سوال اٹھانا نری گمراہی ہے


ہماری سکولنگ پاکستان میں ہی ہوئی تھی۔ یہاں رواج یہی تھا کہ استاد نے جو کہہ دیا وہ حرف آخر ہے، طالب علم کو خود سے کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ہے بس اس فرمان کا رٹا مار لے تو اس کا بیڑا پار ہے۔ سوال اٹھانا ہی ہے تو وہ درسی کتاب کے دائرے سے ہرگز باہر مت جائے۔ اور اگر رٹا مارنے میں کہیں کوئی کسر رہ جاتی تھی یا بندہ خود سے کچھ سوچنے کی کوشش کرتا تھا تو استاد اپنے بادشاہی اختیارات کو استعمال میں لا کر بچے کو خوب ذہن نشین کروا دیتا تھا کہ یہ ایک قبیح حرکت ہے۔ ایک واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ اسلامیات میں ایک سورہ کی تشریح کرنے کے لیے کتاب کافی نہ لگی تو تفہیم القرآن سے استفادہ کر لیا۔ استاد محترم نے فرمایا کہ بہت خوب، مگر جو تشریح میں نے بیان کی ہے، وہی لکھنا بہتر ہے۔ اس وقت ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے وہ استاد کتنے بڑے عالم ہیں اور ہم خواہ مخواہ ان کے مقابلے میں مولانا مودودی سے استفادہ کرنے کی غلطی کر بیٹھے۔

کالج میں بھی یہی حالات رہے۔ لیکن یہ کہنا غلط ہو گا کہ وہاں درسی کتاب کے علاوہ کسی دوسری کتاب کو استعمال کرنا ممنوع تھا۔ بیشتر طلبہ درسی کتاب کی بجائے خلاصوں اور گیس پیپرز کی مدد سے رٹا لگایا کرتے تھے۔ یا پھر مشہور پروفیسر حضرات کے نوٹس مارکیٹ میں چلتے تھے۔ کالج میں ایک لائبریری بھی ہوا کرتی تھی جس سے طلبہ کو دور رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی تھی کہ کہیں کتابیں کھول کھول کر خراب نہ کر دیں اور لائبریری بیکار میں ضائع چلی جائے۔ سکول اور کالج میں ہماری دنیا بس انہی کتابوں تک محدود تھی جو ہمارے نصاب میں شامل تھیں۔ اور استاد کے آگے چپ چاپ باادب بیٹھنے کو اچھا اور نصاب سے ہٹ کر سوال کرنے کو گستاخی سمجھا جاتا تھا۔

ایسے میں جب سمندر پار جا کر پہلی کلاس اٹینڈ کی تو نہایت ہی شدید صدمہ پہنچا۔ کافی گستاخ طلبہ تھے وہاں۔ اساتذہ کو سر یا میڈیم کہنے کی بجائے ان کو بلا جھجک نام سے بلاتے تھے۔ اور اس پر یہ حالت کہ صبح آٹھ نو بجے کے پیریڈز میں کلاس میں لیکچر چل رہا ہوتا تھا، اور استاد طلبہ کے روشن مستقبل کی خاطر مغزماری کر رہا ہوتا تھا، اور طلبہ ایک ہاتھ میں سینڈوچ اور دوسرے میں سافٹ ڈرنک تھامے بورڈ پر نظریں جمائے ناشتہ کر رہے ہوتے تھے۔ بہت قلق ہوا کہ ان کے ماں باپ اتنا پیسہ خرچ کر کے ان کو یونیورسٹی میں پڑھنے بھیج رہے ہیں اور یہ لوگ نوٹس لینے کی بجائے کھانے پینے کی عیاشی میں پڑے ہوئے ہیں۔ پورا ایک ہفتہ ہمیں یہ صدمہ رہا اور اس کے بعد ہمارا ناشتہ بھی اکثر اوقات وہیں ہونے لگا۔

گورے بھی عجیب قوم ہیں۔ سوال اٹھاتے ہوئے جھجکتے نہیں ہیں۔ جارج نامی ہمارا ایک کلاس فیلو تو بہت ہی شریر تھا۔ وہ استاد کو سقراط سمجھے نہ سمجھے، لیکن خود کو افلاطون سمجھتا تھا۔ کلاس میں پڑھائے جانے والے اسباق پر استادوں سے باقاعدہ بحث کرتا تھا اور دوسرے تمام طلبہ کا قیمتی وقت ضائع کرتا تھا۔ اب یہ بات ہم دیسیوں کو بخوبی معلوم تھی کہ جتنا علم اس وقت ہمارے لیے ضروری ہے، وہ درسی کتاب میں موجود ہے، تو پھر اس موضوع پر چخ چخ کر کے مزید سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟

اب خیال آتا ہے کہ وہاں طلبہ کے علاوہ اساتذہ بھی کچھ کام چور سے تھے۔ آدھا سبق ہمیں کلاس کے لیکچر میں پڑھا دیتے تھے، اور آدھے کے لیے ہمیں کوئی اسائنمنٹ تھما دیتے تھے کہ خود ہی کہیں سے سیکھ آؤ اور لکھ دو۔ لائبریری کی زیارت اکثر کرنی پڑتی تھی۔ کوئی طالب علم یہ اسائنمنٹ کرنے میں کوتاہی کرتا تھا تو سیمیسٹر کا گریڈ تباہ و برباد ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن اسائنمنٹ سے جان لیوا پراجیکٹ ہوا کرتے تھے۔ کافی سر کھپا کر، کتابیں چھان کر، بسا اوقات لوگوں سے انٹرویو لے کر، اور اچھا بھلا دماغ خرچ کر کے تین چار طلبہ کی ٹیم اپنا پراجیکٹ مکمل کیا کرتی تھی۔ گریڈ کا انحصار اچانک ہونے والے کوئز، اسائنمنٹ، پراجیکٹ اور مڈ ٹرم اور فائنل امتحان پر ہوا کرتا تھا۔ رٹے کی گنجائش بہت زیادہ نہیں تھی کہ پچاس فیصد نمبروں کا انحصار ان باقی چیزوں پر تھا۔ سب سے خوفناک امتحان وہ ہوتا تھا جس میں طلبہ کو اجازت ہوتی تھی کہ اپنی پسند کی جتنی کتابیں چاہیں کمرہ امتحان میں لے جائیں، اور ان کی مدد سے سوالات کو حل کریں۔ اچھا بھلا دماغ خرچ ہو جاتا تھا ان اوپن بک ایگزامز میں۔

وہاں کا نظام تعلیم بھی کافی کنفیوز سا تھا۔ اب اگر پاکستان میں کسی نے ڈاکٹری کرنی ہے اور تو اسے ڈاکٹری پڑھائی جاتی ہے، انجینری کرنی ہے تو اس کا نصاب فکس ہے، کسی نے مذہبی عالم بننا ہے تو اس کی کتابیں مخصوص ہیں، یعنی ہماری تعلیم میں کافی یکسوئی پائی جاتی ہے۔

لیکن وہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا تھا۔ اب اگر میں کمپیوٹر سائنس کر رہا ہوں تو مجھے اپنی پسند کے بہت سے کورس ہیومنیٹیز وغیرہ میں سے کرنے پر مجبور کرنے کی کیا تک ہے؟ میاں ایک کورس سائیکالوجی کا لو، ایک سوشیالوجی کا، ایک ہسٹری آف کرسچن تھیالوجی اٹھا لو، اور باقی چھوڑ دو۔ یا کوئی اور کمبینیشن اٹھا لو، کہ ہیومینیٹیز کے کورسوں میں کافی تنوع ہے جس میں سے انتخاب کرنا ہے۔ ایسے ہی مجھے اکاؤنٹنگ اور اکنامکس وغیرہ پڑھ کر کیا کرنا ہے؟ نہ ہی میں کوئی انگریزی میں ایم اے کرنے کا خواہاں ہوں کہ مجھے تخلیقی رائٹنگ، کاروباری خطوط نویسی، بزنس کمیونیکیشن وغیرہ سکھائی جا رہی ہے۔ مگر نہیں صاحب، وہ مصر ہیں کہ مضامین کا یہ یہ گروپ ہم نے بنا دیا ہے، تم نے ان گروپوں میں سے اتنے کورس تو کرنے ہی ہیں، بس یہ رعایت دیتے ہیں کہ ہر گروپ کے دس کورسوں میں سے کوئی سے تین چار کر لو۔

لیکن اب خیال آتا ہے کہ وہ صرف نصاب ہی نہیں پڑھاتے تھے، بلکہ خود سے سوچنا بھی سکھاتے تھے۔ سائیکالوجی اور سوشیالوجی وغیرہ ہمیں بیکار لگتے تھے، مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے ہمیں افراد اور معاشرے کو سمجھنے میں کتنی مدد ملی ہے۔

دوسری طرف ہم اپنی مکمل یکسوئی والی دیسی تعلیم سے  یک رخے جامد دماغ والے افراد کو ہی معاشرے میں بھیج رہے ہیں جو کہ کسی دوسرے شخص کو سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں، جو کہ کسی دوسرے موقف سے آشنا ہی نہیں ہیں، اور ان کو اپنے علاوہ باقی سب لوگ راہ راست سے بھٹکے ہوئے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو سوال اٹھانا نری گمراہی ہے اور اسی وجہ سے ہم ایک سے بڑا ایک بقراط اپنے درمیان پاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments