پلیجو دنیا چھوڑ کر بھی تاریخ رقم کر گئے


رسول بخش پلیجو کی تدفین انقلابی گیتوں کی گونج میں اور جس صنفی امتیاز سے بالاتر انداز میں ہوئی ہے، اس کی مثال گذشتہ ڈیڑہ دو صدیوں میں سندھ، پاکستان، ایشیا کیا دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ خواتین اپنے سیاسی رہنما کا جنازہ کاندہوں پر اٹھائے گیت گاتی، نعرے مارتی، صدمے کو حوصلے اور دکھ کو ولولے میں تبدیل کر کے چل رہی ہوں، رسول بخش پلیجو کی تدفین کے اس انداز کو سندہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ پلیجو کی سیاسی ناکامیوں کو گننے والے ساری عمر حساب کتاب کرتے رہیں لیکن وہ جو کام جاتے جاتے جو کر گئے ہیں وہ ان کے حقیقی انقلابی رہنما ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

“ابراھیم ایسا کبھی نہیں ہوا، اس کو کیا سمجھتے ہو؟ یہ ایک بلکل منفرد اور غیر معمولی واقعہ ہے، یہ نئے سندھ کی بنیاد ہے۔ یہ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا” میرے ایک پڑھے لکھے، ڈاکٹر دوست مجھے فون پر بتا رہے تھے جو خود حقوق سندھ کے سب سے بڑے وکیل کے موت پر اندر سے کافی گھایل تھے۔ سات جون کو رسول بخش پلیجو کا انتقال ہوا اور آٹھ جون کی صبح ابائی گاؤں منگر خان پلیجو میں انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔

 لازمی نہیں کہ مرنے والے کی صرف زندگی پر ہی روشنی ڈالی دی جائے، اور لازمی نہیں موت پر بس دکھ ہی کیا جائے، پلیجو صاحب اکثر شاھ عبداللطیف بھٹائی کا یہ شعر پڑھتے تھے

اکھ الٹی دھار، وونُ الٹو عام سیں

جی لوھوارو لوک لھی، توں اوچو وھو اوبھار

منجھان نوچ نھار، پر پٹھیرو پری ڈی،

جس سے مراد نئے رنگ، ڈھنگ سے زندگی گذارنے کے انداز سیکھیں، دنیا کو عام نہیں اپنی آنکھ سے الٹی الٹی آنکھ سےدیکھا کریں، لوگوں کے مخالف سمت میں چلیں، جینے میں اپنا انداز اختیار کریں، لوگ بھاؤ میں بہہ جاتے ہیں، تم اوچائی کی طرف چلو، محبوب کی طرف رخ کر کے اسکے پیچھے چلتے رہا کرو۔۔

تو زندگی کیوں موت کی طرف چلتے ہیں، ہم بھی سمت مخالف میں نکالتے ہیں، مرنے والی کی تعریف تو دشمنی بھی کرتے ہیں، ہم اس کی موت کی تعریف کیوں نہ کریں جو جاتے جاتےوہ کچھ دے گیا ہے جو بس سنبھالنا ہے۔ چاہوں تو پلیجو کی سیاست، ان کی ادبی خدمات، ان کی کہانیوں، شاعری، تراجم، فن خطابت، ان کے عشق، ان کی فنکارانہ صلاحیتوں، ان پر لگائی جانے والے الزامات، جیل کی زندگی، حاضر جوابی، ان کی بھرپور زندگی پر دو چار الفاظ لکھ سکتا ہوں، لیکن ان کی موت کے بعد رونما ہونے والے ان واقعات کو کیوں نظرانداز کریں جو آنے والے وقت کے بڑے واقعات ہوں گے۔ ایسے واقعات اور لمحات جن کو آنکھیں پہلے بار دیکھ رہی ہوں، گھٹن میں پلنے والا سماج پہلے بار اس پر حیران ہو، منبر پر بیٹھ کر اپنی تنگ نظر تشریحات سے سماج کا گلہ دبانے والے اس جاہل کو پریشان کیوں نہ کیا جائے جس نے غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے ایسے لمحات دیکھنے کو ملیں تو وہ ان سے ہی نجات کا راستہ نکالتے ہیں۔

