عمران خان کا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں دیا گیا مکمل انٹرویو


میزبان: آپ اپنے صوبے خیبر پختونخوا کے ریکارڈ کی بات کرتے ہیں، خورشید شاہ (قائد حزب اختلاف ) کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ایک نادر موقع تھا کہ اپنا ایجنڈا مکمل طور پر خیبر پختونخوا میں متعارف کرواتا لیکن عمران خان ناکام رہا۔ خان کہتا ہے کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دے گا لیکن وہ اپنے دور میں پانچ ہزار نوکریاں بھی نہیں دے سکا۔ بات تو صحیح ہے۔

عمران خان: ایک بات ہے بس، خیبر پختونخوا پاکستان کے سب صوبوں میں واحد صوبہ ہے جو کسی جماعت کو دوسری بار موقع نہیں دیتا، وہ صرف ایک بار موقع دیتا ہے، جیسے ایم ایم اے کو ایک بار 2002 میں موقع ملا لیکن بعد میں فارغ ہو گئی۔

میزبان (بات کاٹتے ہوئے ): ؛میرا پوائنٹ یہ ہے کہ آپ کےپاس اپنا ایجنڈا ثابت کرنے کا بہترین موقع تھا، آپ نے نہیں کیا۔ یہ بتائیں کہ کیوں نہیں؟

عمران خان: میں، میں وہی بتانے کی کوشش کررہا ہوں، میں اسی طرف آ رہا ہوں، اچھا اب، عوامی نیشنل پارٹی کو بھی ایک موقع ملا، فارغ ہو گئی۔ خورشید شاہ کو مت سنیں، ایسا کہنا تو ان کی مجبوری ہے۔ اب آج، خیبر پختونخوا کے سارے سروے آپ دیکھیں کہ۔ ۔ ۔

(اینکر نے پھربات کاٹ دی)
میزبان: آپ نے کتنی جابز پیدا کیں اپنے صوبے میں؟ کیا آپ نے نئی یونیورسٹی بنائی وہاں؟ کیا آپ نے نیا ہسپتال بنایا پختونخوا میں؟

عمران خان: سب سے پہلے تو آپ اگر سارے سروے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تحریک انصاف کے ووٹ آج ڈبل ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور کے وعدے پورے کیے ورنہ لوگ کیوں کہیں گے کہ وہ دوبارہ تحریک انصاف کو ووٹ دینگے؟ تو یہ ہے وہ معیار بجائے اس کے کہ آپ دیکھیں اپوزیشن کیا کہہ رہی ہے۔

پختونخوا تمام انسانی ترقیاتی شعبوں میں سب سے آگے ہے، حالیہ گیرالڈ سروے کے مطابق پختونخوا صحت میں سب سے آگے ہے۔ قانونی ادارے بہتر ہیں، پولیس نمبر ون ہے، ماحول، ماحول کی تو بات ہی نا کریں، پہلی دفعہ پاکستان کی تاریخ میں کسی صوبے نے ایک ارب درخت لگائے ہیں۔

میزبان: اچھا، لیکن کیا آپ نے نئی یونیورسٹی بنائی خیبر پختونخوا میں؟ کیا آپ نے نیاہسپتال بنایا خیبر پختونخوا میں؟ کیا آپ نے جابز پیدا کیں وہاں جو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ پاکستان میں پیدا کریں گے؟

عمران خان : خیبر پختونخوا میں غربت آدھی رہ گئی ہے۔ سب سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کے پی وہ صوبہ تھا جس پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کاسب سے زیادہ اور برا اثر پڑا۔ یہ تباہ ہو چکا تھا۔ اس کی 70 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی تھی۔ باقی سارے صوبوں میں کل ملا کر 99 بڑے دہشتگردانہ حملے ہوئے تھے جبکہ کے پی اور فاٹا میں 200 حملے ہوئے، صرف ایک اکیلے کے پی میں، کے پی تباہ ہو چکاتھا۔

