عمران خان کا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں دیا گیا مکمل انٹرویو


میزبان: وضاحت کے لئے شکریہ، اب ایک اور بات جو بلاول بھٹو نے آپ کے بارے میں کی آپ دراصل طالبان کے ہی بچھڑے ہوئے بھائی ہیں۔ کیا آپ پاکستانی طالبان کو کسی بھی شکل میں پسند کرتے ہیں؟

عمران خان: دیکھیں بلاول کو معاف کیا جاسکتا ہے، چھوڑیں اسے، اسے پتہ ہی نہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ پاکستانی سیاست میں پیرا شوٹ سے آیا ہے، میں نے پاکستانی فوج کی قبائلی علاقوں میں جانے پر مذمت کی۔ اس وجہ سے مجھے طالبان کا حامی سمجھا گیا۔ یہ دراصل جارج بش قسم کی چیز تھی کہ یا تو آپ ایک طرف ہوتے ہیں یا دوسری طرف، یعنی اگر آپ دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں شامل نہیں تو آپ دہشتگردوں کے ساتھ ہیں۔ تو یہ معصومانہ اور احمقانہ سی بات ہے۔

میزبان: اچھا تو پھر یہ بتائیں کہ طالبان کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ کیونکہ جون 2002 میں آپ نے ورکرز کنوینشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ طالبان کے نظام انصاف سے بہت متاثر اور مطمئن ہیں اور آپ طاقت میں آنے کے بعد ملک میں طالبان والا نظام انصاف ہی رائج کریں گے۔

عمران خان : مجھے بتانے دیں کہ طالبان کا نظام انصاف کیسا ہے کیا ہے۔ یہ وہ نظام تھا جو کہ پشتون کے قبائلی علاقوں میں تھا اور یہ کیا ہے؟ ہر علاقے کی ایک ہر گاؤں کی ایک جیوری ہوتی ہے، وہ معاملات کو سنتی ہے، لوگوں کو مفت انصاف ملتا ہے۔ غریب کو انصاف تک رسائی ملتی ہے، کچھ دیر کے لیے طالبان کو بھول جائیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اس دہشتگردی کے خلاف جنگ سے پہلے تک سب سے زیادہ پر امن علاقے تھے۔ وجہ کیا تھی؟ انصاف تک رسائی، کہ جیوری ہر گاؤں کی ہوتی تھی، وہ دونوں فریقین کو سنتی تھی اور انصاف کرتی تھی۔ اور وہ علاقے جرائم سے پاک تھے۔

میزبان: کیا آپ نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے عمران؟ کیونکہ یہ بات آپ نے 2002 میں کی، جبکہ 2014 میں انہی پاکستانی طالبان نے پشاور سکول پر حملہ کیا جس میں قریبا 145 لوگوں کو جن میں تقریباً سب بچے ہی تھے قتل کیا۔ ملالہ پر بھی پاکستانی طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنا نمائندہ بننے کا بھی کہا لیکن آپ نے انکار کر دیا کہ آپ اپنا نمائندہ خود منتخب کریں لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ آپ کو پسند کر تے ہیں۔

عمران خان : زینب، 2002 میں کوئی پاکستانی طالبان نہیں تھے۔ اور جب میں نے وہ بات کی تھی وہ افغان طالبان کے بارے میں تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خانہ جنگی کے شکار تباہ شدہ افغانستان کو پرامن بنا دیا تھا۔ اگر آپ ملا ضعیف کی کتاب ”لونگ ود طالبان“ پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انہوں نے ایسا پشتون نظام انصاف پر عمل کر کے کیا تھا جو ایک جرگہ سسٹم ہے۔ اس سے امن آیا تھا۔