ہم گیر شخصیات اپنی زندگی میں تاریخ بناتی ہیں لیکن صدیوں بعد ایسی شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو مرتے مرتے بھی نئی تاریخ رقم کر جاتی ہیں، وقتی طور پر یا جان بوجھ کر اسے بھلے نظرانداز کردیا جائے، کسی کھاتے میں نہ لایا جائے، منہ موڑا جائے، اس کی طرف توجہ نہ دی جائے لیکن وہ نئی روایت کئی فرسودہ روایات کے خاتمہ کا پیش خیمہ بنتی ہے، اور فطری اصول یہ ہی ہے کہ پھر اسی روایت کو آگے چلنا اور راج کرناہوتا ہے۔ اس آخری سفر پر بار بار سوچ کر میں پھر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ رسول بخش پلیجو نے زندگی میں کئی نئے تجربے کئے لیکن اس کی وفات کے بعد جنم لینے والے واقعات بھی کسی تاریخی تجربے سے کم نہیں۔ وہ مرتے مرتے ایک نئی تاریخ رقم کرگیے ہیں۔ وہ تاریخ صنفی امتیاز کے خاتمےکی تاریخ ہے۔ خواتین حقوق کی حاصلات کی تاریخ ہے۔ وہ عورت کی برابری، خودمختاری، آزادی اور فیصلہ سازی کے اختیار رکھنے کی تاریخ ہے، پلیجو صاحب نے جو درس اپنے سیاسی ساتھیوں کو دیا تھا اس کا عملی مظاہرہ اس کی آنکھیں بند ہوتے ہی دیکھا گیا۔

پدرانہ سماج میں مذہبی تعلیم سے لیکر گھر کے فیصلہ سازی کا اختیار مرد کے پاس ہوتا ہے، یہاں تک کہ تنگ نظر سماج مرد کے رویے کا پتا لگانے کی بھی آڑ میں ہوتا ہے، فیصلہ سازی کا اختیار عورت کو سونپنے کا تصور تو دور کی بات ہے عورت کو اس میں شریک بنانے پر بھی اس سماج کے مرد کی مردانگی پر سوال اٹھتے ہیں، اور پھر ہم تو خیر ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں، ہمیں یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ ریاست اور ملک کا بھی مذہب ہوتا ہے۔ ہم چونکہ مسلم ملک کے باسی ہیں، اس لیے خواتین کا پردے میں رہنا تو لازمی ہے اور عورت کے اس پردے کے لیے بھی ہر فرقہ کے پاس اپنا عبایا یا برقع ہے، ہاتھ نظر آنے چاہیں یا نہیں، پاؤں میں موزوں تک کی رنگت کا تعین بھی منبر پر بیٹھا مولوی کرتا ہے، وہ شلوار جس کا چودہ سو برس کوئی تصور نہیں تھا اس کے پہننے کے طریقہ کار، اس کو ٹخنوں کے اوپر رکھنا ہے یا نیچے، وہ مسئلہ بھی مولوی کے پاس لایا جاتا ہے۔ ایسے دیس میں خواتین ایک سیاستدان کے جنازے کو کاندھا دیں، انقلابی استقبالیہ گیتوں کی گونج میں سلامی دیں، مرد لوگوں کے ساتھ صفیں بنا کر جنازہ نماز پڑہیں، پھر انقلابی گیت اور جوشیلے نعروں کے ساتھ میت کو لحد میں اتار کراس ہر ہاتھوں سے مٹی ڈالیں، یہ سب کچھ جاہل ملا کے بتائے ہوئے مذہب، اس فرسودہ سماجی نظام اور ان کی گھٹیا روایات سے بغاوت نہیں تو اور کیا ہے؟ خواتین اور مردوں کا اس لاش پر نوحہ کناں ہونا اپنی جگہ لیکن ان کے لبوں پر امید کے گیت، منزل پانے کے گیت، حاصلات کے گیت، حوصلے اور آرزوں اور تبدیلی کے گیت تھے۔

خواتین اس ملک کی آدھی آبادی ہے، لیکن برسوں سے ان کی حیثیت تسلیم کرنے کے مطالبات ہوتے رہے ہیں۔ جس ملک کی پارلیمنٹ میں انتہاپسندوں کے حامی ممبران کوایجوکیشن ختم کرانے کے لیے قرارداد لانے کو تیار ہوں، جہاں سپریم کورٹ میں ایسے مشترکہ تعلیمی نظام کو یہود و کفار کا نظام کہہ کر درخواستیں دینے کی تیاری ہو رہی ہو، جہاں پردہ کو لازمی قرار دینے کے لیے قانون سازی کی بات کی جائے، کیا اس ملک میں یہ واقعہ بڑا نہیں کہ خواتین ایک مرد کی لاش اپنے کاندہوں پر اٹھا کر دفنائیں یا جنازے نماز والے مذھبی فریضے میں وہی خواتین مرد بھایوں کے ساتھ صف بندی کرکے نماز ادا کریں ۔ یہ سب کچھ اس بات کا اعلان ہے کہ اب انسان کو جنم دینے اور پالنے والی عورت اسے اکیلے دفن کرنے کے لیے بھی ذھنی طور تیار ہے، اور جو عورت اس حد تک تیار ہو اسے کون شکست دے سکتا ہے؟

