آصف زرداری سے آپ کی کیا رشتہ داری ہے؟  


روم کا مضافات شروع ہو رہا تھا۔ کتنی تمنا تھی اِس عظیم الشان، سفاک اور اندھی طاقت کے مظہر شہر کو دیکھنے کی۔ یورپین تہذیب کا ایک شوکیس جس کے قدیم ترین ورثے حیران کرنے والے ہیں اور ماڈرن سانچے اِسے توانائی سے مالا مال کرتے ہیں۔

گاڑی کی رفتار کم ہوتے ہوتے رُک گئی۔ اسٹیشن لابیاں ٹرین ٹریکوں کے لیول سے روم میں بھی جڑی ہوئی تھیں ۔ مجھے یہ سسٹم بہت اچھا لگا تھا۔ میں انسانوں کے اِس روانی سے بہتے ہجوم میں نثار احمد کو ڈھونڈ رہی تھی۔ چلو دو تین منٹ میں ہی اُس نے مجھے ڈھونڈ لیا۔ شلوار قمیض کے ہوتے ہوئے بھلا پہچان کی کیا دشواری تھی؟ اُس نے میرے ہاتھ میں پکڑی میری ننھی مُنی سی بقچی پکڑی اور میں اُس کے ساتھ باہر آگئی۔ سڑک پر آنے کے ساتھ اُس کا پہلا سوال مجھے ٹھٹھک کر کھڑا کرنے کے لئے کافی تھا۔

 ” آصف علی زرداری سے آپ کی کیا رشتہ داری ہے؟ سچی بات ہے میرے تو کہیں خیالوں میں، کوسوں کوسوں دور ایسے کسی سوال کی توقع ہی نہ تھی۔ میں نے ہونقوں کی طرح اُسے دیکھا اور خود سے کہا۔ ” ارے یہ اُس نے کیا پوچھا ہے؟ مجھ غریبڑی کا کیا واسطہ ناطہ اُس کھرب پتی بندے سے۔“

دفعتاً جیسے برق سی کوند جائے۔ یقیناً میلان پی آئی اے آفس کی رابطہ آفیسر اسماء نے اپنے عملے کو میرے سلسلے میں مرعوب کرنے کے لئے کوئی بڑ ماری ہو گی۔ پھر ایک خیال نے بھی مجھ سے پوچھا۔ پی آئی اے میں زرداری کے شیئرز ہیں؟ یقینا ہوں گے۔ اگر ظاہراً نہ ہوں تو اندر خانے ہوں گے۔بڑے لوگوں کے طورطریقوں اور ہتھکنڈوں کو ہم جیسے بھلاکیا سمجھیں؟ بہرحال میں نے ہوشیاری سے کام لیا اور بات نبھا دی کہ اچھے تعلقات ہیں۔ میرا خیال ہے نثار احمد بڑا کائیاں قسم کا آدمی تھا ۔ سمجھ گیا تھا۔ بولا کچھ نہیں۔ پر چہرے نے اندر کے سمجھنے کو بوتھے پر سجا لیا تھا۔ میں نے بھی ”بھاڑ میں جائے جو مرضی سمجھے“ کہتے ہوئے بڑی چاہت سے اپنے گردوپیش کو دیکھا۔ ریسپشن پر ساری کارروائی بھگتائی۔ 55 یورو کے حساب سے سنگل بیڈ والا کمرہ تین دنوں کی بُکنگ۔ نثار احمد کو وہیں سے بصد اصرار ٹوکرے بھر شکریے کے ساتھ واپس بھجوانا چاہا۔ مگر وہ مجھے کمرے میں پہنچانے پر مُصر تھا۔ ”چلو بیبا کر لو اپنا شوق پورا۔ مائی کو ایک جوڑے اور واش روم کی چپل کے بوجھ سے لدے شاپر کو اُٹھانے کی زحمت سے بچا کر ثواب کما نا ہے تو بھئی کماﺅ۔“

جانے سے قبل اُس نے ایک بار پھر زرداری سے میرے تعلق کی نوعیت جاننا چاہی۔ سچی بات ہے میں بڑی منہ پھٹ عورت ہوں ۔زیادہ دیر ملّمع سازی نہیں کرسکتی۔ اب بھئی اسماء بُرا مانتی ہے تو مانے میں کیا کروں۔ ”ارے میرے بچے ہمارا کیا تعلق اِن اونچی جاتی کے لوگوں سے۔ ہاں مگر چھوڑو اِس بات سے کیا لینا دینا۔ پر سُنو تھوڑا سا گائیڈ کر دو کہ اس وقت ڈیڑھ بج رہا ہے۔ مجھے کہاں سب سے پہلے جانا چاہیے؟

میری بات پر وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور اُس نے کاغذ قلم مانگا۔ صرف چند لمحوں میں ہی اُس نے اِس درجہ مہارت اور ٹیکنیکل طریقے سے کاغذ پر اہم جگہیں، ان کا محل و قوع اور وہاں تک جانے کے سستے موڈ اف ٹرانسپوٹیشن کی تفصیل اور ڈرائنگ بنادی۔اس کی سائنٹیفک اپروچ نے مجھے متاثر کیا۔ میں نے پوچھا۔

”تم روم کب سے ہو؟ بڑے ماہر لگتے ہو۔ تمہارا علم اورمعلومات بہت متاثر کن ہیں۔ اس انداز میں گائیڈ لائنیں یہ تو بڑی ٹیکنیکل اپروچ ہے۔

