الیکش، لوٹے اور جمہوریت


پاکستان میں پانچواں موسم الیکشن کا اپنے جوبن پہ ہے اور کچھ دن ہی رہتے ہیں دمادم مست قلندر ہونے کو ہے۔ کمال کی بات ہے جمہوری حکومت نے سیشن مکمل کیا بھلے وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکے حسب ِ روایت۔ سیاسی جماعتوں کے ممبرز کاغذات نامزدگی جمع کروارہے ہیں لیکن یہاں پر لوٹا کریسی چل رہی ہے، ہر جماعت کے امیدواروں میں آپا دھاپی اور دھڑ پٹخ ہورہی ہے جس کو ذرا سی بھی امید تھی کہ فلاں جماعت اکثریت سے جیتے گی وہ اپنی وفاداری بدل کر اس جماعت میں داخل ہوگیا لیکن ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض، بات ناراضگی کی تو ہے اتنی امید لگا کر اپنی پرانی پارٹی سے بے وفائی کرکے نئی پارٹی میں شامل ہوئے اور انھوں نے بھی دھتکار دیا اب دھوبی کا کتا نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا، بعض سیاسی لوٹوں کی تو نکل پڑی کس طمطراق سے دوسری جماعت میں گئے اور وہاں سر آنکھوں پر بٹھائے گئے انھیں ٹکٹ بھی ملی اور وہ الیکشن بھی لڑیں گے۔
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

اس الیکش میں لوٹوں کی کچھ زیادہ ہی سنی جارہی ہے پرانے سیاسی کارکن اور پارٹی ممبرز خود کو رد کیے جانے پر دل پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ احتجاج ہورہا ہے ٹکٹ نہ ملا کیا کریں ہنگامہ ہی سہی، پارٹی قیادت دباؤ میں ہے کسے ٹکٹ دیں کسے نہیں، دونوں بڑی پارٹیاں سخت کشمکش میں ہیں۔ امیدواروں کا دباؤ اتنا ہے کہ وہ ہلڑ بازی، احتجاج اور دھرنے پر اتر آئے ہیں۔ لاہور، اسلام آباد، اوکاڑہ، فیضل آباد، گوجرانوالہ بہالولہور، نوشہرہ میں ٹکٹوں کی مبینہ تقسیم کے خلاف کارکن سراپا احتجاج ہیں۔ وفادار اور نظریاتی کارکن پریشان ہیں۔

الیکشن میں سیٹ ملنا اور جیت کر اسمبلی میں آنا ہی مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ قوم کی خدمت کا جذبہ ہوتو وہ اسمبلی سے باہر رہ کر بھی کی جاسکتی ہے۔ اسمبلی کا ممبر بن کر تو بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے، جب سے احتساب کا عمل شروع ہوا ہے تو ہر ممبر کو اپنی ذمہ داری سوچ۔ سمجھ کر نبھانی ہوگی، اب پہلے کی طرح آنکھوں میں دھول جھونک کر ممبر اسمبلی، وزیر، سفیر نہیں بن سکتے، عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوگیا ہے اور وہ ان لوٹوں کو بھی ووٹ نہیں دیں گے جو اپنی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں۔

ایک اور لوٹے ہوتے ہیں جو منتخب تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے ہوتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچ کر طے کرتے ہیں کہ انھیں کس کے ساتھ رہنا ہے، آزاد امیدواروں کی گنتی اس لیے خطرناک ہوجاتی ہے کہ ان کی شمولیت سے حکومت بن بھی سکتی ہے اور گرائی بھی جاسکتی ہے یعنی آزاد امیدوار وہ لوٹا ہے جس کی منہ مانگی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے تاکہ اپنے آپ کو وہ پارٹی اقتدار میں رکھ سکے۔ یہی آزاد لوٹے جب اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو ترقی پاکر گھوڑے کا روپ دھار لیتے ہیں جسے ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے یہاں ان کی قیمت کروڑوں میں ہوتی ہے یہ بکتے بھی ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا۔ یار لوگ اسے ہی سیاست کہتے ہیں شاید لیکن اس میں ووٹ کی عزت حرمت سب مٹی میں مل جاتی ہے۔
جن کو میں نے چنا ہی نہیں
طاقتیں وہ ہی معتبر کیوں ہیں

بہر حال یہ تو اچھا ہے کہ الیکشن ہو رہے ہیں امید ہے وقت پر ہوکر منتخب نمائندے اسمبلی میں آجائیں اور جمہوریت کا سفر جاری رہے۔ کاش عوام برادری، ذات اور شخصیت پرستی سے بالا تر ہوکر اپنا ووٹ کاسٹ کریں تاکہ جمہوریت کا حسن دوبالا ہو جائے اور پاکستان بھی جمہوریت کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے۔ آجکل ایک مثال بہت دی جارہی ہے کہ جب ہینڈ پمپ نیا لگاتے ہیں تو پہلے گدلا پانی آتا ہے پھر آہستہ آہستہ پانی صاف ہوتا جاتا ہے کاش پاکستان کی جمہوریت بھی گدلے پن سے نکل کر صاف شفاف ہوجائے اور ہم بھی جمہوریت سے فائدے اٹھائیں۔

وہ جمہوریت جو دنیا بھر میں رائج ہے کہ الیکشن کے نتائج آتے ہی وزیراعظم خوشدلی سے منتخب وزیراعظم کو اقتدار سونپ دیتا ہے، جہاں کوئی نگراں حکومت الیکشن نہیں کرواتی بلکہ پچھلی حکومت ہی الیکشن کا انعقاد کرتی ہے اگر وہی پارٹی جیت جاتی ہے تو سب خوش اسلوبی سے مان لیتے ہیں اور ہار جاتی ہے تو خندہ پیشانی سے ہار مان کر اقتدار مخالف پارٹی کو دے دیتی ہے، جہاں الیکشن والے دن چھٹی نہیں ہوتی، جہاں الیکشن کیمپین حد میں رہ کر کی جاتی ہے، بلاوجہ کی دھاندلی کا شورغوغا نہیں مچایا جاتا، جہاں کوئی بڑا حادثہ ہونے پر متعلقہ وزیر استعفیٰ دے دیتا ہے اور اپنی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے۔ ایسی ہی جمہوریت ہمارا نصب العین ہے کاش شعور کی بلندی عطا ہو تو ہم بھی جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).