سنہ 2002 میں پاکستانی طالبان وجود نہیں رکھتے تھے۔ پاکستانی طالبان 2006 میں بنے، اور میں ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ آج ہمارے پاس پختونخوا میں وہی پولیس کا نظام ہے، جس میں ایک جیوری ہوتی ہے اور لوگ انصاف تک رسائی رکھتے ہیں اور یہ بہت مقبول ہے کیونکہ غریب لوگ وکیل تک رسائی نہیں رکھتے۔

میزبان: کیا آپ پاکستانی طالبان سے اب بات کرتے ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ معاملات طے کر سکتے ہیں؟

عمران خان: وزیرستان آپریشن کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ طالبان کو افغانستان میں دھکیلا جا چکا ہے۔ اب پاکستان میں مشکل سے کوئی جنگجو موجود ہے۔ ہمیں دراصل اب داعش سے اصل مسئلہ ہے کیونکہ یہ افغانستان میں پاکستانی سرحدوں پر موجود ہے۔ اور مستقبل میں زیادہ خطرہ داعش سے ہے۔

میزبان : اچھا اب دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتےہوئے میں امریکہ کو لے کر کچھ بات کرنا چاہوں گی کیونکہ آپ کی جماعت کی جانب سے امریکہ مخالف جذبات کافی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ شیریں مزاری نے پچھلے دنوں کہا کہ جو بھی امریکہ کا دوست ہے وہ غدار ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو 60 سالوں تقریبا 67 بلین ڈالرز دیے۔ مانا کہ زیادہ تر جنگی امداد کی مد میں دیے گئے۔ ظاہر ہے امریکہ آپ کے لیے بہت سخی ثابت ہوا ہے تو آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔ کیا آپ امریکہ مخالف ہیں؟

عمران خان : پہلی بات تو یہ کہ شیریں مزاری کے اپنے نظریات اور سوچ ہیں اور ہر سیاسی جماعت میں یہ سب ہوتا ہے، متضاد سوچیں ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے اسے واضح کرنے دیں کہ پاکستان اور امریکہ کو دوست بننا ہوگا، امریکہ سپر پاور ہے، لیکن جو بات ہمیں دکھ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ افغان معاملات کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ جبکہ ہم وہ ملک ہیں جس نے امریکہ کی جنگ قربانی کا بکرا بنا کر 70 ہزار سے زائد لوگ شہید کروائے، ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالر ز سے زیادہ کا نقصان پہنچا کیونکہ جنرل مشرف نے ہمیں ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جو ہماری جنگ نہیں تھی۔ اور میں نے اس کی مخالفت کی، اور آخر میں ہمیں پھر ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیں غلط طور پر امریکہ کی افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔

میزبان : کیا اب آپ امریکہ مخالف ہیں؟

عمران خان : اگر میں پاکستانی حکومت کی پالیسیز کی مخالفت کرتا ہوں تو کیا میں پاکستان مخالف ہوں؟ اگر آپ امریکہ میں حکومت کی کسی پالیسی کی مخالفت کرتی ہیں تو کیا آپ اینٹی امریکہ ہیں۔

میزبان : اچھا تو اب آخر کار میں آپ کے سامنے یہ بات لے آئی ہو ں آپ کی ذاتی زندگی نے گزشتہ کچھ عرصہ میں بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ جیسا کہ آپ کی تین شادیاں، جیسے امیرزادی جمائمہ، اور گلیمرس ٹی وی ہوسٹ ریحام سے شادی، کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ آپ کے پیروکاروں میں آپ کا جو ایک بڑا پرہیزگار ٹائپ امیج ہوتا ہے اسے تھوڑا سا داغدار کرتی ہیں؟

عمران خان : نہیں دیکھیں، ذاتی زندگیوں میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں، بہت سی چیزیں ہمیں متاثر کرتی ہیں۔ میں بھی اسی قسم کے حالات میں رہا ہوں۔ یہ میری تیسری شادی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ پبلک کا اس سے کوئی تعلق بنتا ہے۔

میزبان : عمران خان آپ کا بے حد شکریہ۔
عمران خان: شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3