میزبان: مجھے کنفیوز کر دیاہے آپ نے خان جی، میں پوچھ کچھ رہی ہو آپ سیکورٹی صورتحال لے کر بیٹھ گئے ہیں، دیکھیں میں آپ سے سماجی پالیسی کے بارے میں بات کر نا چاہ رہی ہوں۔ آپ نے غربت اور عدم مساوات پر بہت باتیں کی ہیں نا؟ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ اپنے طور پر اپنی الیکشن کمپین میں تو یہ بات بہت کہتے ہیں کہ ”ایک مہذب معاشرہ اونچے اور خوبصورت گھروں سے نہیں بنتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ چھوٹے چھوٹے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں کیسے رہتے ہیں؟ جبکہ خود آپ ایک خوبصورت ولا نما محل، یا محل نما ولے میں رہتے ہیں جو پہاڑیوں میں اسلام آباد کے پاس ہے اور اس کی قیمت کئی ملین امریکن ڈالرز تک ہوسکتی ہے۔ اور یہ بات آپ پیغام کے منافی ہے، کیا نہیں ہے ایسا؟

عمران خان: دیکھیں زینب، میں کسی بھی گھر میں رہتا ہوں۔ اگر وہ گھر میں نے قانونی طریقے سے ٹیکس ادا شدہ پیسوں سے بنایا ہے اور مجھے پسند ہے وہاں رہنا تو وہ میرا مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے دل میں لوگوں کی محبت نہیں، میں نے جو کیا ہے وہ سنیں، میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ رفاہی کام کرتا ہوں، میں نے کینسر ہسپتال بنایا جو پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ ہے، ایک دوسرا کینسر ہسپتال بنایا، جہاں 75 فیصد کینسر کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔

(اینکر نے دوبارہ بات کاٹ دی)
میزبان : لیکن کیا آپ اس بات پر شرمندہ نہیں ہوتے کہ آپ خود ایک کئی ملین ڈالر کے محل میں رہتے ہیں لیکن آپ بات جھونپڑ پٹی کے غریبوں کی کرتے ہیں؟

عمران خان :یہ گھر میں نے اپنے لندن فلیٹ کو بیچ کر بنایا تھا جو میں نے اپنے کرکٹ کھیلنے والے دور میں بنایا تھا۔ یہ گھر اس فلیٹ سے مہنگا نہیں ہے جو میں نے کینسنگٹن میں بیچا تھا۔ اور میں یہ بھی بتا دوں کہ میں نے یہ سپریم کورٹ میں ثابت کر دیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو پتہ ہے یا نہیں کہ مجھے بھی سپریم کورٹ میں یہ بتانا پڑا تھا کہ میرے پاس اس گھر کے لیے پیسے کہاں سے آئے۔ کیونکہ اس وقت وزیر اعظم سے یہ پوچھا جا رہا تھا۔

میزبان: اچھا آپ کی ذاتی رہائش گاہ کے موضوع سے آگے چلتے ہیں۔ ۔ ۔

عمران خان: دیکھیں اس بنی گالہ والے گھر کی قیمت کل ملا کر اس ایک فلیٹ جتنی۔ ۔ ۔

میزبان: اوکے آپ نے یہ خوب واضح کر دیا ہے۔ اچھا اب سیکورٹی اور مسلح فورسز وغیرہ کے بارے میں بات کرتے ہیں، ایک بات جو ایک الزام مسلسل آپ پر لگایا جاتا ہے، جیسا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اکثر آپ کے بارےمیں کہتی ہیں کہ آپ پاکستانی آرمی کی ایک کٹھ پتلی ہیں، فوج کا ایک مہرہ ہیں۔ کیا آپ واقعی ہیں؟

عمران خان : واہ، مریم نواز کو یہ بات کہنا زیب نہیں دیتا، اس کے اپنے والد کو ضیاء الحق نےسب کچھ بنایا تھا۔ ضیاء الحق کی آمریت نے بنایا تھا۔

میزبان: لیکن دیکھیں مجھے یہ بھی پوچھنا ہے کہ جب 1999میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو آپ نے اسے اچھا کہا ظاہر ہے آپ نے اس کے خلاف اتنی لمبی کمپین چلائی، حتی کہ اس وقت آپ نے یہ تک کہا کہ آپ کو اگر جنرل مشرف حکومت میں شمولیت کی دعوت دیں تو آپ قبول کریں گے۔