یہ شروعات سندھ سے ہوئی ہے، سندھ کی اس انقلابی عورت نے ثابت کر دکھایا کہ وہ ان ملایت کے جھوٹے درس، تشریحات، دقیانوسی روایات اور بندشوں اور خستہ حال سماجی زنجیروں سے آزاد ہو چکی ہے، کسی نے مجھے بتایا کہ سندھ میں ایسے ایک دو واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں مہان شاعر شیخ ایاز کی میت کو لحد میں اتارنے کے وقت ایک شاعرہ شاید زیب نظامانی موجود تھیں یا پھر 2016 میں ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے نوجوان افضل پنہور کی والدہ بھی اپنے لال کی میت کے ساتھ قبرستان آئی اوربیٹے کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا تھا۔

دنیا کے عظیم فلاسفر سقراط اور افلاطون دونوں صنفی امتیاز کے مخالف تھے، سقراط کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ صنفی امتیاز کے موضوع پر بحث کرتے اکثر گھوڑا گاڑی کی مثال دیا کرتے تھے کہ اگر چھکڑے کو گھوڑا کھینچ سکتا ہے تو وہی کام گھوڑی بھی بہتر انداز میں انجام دے سکتی ہے، اسی طرح جنس کی بنیاد پر امتیاز بے معنیٰ ہے، کسی عورت کو بھی اعلیٰ مقام مل سکتا ہے، سقراط کے بعد آنے والے افلاطوں بھی ان ہی خیالات کے تھے کہ عورت ریاست کے ہر عہدے تک پہنچ سکتی ہے بات قابلیت کی ہے، رسول بخش پلیجو سقراط نہیں تھے لیکن انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ خواتین کو سیاسی میدان میں رہنمائی کرنی چاہیے، ایک جگہ تو پلیجو نے یہاں تک بھی کہا تھا کہ میری خواہش ہے کہ میری جماعت کی سربراہی کسی محکوم اور استحصال کا شکار طبقے کی کسی کولھی بھیل عورت کے پاس ہو، اور ہم نے دیکھا کہ اس جنازے میں مسلم، غیر مسلم مرد اور خواتین کا کوئی فرق نہیں رہا تھا۔

پاکستان میں خواتین حقوق کے لیے متحرک تمام اداروں اور تنظیموں کو فوری طور پر رسول بخش پلیجو کی تیار کردہ ان بڑے بالوں والی عوامی فوج سے رابطہ کرنا چاہیے جو خوب سمجھتی ہیں کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور جن کو یہ بھی پتا ہے کہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فائلوں کا پیٹ بھرنا اور بڑے بڑے عہدے لیکر عورت حقوق نہیں لیے جا سکتے ان کے لیے پلیجو جیسا استاد بھی ہو اور تپتے سورج میں نگنے پاؤں لانگ مارچ کی تپسیا سے گذر کر اس مقام پر پہنچا جا سکتا ہے، خواتین کی بات کرتے میں ان لڑکیوں کی بہادری کو نہیں بھول سکتا جو خود ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہیں، میں تنویر آریجو، سورٹھ اور سسئی لوہر کی سربراہی میں چلنے والی اس تحریک کو بلکل نہیں بھول نہیں سکتا۔ پورا سندھ ان کے ساتھ ہے، اور وہ تحاریک اپنے گم کردہ پیاروں کی بازیابی کی لیے چل رہی ہیں، ایک اور تحریک کی رہنمائی اس ننھی منی لڑکی ام رباب کی سربراہی میں چل رہے ہے جس کے بابا، چچا اور دادا کے قاتلوں کے نشانات پیپلز پارٹی کے کیمپ تک جاتے ہیں۔ اس ام رباب نے بھی حلف اٹھایا ہے کہ جب تک سرداروں کے روپ میں جلاد قاتل نہیں پکڑے جاتے تب تک آرام سے نہیں بیٹھوں گی، یہ بالکل وہی ام رباب ہے جو کراچی میں چیف جسٹس کی گاڑی کے آگے رکی تھی، پورے میڈیا پر خبریں چلنے کے باوجود ٹکرز پر سوموٹو لینے والے متحرک چیف جسٹس کو پتا نہیں کیوں اس بچی کی چیخ پکار سنائی نہیں دی۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar