میرا رول ماڈل ”لہوڑی ڑنگباز“ شانی ہے


میری سہیلی مہوش اس بلاگ سے شاید ناخوش ہو۔ اسے یہ ذکر پسند نہیں۔ ویسے تو دعا یے کہ پڑھے ہی نہ۔ لیکن اگر پڑھ لیا تو ایک تنبیہی میسج ضرور کرے گی۔ اس کو شانی کا ذکر نہیں پسند۔ یا شاید میرا اس کے ساتھ اپنا تقابل کرنا نہیں پسند۔ کہتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس سے آپ ملیں یا اس کا خیال بھی دل میں لائیں آپ کی شخصیت پر اپنی پرچھائیں چھوڑ جاتا ہے۔ اب پتہ نہیں یہ شانی کا میری ذات پر عکس ہے یا میں نے اس میں خود کو دیکھا اور کئی سوالوں کے جواب پائے۔

مہوش کو میں منا لوں گی۔ پہلے آپ کو تو شانی سے ملوا دوں۔ میرا جی چاہتا ہے سب سے اسے ملوانے کا، متعارف کرانے کا۔ شاید میری طرح کسی اور کو بھی اس میں اپنے سوالوں کے جواب مل جائیں۔

یہ پچھلے سال جنوری کا قصہ ہے۔ ہم خاندان میں ایک شادی کے سلسلے میں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی رشتے داروں سے ملنے کے علاوہ اپنے کام نمٹانے کی فکر بھی تھی۔ ویزہ کے سلسلے میں پاکستان سے پولیس سرٹیفیکیٹ درکار تھا۔ کچہری جانا پڑا۔ لاہور میں رہنے والے بھی کئی لوگ شاید کبھی کچہری نہ گئے ہوں۔ میں بھی نہیں گئی تھی کبھی۔ لیکن جانا پڑا۔

حسب عادت ہم لیٹ تھے۔ کیا کرتے؟ خیر کرنے کو ہاتھ پاؤں مارتے تو کچھ کر بھی سکتے تھے لیکن ہماری ازلی سستی آڑے آ گئی۔ اچانک ایک انیس بیس سال کے منحنی سے لڑکے کی نظر ہم پر پڑی۔ شکار دیکھتے ہی دوڑا چلا آیا۔ گہرے نیلے رنگ کا شلوار قمیض جس کے بٹن ادھ کھلے تھے اور ربڑ کی بھوری چپل جو کچھ عرصے میں شاید ٹوٹنے کے درپے ہوتی۔ یہ شانی تھا۔ اس نے ہمیں اپنی حمایت کا بھرپور یقین دلایا اور ہمارا ایمان اس بات پر پختہ کر دیا کہ خدا کے بعد شانی ہی ہمارا حامی و ناصر ہے۔

تیزی سے چلتا ہوا شانی ہمیں ایک کھلے چبوترہ ہر لے آیا جس پر ڈھیر ساری کرسیاں میزیں دفتر کی شکل میں ارینج ہوئی ہوئی تھیں۔ یہ وکیلوں کے ’دفتر‘ تھے۔ گھنے پیپل کے درختوں کا سایہ تھا اور قریب کے چائے خانے میں نصرت فتح علی خان کی قوالی ”متر پیارے نوں حال مریداں دا کہنا“ کی آواز آ رہی تھی۔ ایک تو سردیوں کی نرم دھوپ اور یہ منظر۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم کسی آرٹ فلم کے ابتدائی سین کا حصہ ہیں۔

شانی کا لہجہ بالکل ’لہوڑی ڑنگبازوں‘ کا سا تھا۔ تیز تیز بولنے والا شدید لاہوری۔ شانی ہمیں اس بات پر قائل تو کر ہی چکا تھا کہ اندر سے فارم صرف وہی اٹیسٹ کرا کر لا سکتا ہے۔ میرے میاں سے پیسے بھی کچھ اس ڈھنگ سے نکلوائے کہ اتنے عرصے میں میں تو کبھی نہ کر پائی۔ کہ باؤ جی اندر دینے ہیں۔ اس کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ اس سارے قصے میں ہمیں شانی کی رنگبازی صاف دکھائی دے رہی تھی لیکن ہم پھر بھی اس کی ان حرکتوں سے اس قدر محظوظ ہو رہے تھے کہ چپ چاپ اس کی مانتے رہے۔

میرا تو ویسے بھی مسئلہ ہے کہ ہر مختلف انسان اور سچوایشن کسی کہانی کا کردار اور سین لگتی ہے۔ شانی کی بھی وہی اہمیت تھی۔ میری نظریں اسی کا تعاقب کر رہی تھیں۔ شانی کا خیال تھا کہ ہم اپنے مسائل میں محو ہیں۔ لیکن خدا ان دھوپ کے چشموں کا بھلا کرے۔ شانی کچھ ہی دیر میں اس چائے خانے کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ڈیڑھ لیٹر کی کوکا کولا کی بوتل خریدی۔ اس کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ بوتل پکڑ کر وہ کسی کمرے میں گم ہو گیا اور کچھ دیر بعد سینے سے لگائی وہی بوتل اور ہاتھ میں پکڑے ہمارے فارموں سمیت برآمد ہوا۔

شانی ایک فاتحانہ مسکراہٹ سے ہمارے پاس آیا اور پہلے ہمیں بوتل آفر کی۔ پھر فارم تھمائے۔ ہمارا انکار اسے اچھا نہ لگا اور اس نے فورا ہمیں کہا ’ باجی جی پی لیں۔ آپ کے ہی پیسوں کی ہے۔‘ ہم نے بھی حیرانگی کی ایکٹنگ کی اور اسٹیل کے گلاس میں اس بوتل کی کچھ چسکیاں لیں۔ شانی بہت خوش تھا۔ آج کی دیہاڑی یہ سوا سو روپیہ تھی اور مفتوح ملک یہ ڈیڑھ لیٹر کی بوتل تھی۔

شاید آپ اس تھیوری سے آگاہ ہوں گے جس کے مطابق دنیا میں صرف وہی جاندار بس پائے جو سخت جان تھے۔ باقی سب چل بسے۔ یہ دنیا شروع سے ہی ظالم ہے۔ اپنی خوشیاں کھوجنے والے اور خود کو زندہ رکھنے والے جاندار ہی قائم رہ پائے۔ شانی بھی انہی میں سے ہے۔ شاید آپ کو بھی شانی پسند نہ آئے۔ دھوکے باز، رنگ باز۔ لیکن ہم بھی تو اپنی مرضی سے اس کا شکار بنے۔ دونوں پارٹیاں خوش۔

مجھے تو شانی پر بڑا رشک آتا ہے۔ ہر خوش باش انسان پر رشک آتا ہے جو اس ظالم دنیا میں بھی اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں قائم رکھے بیٹھا ہے۔ یاد رکھئے کہ زندہ یہی رہیں گے۔ باقی سب مر مٹیں گے۔ جسم سلامت بھی رہے تو اندر سے لاشوں متعفن ہی رہیں گی۔ زندگی شرط ہے۔
شانی میرا رول ماڈل ہے۔ میں نے کہہ دیا۔ بس!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).