عمران خان: یہ غلط ہے میں نے ایسا نہیں کہا حالانکہ آفر تھی مجھے لیکن میں واحد سیاسی راہنما تھا جس نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ اسی جنرل پرویز مشرف نے مجھے جیل میں ڈال دیا تھا اور میں واحد سیاسی لیڈر ہوں جسے جنرل پرویز مشرف نے جیل میں ڈالا تھا۔

میزبان: اچھا ٹھیک ہے آپ نے ریکارڈ درست کر دیا، لیکن ابھی کچھ اور باتیں ایسی ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت حساس باتیں ہیں مثال کے طور پر آپ کے بارے میں یہ جو کچھ کہا جا تا ہے کہ آپ پاکستان آرمی کی کٹھ پتلی ہیں، اس کا تعلق انسانی حقوق سے بھی ہے مثال کے طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل 2017۔ 2018 رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزی مثال کے طور پر تشدد، ماورائے عدالت قتل، حبس بے جا میں قید رکھنا، افراد کو لاپتہ کر دینا وغیرہ کی جاتی رہیں۔ کیا آپ کو ان معاملات پر روشنی نہیں ڈالنی چاہیے؟ کیا آپ کو ان باتوں کا دھیان نہیں کرنا چاہیے؟ بجائے اس کے کہ آپ کہتے رہیں کہ دیکھو ہم نے کے پی میں سیکورٹی فورسز کو بحال کر دیا ہے اور یہ کر دیا وہ کر دیا۔

عمران خان : اچھا میں ایک پوائنٹ ذرا کلیئر کر دوں۔ آپ نے کہا کہ مریم نے کہا ہے کہ مجھے فوج لائی ہے، اوہ میرے پیچھے 22 سالوں کی کوشش ہے۔ اس کے والد کو کوئی نہیں جانتا تھا، انہیں فوج نے اٹھایا اور وزیر اعظم وزیر اعلی بنا دیا، میں تو 22 سال سے کوشش کر رہا ہوں۔ اور اگر کوئی آپ کو بتائے کہ 29 اپریل کو پاکستان میں ایک بہت بڑی ریلی نکلی، تاریخی ریلی جس میں کوئی پانچ لاکھ لوگ نکل آئے۔

جب آپ کے ساتھ لوگ ہوتے ہیں تو آپ کو کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جیسے کہ نواز شریف کو آرمی لے کر آئی تھی۔ لوگ نہیں لائے۔ اچھا ایک تو یہ بات، دوسری بات یہ کہ آرمی اپنے چیف پر انحصا ر کرتی ہے، جنرل ضیاء کی آرمی اور تھی، مشرف کی آرمی اور تھی، اب باجوہ کی آرمی اور ہے۔ لہذا میں مشرف کی آرمی کی مخالفت کرتا ہوں کیونکہ قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کا حامی نہیں تھا۔

میزبان: اچھا اب آپ موجودہ آرمی چیف پر آگئے ہیں اور آپ نے ان کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ اب میں ایک اور بات۔

عمران خان: (بات کاٹتے ہوئے) لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ جنرل باجوہ کیوں بہتر ہے۔

میزبان: دیکھیں میں جنرل باجوہ کے حوالے سے کوئی تنقید نہیں کرنے والی میں بس یہ چاہتی ہو ں کہ آپ مزید کچھ بولیں فوج میں موجود ان عقابی عناصر کے بارے میں اور ان کی حرکتوں کے بارے میں جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق انہوں نے کیں۔

عمران خان: دیکھیں میں نے پاکستانی آرمی کو قبائلی علاقوں میں بھیجنے کی مخالفت کی، کیوں؟ کیونکہ جب بھی آپ رہائشی اور آباد علاقوں میں فوج بھیجتے ہیں تو وہاں ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کیونکہ آرمی وہاں کسی اور آرمی سے لڑنے نہیں جا رہی وہ گاؤں ہیں، وہاں لوگ رہتے ہیں، میں جنرل باجوہ کو اچھا کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیونکہ وہ پاکستانی تاریخ میں پہلا فوجی سربراہ ہے جس نے خاص طور پر کہا ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے، آئین کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور وہ، وہ سارا گند صاف کرنا چاہتا ہے جو جنرل مشرف کے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3