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ اس نے کتاب کو کچھ زیادہ ہی ایڈٹ کر دیا ہے اور بہت سی مزے لینے والی چیزیں کتاب سے نکال دی ہیں۔ خیر جب تک کتاب باقاعدہ طور پر چھپ کر منظر عام پر نہیں آئے گی تب تک اس کا چرچا رہے گا۔ بعد میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب شادی کی پہلی رات جیسی کتابوں کی طرح ٹھیلوں اور چوراہوں پر پڑی ہوئی ملے۔

کچھ لوگ اس وقت اس پہاڑ کے چوہے کی طرح بہت پریشان نظر آ رہے ہیں کہ کہیں اس کتاب میں ریحام نے ان کا بھی ذکر نہ کر ڈالا ہو کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جنگل میں رات کے اندھیرے میں کسی نے شیرنی کو زیادتی کا نشانہ بنایا یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور زیادتی کرنے والے کی نشاندہی کے لیے لومڑیوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ ایسے میں ایک لومڑی دوڑتی ہوئی پہاڑ پر بیٹھے ہوئے چوہے کی طرف جا رہی تھی چوہا بیچارہ ڈر سے لومڑی سے پوچھنے لگا کہ کیا مجھ پر بھی شک ہے؟ ریحام کی کتاب کے بعد بہت سارے معصوم لوگ شک کے دائرے میں آ رہے ہیں۔ ہم بھلے ریحام کو کتنا بھی برا سمجھیں اور عمران خان پر گند اچھالیں مگر ہمیں اپنے آپ کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم کتنے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ بہت جلد ہی عید کے بعد ابلیس پھر آزاد ہونے والا ہے اور بہت سارے لوگ جو ریحام کی کتاب پر بہت خوش نظر آ رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ عید کے بعد ایک اور کتاب کا چرچا ہو جس میں پردہ نشینوں کے نام بھی آئیں۔ ہم مفت میں مزا بھی پورا لیتے ہیں اور تجزیہ اور تبصرہ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور جب گناہ کی بات آتی ہو تو نام آتا ہے ریحام خان کی کتاب کا اور ہم کہتے ہیں کہ اگر ریحام ایسی کتاب نہ لکھتی تو ہم بھلا کیوں پڑھتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).