 اُس کا لہجہ نارمل تو تھا مگر اس میں کوفت اور بےزاری کا عنصر بھی نمایاں تھا۔ چودہ سال کی ملازمت ہے۔ چھ سال پیرس، تین لندن اور اب روم میں گزار رہا ہوں۔ سمجھ لےجائیے بس کوئی گیارہ سال سے پی آئی اے کے بڑے لوگوں، اُن کے بچوں بلونگڑوں، اُن کے رشتہ داروں اور اُن کے واقف کاروں کا خادم ادنیٰ ہوں۔ کوئی بڑی اور بااثر شخصیت جب بھی آتی ہے تو انہیں لئے لئے پھرنا اور اُن کے لئے ہر سہولت بہم پہنچانا میرا فرض منصبی ہے۔ اور اگر کہیں کوتاہی ہوجائے تو تحریری اور زبانی لتّر کھانا بھی میرے مقدر کا حصّہ ہے۔ لوٹ لیا ہے اِس لاجواب پرواز والی ایر لائن کو اِس کے باکمال لوگوں نے۔

اب اس کے پھپھولے شروع ہوگئے۔ سوچ نہیں سکتی ہیں آپ۔ روم اور میلان کے دفتروں میں کیا کیا ہوتا ہے۔ فری ٹکٹ، مہنگے ہوٹلوں میں اُن کا قیام۔ سیر سپاٹوں پر خرچ، کھانے اور شاپنگ۔ جعلی بل۔ دو سال قبل میلان آفس میں آنے والے مینجر نے یہ سب کرنے سے انکار کیا تو اُسے ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔

پی آئی اے کے جگمگاتے دور کو تو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ پر اس کے قصے سُنے ہیں یا ریکارڈ رومز میں تصویریں اور احوال پڑھے ہیں۔ کیا کوئی اساطیری کہانی اتنی دلچسپ اور شاندار ہوگی جتنی اس پی آئی اے کے عروج کی داستان ہے۔ 1962 کا وہ زمانہ جب دنیا کی اِس سپر پاور کی خاتون اول جیکولین کینڈی لاہور میں منعقد ہونے والے ہارس اینڈ کیٹل شو میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرنے کے بعد پی آئی اے سے لندن تک واپسی کا سفر کرتی ہیں۔ لندن ایر پورٹ پر پی آئی اے کے سٹار پائلٹ ایم ایم صلاح جی کو گلے سے لگایا۔ پاکستانی ایر ہوسٹوں اور سٹیورڈ کی خوبصورتی، سمارٹ نس، مہمان نوازی اور سروس و کھانے کو سراہا اور اس سلوگن کو سراہتے ہوئے اس پر اپنے الفاظ کی مہر ثبت کی۔ واقعی پاکستان انٹرنیشنل ایر لائن اسی قابل ہے۔

یہ نورخان کا زمانہ تھا۔ اصغر خان نے اس میں پھول ستارے ٹانکے۔ یہ لوگ مخلص میرٹ پر فیصلے کرنے والے ایماندار اور قابل فخر لوگ تھے۔ اداروں کو بنانے والے ایر مارشل اصغر خان اور نور خان پائلٹوں کی جسمانی و دماغی صحت مندی کے لیے بے حد خیال رکھنے والے افسران تھے۔ پائلٹوں کی بیویوں کو اس بات کی خصوصی تاکید ہوتی تھی کہ وہ اپنے شوہروں کو ذہنی طور پر پرسکون رکھیں۔ اس غرض کے لیے اُن کی ماہانہ میٹنگز ہوتی تھیں۔

فٹ فاٹ جہاز اور لائق پائلٹ دونوں کسی ایر لائن کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ جب جہازوں کے انجنیر اس پائے کے نہ ہوں گے کہ وہ اس کے ہر عضو کی صحت مندی کے کلیرنس کو اس معیار پر نہ جانچ سکیں جو کراس کنٹری فلائٹز اور ڈومیسٹک فلائٹز کے لیے ضروری ہوتا ہے تو پھر حادثے ہونے لازمی ہیں۔

اس کا لہجہ بڑا جذباتی سا تھا جب وہ بولا خدا کی قسم یہ بڑے لوگ کتنے ندیدے ہیں۔ ان کے پیٹ کی ہوس بجھتی ہی نہیں۔ باہر کے ملکوں میں پی آئی اے کے قیمتی اثاثوں پر ان کی حریص نظریں اور منصوبے انہیں اڑانے کے لئے ہر دم مستعد رہتے ہیں۔

 اس کا زوال بھی دکھ سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ زوال کی پہلی اینٹ کے لیے بھٹو کو ذمہ دار گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کہ جب سیاسی تقرریاں ہوئیں۔ ضیا بھی اسی دوڑ میں شامل ہوا۔ 80 کی دہائی کا کیا کہیں کہ جب عرب امارات نے اپنی ایر لائنوں کا اجرا کیا تو انہوں نے بھاری معاوضوں اور مراعات کی پیشکش کی اور پی آئی اے کے لائق پائلٹ اڑا لے گئی۔ اداروں کا زوال اسی دن شروع ہو جاتا ہے کہ جب قابل اور لائق افراد کی بجائے سیاسی طور پر سفارشی اور نااہل افراد کی بھرتیاں ہوں۔

کون ہے جو اس “مجھے کیوں نکالا” کا راگ الاپنے والے لیڈر سے پوچھے کہ آپ نے گیارہ پرائیویٹ ایر لائنوں کو ڈومیسٹک فلائٹز کے لیے لائسینس کیوں دیے؟ صحت مند مقابلہ اچھی بات ہے مگر اِن نجی ایر لائنوں کے طیاروں کو اُس معیار پر پرکھا گیا جو بین الاقوامی کمپنیوں نے رکھے ہوئے ہیں۔ اندر خانے سب کام کمیشنوں کے مرہون تھے۔

کہیں دل سے ہوک سی اٹھتی ہے کیسے بدقسمت ہیں ہم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).