جیے کوئی ہماری  طرح (چے گویرا)


فیڈرل کاسترو کو “چے کی آج بھی اتنی ہی ضرورت محسوس ہورہی ہوگئی جتنی کل تھی۔”چے گویرا کو کون نہیں جانتا یہ وہ کردار ہے جس نے پوری دنیا کی نسلوں کے لئے مثال قائم کردی۔
ارجنٹائن کے شھر روسایو میں14 جون 1928 میں پیدا ہونے والے اس انقلابی(باغی) سے لوگوں کو بے انتہا محبت، عقیدت اور جذباتی لگاؤ ہے اور کیوبا کے لوگوں کے لئے کمیونسٹ چے عالمی انقلابی ھیرو سے زیادہ مقدس ھستی بن چکا ہے.
1965 میں جب چے جنگ پر جا رہا تھا تو اسے کیوبا کی شہریت دے دی گئی تھی۔ کیوبا کے لوگ آج بھی بڑی فخر سے che -san Ernestode کے اس نعرے کو اپنی رہنمائی کی علامت مانتے ہیں.
“ہمارا ہر عمل سامراج کے خلاف،جنگ کا نعرہ ہے، جب بھی موت آئے گی ہم مسکرا کے اس کا استقبال کریں گئے لیکن شرط یہ ہے کہ ہماری آزادی کا نعرہ کسی دل میں اتر گیا ہو۔”
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ “چے گویرا کو انے والی سینکڑوں دھائیوں تک کیوبا کے لوگوں کا ہیرو اور رہبر رہنا ہے۔ آج بھی ہر صبح کیوبا کے بچے اسکول کی اسیمبلی میں یہ گیت گاتے ہیں
seremos comoel Che۔ جس کا ترجمو ہے ” ہم “چے” جیسا بننا پسند کریں گئے۔”
اج بھی کیوبا میں G” گوریلا اور T” لفظ ٹینک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
“چے کی طیعت میں جتنی نرمی تھی اتنا ہی وہ باتوں میں تیز اور بردبار تھا وہ کسی کو بھی اپنی پر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا۔
“چے نے ایک بار اپنی نائب کو بنا بندوق کے میدان جنگ میں بھیج دیا تھا کیون کہ “چے چاہتا تھا کے نائب اپنی مزاحمتی قوت کو ثابت کرسکے۔
“چے اپنے دوستون سے اکثر کہتا تھا کہ بولیویا کو قربانی دینی پڑے گئی۔ 1967 میں “چے نے بولیویا کے جنگل سے اپنے انقلابی ساتھیوں کو ایک خط میں لکھا۔۔
۔”موت جب بھی ائے اس کا کھلے دل سے استقبال کرو. اگر ہمارے ایک سپاہی کے ہاتھ میں ہتھیار ہو تو دوسرا مشین گن کی کجگوڑ میں قبر کھودنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ”
کیوبا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگ “چے (اس انقلابی لیڈر سے بہت محبت اور عقیدت رکھتے ہیں. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ( باغی) انقلابی بہت جفاکشی سے انقلاب کی راہوں پر بڑھتا گیا آرام اور آسائش کی زندگی کو خیرآباد کہہ دیا یہاں تک کہ اس کی بیوی الیڈا بھی بہت سی مصیبتوں کا شکار رہی۔ چار بچوں کا باپ ہونے کے باوجود بھی”چے خود کو انقلاب سے دور نہیں رکھ سکا اولاد کی محبت بھی اس کے حوصلوں کو پست نہ کر سکی۔
9ا اکتوبر 1967ء کو بولیویا کے ایک چھوٹے سےگاوں لاھگوترLa-Hingueera میں 1:00 بجے بولیویا کے سارجنٹ میزیوٹیران نے ایک کچے مٹی کے گارے سے بنے ہوئے اسکول میں چے کو پھانسی دی تھی۔

محمد بخش سومرو اپنی کتاب” تاریخ کے اڈیندر “میں The GWARGAIN جؤںآٹں کلٰیںسی کی تحریر کو آس طرح سے لکھتے ہیں
میریوٹیران آج کل شراب کے نشے میں دھت رہتا ہے شراب پیتا رہتا ہے۔ایک بار اس نے کہا کہ یہ سب اس نے ڈالرز کی لالچ میں کیا.
“چے کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو “ویلن گریند ویجھو سنوارا ڈی مالٹا نوئٹرا” کی اسپتال میں لایا گیا جہان پریس کے سامنے نمائش کیا گیا ۔لیکن اس گاوں کے لوگون نے “چے ” کےکٹے ہوئے بال تک محفوظ کر کے رکھے ہیں جو آج تک ان کے پاس موجود ہیں۔
یہ ایک المناک وقعہ ہے “جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے اس انقلابی (باغی) لیڈر کی مکمل شناخت کے بعد دشمنون نے “چے کے بازو کاٹ کر اس کے جسم سے الگ کردی تھے۔
لیکن اس بات کو بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا کے”چے ایک ایسا لیڈر، ایسا امر کردار بن کے ابھرا جس نے لوگوں کے دلوں پر ہمیشہ کے لئے نہ مٹنے والی چھاپ چھوڑ دی۔ چے کی موت کے اتنے سال گذرنے کے باوجود بھی اس کی مقبولیت دن بدن بڑھی رہی ہے کم نہیں ہوئی.
چے کے تصویروں والے پوسٹر ، اسکیچ ٹی شرٹ، چائے کے مگز ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ “چے کی زندگی پر لکھی گئی کتابوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ چے کے بارے میں کورڈا کے لوگوں کے کیا تاثرات ہیں لیکن آج بھی میکسیکو اور کانگو کے علاوہ بہت سی جگہیں ہیں جہاں پر چے کے اسکیچ والی بوتلیں اور مشروب بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہے ہیں۔اگرچہ چے چلی اور سلواڈور اینڈی کے لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکا تھا اس کا سبب کوئی بھی ہو لیکن آج بھی نوجوان نسل چے کو اپنا انقلابی ہیرو مانتی ہے۔
آمریکا واشنگٹن نے بہت کوشش کی کہ چے کو مات دیں لیکن یہ آمریکا کے بس کی بات نہیں تھی۔
بقول شاعر جوز مارتی۔۔۔۔۔ امریکا آج بھی لازوال جدوجھد کے Symbol کیوبا کے کمیونسٹ انقلاب کو مکمل طور پر ختم کرنا چاھتا ہے۔
آج بھی اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ سانتا کلارا میں چے کی آخری رسومات سے چے کو مٹایا جا سکتا ہے تو یہ غلط ہوگا۔ چے گویرا تاریخ کا وہ کردار ہے جسے موت مار نہیں سکی، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).