باجی میٹرو لندن جائے گی؟


\"leenaمیٹرو سروس کا جب بهی حکومتی کارندے ذکر کرتے ہیں تو ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم میٹرو اسٹیشن پر جاکر میٹرو کی آرتی اتاریں۔ اس پر تلک لگائیں،اس کی بلائیں لیں۔ ماشااللہ جس دن سے بنی ہے اسی دن سے خسارے میں چل رہی ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا جس ملک میں میٹرو چلتی ہے اس کے وزیراعظم کو لندن جا کر علاج کروانےکی کیا ضرورت تهی۔

ان فرنگیوں کو کیا خبر کہ علاج کس طور کیا جاتا ہے۔

کیونکہ ہماری حکومت کے مطابق ہر بیماری کا علاج سڑکیں، میٹرو اور اورنج ٹرین ہے بالکل اس ڈاکٹر کی طرح جو ہمارے محلے کے نکڑ پر اپنی دوکان نماکلینک سجا کر بیٹھا تها اور جس کے پاس ہر مرض کا علاج تین گولیاں ہوتی تهیں، جن کا رنگ نیلا، پیلا اور سفید ہوتا تها۔ اکثر اوقات بہت سے مریض بهی ان کو کھاتے ہی نیلے، پیلے اور سفید پڑ جاتے۔ کبھی بهی محترم نےکسی کے ٹیسٹ کروانے کی زحمت نہ کی۔

جسم کے اندر کی صورتحال جانے بغیر اوپر سے مرہم پٹی کرنے سے زخم یا مرض کا علاج ممکن نہیں۔ اندر ہی اندر جب زخم گلتا رہے تو ناسور کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔  ظاہری تهوپا تهاپی سے خستہ حال عمارت کی بنیادوں کو کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ جب تک بنیاد مضبوط نہ ہو، اسکے ڈهے جانے کا اندیشہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ہماری حکومت نے بهی کچھ ایسی ہی حکمت عملی کو اپنایا ہے۔ ملکی ترقی کے راز کو اپنے بزنس کی ترقی میں پنہاں جاتے ہوئے جگہ جگہ سڑکیں کهودی گئیں۔ ایک بار سڑک بنانے کے بعد بهی اگر منشا پوری نہ ہوئی تو اس کو دوسرے منصوبے کے ساتھ پیوست کر کے ادهیڑبن کا سلسلہ نئے سرے سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ تعلیم اور صحت اس دوران صرف ادھیڑی جاتی رہیں۔ آسان اور ساده لفظوں میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ عوام کو اوورکوٹ تو پہننے کو دیا جارہا ہے مگر کوٹ کے نیچے پہنے والی بنیان اور قمیض کو نظر انداز کرنے میں کسی کوتاہی سے کام نہیں لیا جا رہا۔ شائد ان کا خیال ہے کہ تعلیم اور صحت جیسے غیر اہم مسائل پر توجہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔

حکمرانوں کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر کے پاکستانیوں کو اپنا غلام بنانے پر عبور حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن عزیز چلے آتے ہیں اورہم ان کو سر آنکھوں پر بیٹھا کر ان کی آو بھگت کرتے ہیں اور نتیجہ میں وه اپنا اپنا الو سیدھا کر کے عوام کو الو بنا کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ارکان اسمبلی اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کے لیے بهی بیرونی ممالک کے ڈاکٹر پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ ان ارکان کے تمام تر اخراجات کو عوام خوش دلی کے ساتھ برداشت کرتی ہے۔ عوام کا تعلق بس ان سے ووٹ تک ره جاتا ہے کیونکہ الیکشن کے بعد نوٹ کمانے میں اس قدر مصروف عمل رہتے ہیں کہ سر اٹها کر ان کو دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ عوام مرے یا جیئے اس سے ان کو کیا سروکار۔

لیہ میں ستائیس لوگوں کی اموات کا سبب غیر معیاری،غیرتسلی بخش طبعی سہولیات ہیں۔ یہ اموات بہت کم ہو سکتی تھیں اگر بر وقت علاج کی بہترین سہولیات مہیا کی جاتیں۔ مٹھائی کے نام پر جو زہر کهلایا گیا وه ایک الگ بحث ہے مگر زہر کو نگلنے والوں کی جان بچانے کے لیے جو اقدامات کئے جانے چاہئیے تھے وہ اصولاََ اتنے معیاری ہی ہونے چاہئے تھے جتنے ہمارے مہربان سیاست دانوں کو مہیا کیے جاتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ان کے علاج معالجے کے بجائے ان سیاست دانوں پر کیوں خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ سوال ایک عرصے سے سوال ہی ہے۔

کل ایک سوال پر ہم نے بهی خاموشی اختیار کی جب ہمارے گهر کی ملازمہ جس کی عمر کوئی پچاس برس کے قریب ہوگی اور جس نے حق حلال کی روزی کے لئےاپنی عمر گزاری۔ اس کی کل متاع زندگی اس کا ایک بیٹا ہے، جس کو ایسی بیماری لاحق ہو گئی ہے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ کل ہمارے پاس آئی تو اس نے ہمیں روتے دهوتے اپنی دکھی دل کی داستاں سنائی۔ کہنے لگی، باجی سرکاری ہسپتال کا بڑا ڈاکٹر کہتا ہے کہ میرے کالو کا علاج لندن میں ہی ہوگا۔ بس باجی مجھے یہ بتا دیجئے میٹرو لندن جائے گی۔ ہمارے پاس تو اس کے سوال کا جواب صرف خاموشی تهی، اگر آپ کے پاس یا کسی صاحب اقتدار کے پاس اس کا جواب ہے تو اس کو بتا دیجئے۔ ہمارے پاس جو جواب تها وه اس کو ہم دے نہیں سکتے تهے اس کو کس منہ سے بتاتے کہ بی بی یہ جو میٹرو ہے یہ لندن تک تو نہ جائے گی مگر لوگوں کی سہولت کے لیے قبرستان تک ضرور جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments