کسی نے کہا تھا کہ دھرتی ماں پھولوں میں مسکراتی ہے۔ مجھے یہ بات پاکستان میں آنے والے انتخابات کے حوالے سے یاد آئی۔ پھول بونے کا رواج ہمارے ہاں بھلے اتنا مضبوط نہ ہو، پر موجود ضرور ہے۔ انتخابات کا موسم درحقیقت مستقبل کی پیش بندی ہے۔ ہم اگر پھول اگائیں گے تو وطن عزیز خوشبوؤں کا مسکن بن جائے گا۔ اگر ہم کانٹے بونے کی اپنی روش تبدیل نہیں کریں گے تو ہمارا مستقبل لہولہان ہی ہوگا
ٹکٹس کی بندر بانٹ جاری ہے۔ جماعتِ اسلامی کے ساتھ کوئی لاکھ اختلاف رکھے یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس کے اندر  جمہوریت کار فرما ہے۔ جماعت کے ٹکٹس باقاعدہ ایک نظام کے تحت ملتے ہیں۔ جماعت کی ٹکٹس کی تقسیم پر بھی اعتراضات ہوتے ہیں لیکن ان اعتراضات کی نوعیت بلکل مختلف ہوتی ہے
موجودہ فضاء میں پی ٹی آئی کے سواء قومی دھارے میں شامل کسی بھی جماعت سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ نیک سیرت، قابل، زہین اور صاف ستھرے کردار کے حامل لوگوں کو آگے لائے۔ تحریک انصاف نے سالہا سال تک میرٹ کا راگ الاپ کر مڈل کلاس اور ملک کے سنجیدہ طبقات کی امیدوں کو ہوا دی لیکن افسوس کہ جب وقتِ قیام آیا تو پوری پارٹی جا کر الیکٹیبلز کے در پر سجدہ ریز ہوگئی۔ موروثی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دعویدار جماعت موروثیت کی علامت بن کر رہ گئی۔
میں ایک سیکنڈ کے لئے یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ پاکستان میں الیکشن جیتنے کے لئے سرمایہ دار اور جاگیردار الیکٹیبلز کے سواء کوئی چارہ نہیں۔  لیکن چلئے یہ مان لیتے ہیں تو بھی درمیانی راستہ تو بہرحال موجود ہوتا ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے سارے کے سارے  ٹکٹس ایک ہی خاندان میں تقسیم کرنا چی معنی دارد؟ نہایت  آسانی کے ساتھ ملک بھر میں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر نئے چہرے متعارف کرائے جا سکتے تھے۔ کے پی کے میں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ کل پرسوں بھی عرض کیا تھا کہ ۲۰۱۰ کا سیلاب جہاں پورے ملک سمیت نوشہرہ میں بھی بہت بربادی لایا تھا وہاں  ایک سنہرا موقع بھی فراہم کیا تھا ، روایتی سیاست کے نمائندے پرویزخٹک سے نجات کا۔
عوام پہلے ہی پرویز خٹک کی سیاست اور کارکردگی سے نالاں اور مایوس تھے۔سیلاب کی تباہ کاریوں اور پرویز خٹک کی سردمہری نے عوام کو اتنا مایوس کیا کہ  انہوں نے خٹک سے جاں خلاصی کا پکا ارادہ کر لیا۔ پرویز خٹک کو بھی دیوار پر لکھا صاف دکھائی دے رہا تھا لیکن اللہ بھلا کرے عمران خان کا جو پرویزخٹک کی مدد کیلئے آئے اور قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کی ایک ٹکٹ پلیٹ میں رکھ کر پیش کردئے۔ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں ۔ پرویزخٹک نے موقع سے فائدہ اٹھا کر نوشہرہ میں سارے ٹکٹس اپنے منظورِ نظر افراد میں تقسیم کردئے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے ایک وزیر کے بارے میں مشہور ہے کہ شام سے ‘یاروں مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں’ والی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور رات دس بجے کے بعد بغیر سہارے کے دو قدم چل نہیں سکتے۔ منظور نظر افراد پر نوازشات  کے علاوہ خود وزیراعلی بن  بیٹھے، اپنے داماد کو ممبر نیشنل اسمبلی بنایا، بھائی ضلعی ناظم اور بیٹے تحصیل ناظم۔ اپنے خاندان کی خواتین کو مخصوص نشستوں پر اسمبلی پہنچایا اور بجانے لگے فتح کے شادیانے۔ رہے نام اللہ کا۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں اگر پرویز خٹک کو تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ ملتا تو بہ مشکل پانچ ہزار ووٹ حاصل کر پاتے
اب تازہ ترین کرم فرمائی ملاحظہ فرمائیے۔ نوشہرہ کے ایک صوبائی اور ایک قومی اسمبلی سے خود امیدوار ہے، ایک قومی اسمبلی سے داماد جی قسمت آزمائی کریں گے جبکہ دیگر سیٹوں پر وہی مشہورِ زمانہ چہرے جن کو خٹک صاحب کی آشیرباد حاصل ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ نوشہرہ میں تحریک انصاف کی ناکامی کی اگر کوئی وجہ ہوسکتی ہے تو وہ پرویز خٹک اور اس کے نامزد کردہ افراد ہیں
بہرحال آج تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے امیدواران کی لسٹ دیکھتے ہوئے نظر ایک نام پر پڑی۔ کامران بنگش۔ خوشگوار حیرت ہوئی۔ کامران ایک نہایت ہونہار اور کام پر یقین رکھنے والے نوجوان ہیں۔ کامران کو شوکت یوسفزئی پر ترجیح دی گئی ہے جو کسی طور قابل اعتراض نہیں۔ قابل اعتراض بات تب ہوتی جب شوکت کی جگہ سٹیٹس کو کا کوئی نمائندہ آن ٹپکتا۔
کامران کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ تبدیلی کا جزبہ واقعی اس کے دل میں موجزن ہے۔ کامران کے  لئے احسان دانش صاحب کا یہ شعر عرض ہے کہ
خدا کرے رہِ منزل سے آشنا نکلے
یہ رہنما جو ابھی کارواں میں آئے ہیں
تبدیلی لانا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں، کاش خان صاحب سمجھ پاتے کہ اللہ تعالی نے ان کو کیا زبردست موقع فراہم کیا تھا